شہر شہرمتفرقات

بار روم ڈیرہ اسماعیل خان کے حوالے محمد عثمان غنی اسراء کی خاص تحریر

محاصرہ
مقدمہ
محمد عثمان غنی اسراء
قانون دان ،سول سوسائٹی کی اِکائی تصور کئے جاتے ہیں ۔وکلاء اور عدلیہ یعنی بنچ اور بار کا تعلق اتنا قریب ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہوتے ہیں اسی لئے تو سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کے حق میں تحریک وکلاء نے ہی چلائی اور اپنے اس کردار و عمل سے انہوں نے عدلیہ کیلئے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ۔بار اور بنچ کے تعلق کو سمجھنے کیلئے ایک بات دلیل کے طور پر یہ کہ حکماء اور قدیم طب کے اقوال میں سے ایک قول ہے کہ انسانی جسم میں دل اور معدہ دو ایسے پڑوسی ہیں کہ یہ معلوم کرنا آسان نہیں کہ درد دل ہے یا درد معدہ اسی طرح بنچ اور بار بھی آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور کہا یہی جاتا ہے کہ انصاف کی منزل پانے کیلئے دونوں کا باہمی ربط از حد ضروری ہے اِن دنوں ڈسٹرکٹ بار ڈیرہ اسماعیل خان میں وکلاء کے درمیان ایک اہم ایشو زیر بحث ہے اس سلسلے میں بار کونسل کا اجلاس بھی ہو ا ہے تاہم جہاں پر بھی دو چار وکلاء بار میں اکھٹے بیٹھے ہوتے ہیں ان کے درمیان یہی ایشو زیربحث ہوتا ہے اگر اس کو اس وقت بار کا برننگ ایشو کہا جائے تو دروغ نہ ہو گا ۔موضوع بحث یہ ہے کہ موجودہ بار روم گرنا چاہیے اور جوڈیشل کمپلیکس کیلئے بار روم کی زمین دیکر نئی جدید سہولیات سے آراستہ بلڈنگ میں بار روم کیلئے مختص جگہ مناسب ہے اس سلسلے میں جانبین میں بار روم گرانے کے حامی موجود ہیں تو مخالفین کی بھی کمی نