شہر شہر

مجبوری میں کھلتے درخشاں راستے …….. عنایت عادل

مجبوری میں کھلتے درخشاں راستے
عنایت عادل
جمہویت کا جب ذکر آتا ہے تو اس حوالے سے جمہوریت کے کئی ایک حسن بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ان میں سے ایک حسن حکومت کو راہ راست پر رکھنے یا دوسرے لفظوں میں تنقیدی نظر جمائے رکھنے کی خاطر حکمرانوں کے سامنے حزب اختلاف کا وجود پایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی جب جب جمہوری حکومتیں آئیں تو ظاہر ہے ان حکومتوں کے دوران حزب اختلاف کا وجود بھی موجود رہا۔تاہم، تاریخ بتاتی ہے کہ یا تو ماضی بعید کی یہ حزب اقتدار و حزب اختلاف ایک دوسرے کے خلاف سیاسی ملاکھڑوں کا سلسلہ شروع کئے رہیں اور یا پھر ماضی قریب میں جمہوریت کے یہ دونوں ہی ایم ستون باہم شیر و شکر ہو کر اس طعنے کا شکار ہو گئے کہ جنہیں ’’مک مکا ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جانے لگا۔حالیہ جمہوری دور کی ابتداء بھی کچھ ایسی ہی مفاہمتی پالیسیوں کی اس داغ بیل کا سہارا لئے دکھائی دیتی رہی کہ جو گزشتہ دور حکومت میں سابقہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے ہاتھوں مفاہمت کے نام سے ڈالی گئی اور جس کے اصل ڈانڈے مرحومہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان کئے گئے میثاق جمہویت نامی معاہدے سے جا ملتے ہیں۔سیاسی و حقیقی مخاصمت سے پاک اسی مفاہمت کا شاخسانہ تھا کہ گزشتہ دور حکومت جہاں پانچ سال کی آئینی مدت پوری کر گیا وہیں عوام کو درپیش مسائل اور اس مسائل میں اضافے کی (سیاسی طور پر ہی سہی) آواز بننے کا واحد سہارا بھی خاموشی کی چادر اوڑھے محسوس ہوا۔مذکورہ معاہدے کی پابندی کہئے یا کہ زرداری حکومت پر کی جانے والی نیکیوں کا جواب نیکی سے دینے کی کامیاب کوشش قرار دیجئے کہ مسلم لیگ نواز حکومت کے حالیہ دور کے اوائل کا عرصہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حزب اختلاف کی سیاست کے ہونٹوں پر سلائی کی سی تصویر بناتا دکھائی دیا۔حزب اختلاف ہی میں موجود پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومتی و اختلافی بینچوں نے یک زبان ہو کر میاں نواز شریف کے تخت و تاج کی پاسبانی کا دم بھرنا شروع کر دیا۔لیکن پھر برا ہو پاناما لیکس کا کہ اس میں سامنے آنے والے ہوشربا انکشافات نے میثاق جمہوریت کے صفحات کو ہوا میں اڑانا شروع کر دیا اور یوں ہم نے دیکھا کہ شریف خاندان کو جب ایک بار پھر ابتلا کا سامنا ہوا تو عمران خان اس مرتبہ تنہا ئی کے چنگل سے آزادی پا گیا اور وہی جماعتیں(ماسوائے جمعیت علمائے اسلام(ف)کے) کہ جو کچھ ہی عرصہ قبل میاں نواز شریف کی ہمدردی میں بڑھ چڑھ کر سامنے آئیں تھیں، پاناما لیکس کو لے کر عمران خان کی ہمنوا دکھائی دینے لگیں۔پانامہ لیکس میں کئے جانے والے انکشافات کی حقیقت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی جانب سے اس مد میں کی جانے والی نوحہ کنائی کی حقیقت کو ایک جانب رکھتے ہوئے البتہ یہ ضرور دیکھا گیا کہ ایک طرف جہاں نواز حکومت اپنے مخالفین کے الزامات کے جواب میں الزام دینے کی پالیسی پر گامزن نظر آئی وہیں اس نے عوامی رابطوں کو بھی اپنی پالیسی کا حصہ بنایا اور وزیر اعظم نے ملک کے مختلف حصوں کا دورہ شروع کیا اور حکومت میں ہونے کا تمام تر فائدہ اٹھاتے ہوئے ان دوروں کے دوران خالصتاََ شہنشاہی انداز میں عوام کے مسائل کے حل اور ان علاقوں پر ترقیاتی منصوبوں کی بوچھاڑ کرنا شروع کر دی۔سکھر، مانسہرہ ، بنوں اور دیگر شہروں کی طرح میاں محمد نواز شریف گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان بھی آ پہنچے۔تاہم ان کا یہ دورہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ انکے لئے ڈیرہ اسماعیل خان میں سجایا جانے والا پنڈال، انکی اپنی جماعت کے بجائے ، جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے سجایا گیا تھا اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام کے جلسے میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔صبح تقریباََ10بجے شروع ہونے والے جلسے میں گو کہ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان ، مہمان خصوصی وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور دیگر زعماء نے کافی متاثر کن تقاریر کیں لیکن تمام تر جلسے کی اصل روح وہ سپاسنامہ رہا کہ جو خیبرپختونخواہ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا لطف الرحمان کی جانب سے پیش کیا گیا۔ظاہر ہے پیش کئے جانے والے اس سپاسنامے کی نوک پلک جے یو آئی کی قیادت اور غالباََ مسلم لیگ نواز کی قیادت کی جانب مل کر ہی درست کی گئی ہو گی لیکن ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ مذکورہ سپاسنامہ ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کے دل کی آواز تھی۔ شروع سے لے کر آخر تک اس سپاسنامے میں وہ تمام جزیات موجود تھیں کہ جو اس سے قبل کسی سیاسی جلسے میں سامنے نہیں آ سکیں۔ مذکورہ سپاسنامہ سننے کے بعدامکان نے سر ابھارا کہ نواز لیگ اور جے یو آئی کے درمیان سر چڑھ کر بولتی قربتوں اور دونوں ہی جماعتوں کی جانب سے موقع سے فائد ہ اٹھانے کے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے، وقت کے وزیر اعظم اپنی شہنشاہی کے تما م ریکارڈ توڑنے کے جذبے سے ڈائس پر آئیں گے اور اعلان کریں گے کہ مولانا لطف الرحمان کی جانب سے پیش کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ کو حرف بحرف منظور کیا جاتا ہے۔لیکن گرمی کی شدت اور گلے کی خرابی آڑے آئی اور میاں نواز شریف ، گزشتہ کئی روز سے شائع ہوتے اشتہارات اور شہر میں جا بجا لگے بینروں پر تحریر کردہ منصوبہ جات کے اعلان سے آگے نہ سوچ سکے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی کوششیں رائیگاں گئیں یا پھر وزیر اعظم پاکستان کی سخاوت کا جذبہ کم رہا۔ ہکلا یارک موٹر ویز کے افتتاح کی صورت میں پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے مغربی روٹ کے حوالے سے اٹھتی بد گمانیوں کا گلہ گھونٹنے کی (تادم تحریر) کامیاب کوشش سے لے کر ڈیرہ انٹرنیشنل ائر پورٹ کو خواب قرار دینے والوں کی زباں بندی تک کے اعلانات نے جلسہ گاہ میں موجود تقریباََ پینتیس ہزار عوام کے ہی نہیں، پورے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کو ستائش پر مجبور کر دیا۔دہائیوں سے حقیقت کے روپ کو ترستی’’دامان زرعی یونیورسٹی ‘‘کے قیام کا اعلان ہو یا ضلع کی زراعت کے مستقبل کو درخشاں بنانے کی ضمانت کہلاتی سی آر بی سی سی2کے لئے 120ارب روپے کی خطیر رقم کی فراہمی کی یقین دہانی، ٹانک زام کی تعمیر کو جلد از جلد شروع کرنے کی نوید ہو کہ حفاظتی بند کے حوالے سے بھی اسی قسم کے اقدامات اٹھانے کا عزم، ضلع کے ترقیاتی کاموں کے لئے پچاس کروڑ روپے فراہم کرنے کا وعدہ ہو یا کہ گیس فراہمی کے لئے 770ملین روپے کا اعلان، یہ سب ہی ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کی ان محرومیوں کے خاتمے کی نہیں تو ان میں کمی لانے کا موجب ضرور بن سکتے ہیں۔اور اس کے لئے جہاں وزیر اعظم میاں نواز شریف کو خراج تحسین پیش کیا جانا لازم ہے وہیں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان اور انکی جماعت کو بھی اس مد میں حرف تحسین ضرور دیا جانا چاہئے۔ لیکن، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم پاکستان خود اور انکے پہلو میں بیٹھے مولانا فضل الرحمان ، مولانا لطف الرحمان کی جانب سے پیش کردہ سپاسنامے کے کچھ نکات پر بھی غور فرما لیتے کہ جن میں واپڈا کے حوالے سے نہایت اہم مطالبات نہایت بلند آواز کے ساتھ پنڈال میں گونج رہے تھے۔اسی سپاسنامے میں گومل یونیورسٹی کو لاحق مالی بحران کے خاتمے کے لئے ایک ارب روپے کا مطالبہ بھی وقت کی اہم ضرورت تھا۔مولانا لطف الرحمان کی جانب سے پیش کردہ سپاسنامے میں ڈیرہ کی تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی اہمیت کو بھی نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا لیکن مہمان خصوصی و میزبان خصوصی نے مولانا لطف الرحمان کی اس خوبصور ت تقریر کو محض لفاظی ہی سمجھا اور ان میں سے کسی بھی مطالبے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شرف قبولیت کے قابل نہ سمجھا۔وزیر اعظم کی تقریر کے اختتامی لمحات میں ہم نے سنا کہ عوام کی جانب سے واپڈا کے سرکل آفس کے ڈیرہ اسماعیل خان میں قیام کا آوازہ بلند ہوا لیکن وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اولاََ تو اس مطالبے کو سمجھ ہی نہ پائے اور جب میاں صاحب کو ان الفاظ کا ادراک حاصل ہوا تو انہوں نے شاید تحریر شدہ فہرست میں مذکورہ مطالبہ کی عدم موجودگی کی بنا پر قابل قبول نہ سمجھا۔ اسی دوران مولانا فضل الرحمان کی جانب سے ایک پرچی بھی بدست مولانا عطاء الرحمان ، تقریر میں مگن وزیر اعظم پاکستان تک پہنچانے کی کوشش کی گئی تو امید اٹھی کہ عوامی امنگوں کو اہمیت دیتے ہوئے قائد جمعیت نے اپنی طرف سے فراہم کردہ فہرست میں تبدیلی کا احسن اقدام اٹھا لیا ہے لیکن سٹیج سیکرٹری مولانا عطاء الرحمان اس پرچی کو لئے وزیر اعظم کے عقب میں دست بستہ موجود رہے جس سے گمان غالب آیا کہ مذکورہ پرچی عوامی ترجمانی سے محروم ہی رہی ہو گی۔جلسہ سے ایک روز قبل ایک پروگرام کے دوران مسلم لیگ نواز ڈیرہ کے ضلعی صدر ریحان ملک کو بذریعہ ٹیلی فون واپڈا سرکل آفس کی ضرورت و اہمیت کا ادراک کروانے اور اس عوامی مطالبے کو اپنی جماعت کے منتخب وزیر اعظم تک پہنچانے کی گزارش کی گئی تھی۔ لہٰذا جب دوران جلسہ عوامی مطالبہ محترم وزیر اعظم کی سماعتوں تک پہنچنے میں مشکلات کا شکار تھا تو ایک مرتبہ پھر امید جاگی کہ مسلم لیگ نون کے ضلعی صدر، جو دوران تقریر وزیر اعظم کے کندھے کے بالکل قریب موجود تھے، آگے بڑھ کر میاں صاحب کو سرکل آفس کی عوامی خواہش کا پیغام پہنچائیں گے لیکن زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق ریحان ملک بھی ڈیرہ کی خدمت کے اس واحد سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام نظر آئے۔
مجموعی طور پر ایک کامیاب جلسے ، ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے اہم منصوبہ جات کے اعلانات اور نواز لیگ و جے یو آئی میں ’’مستحکم ‘‘ سیاسی رشتوں کے عزم کی مبارکباد کے ساتھ ہمیں یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ پاناما لیکس کی طرح کے انکشافات مسلسل سامنے آتے رہیں، ملکی و صوبائی سطح پر فعال حزب اختلاف بھی قوم کو اسی طرح میسر آتی رہے ، اور سیاسی جماعتوں کی ساکھ کو بھی اس طرح کے تفکرات لاحق ہوتے رہیں کہ جن کی بنیاد پر گزشتہ روز کی طرح کے جلسہ جات کا تسلسل جاری ، اور ان جلسہ جات میں عوامی ہمدردیوں کے حصول کی خاطر ایک سے بڑھ کر ایک منصوبے کا اعلان بھی کیا جاتا رہے کہ اب شاید ہمارے محروم عوام کی داد رسی کا ایک یہی طریقہ ہی باقی ہے۔گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام اپنے منتخب وزیر اعظم کی ڈیرہ آمد اور اس دوران نہایت اہم منصوبہ جات کے اعلان پر شاداں تھے وہیں وہ ایک طویل عرصہ بعد اپنے منتخب رکن قومی اسمبلی کو اپنے درمیان دیکھ کر بھی پھولے نہیں سما رہے تھے۔

Back to top button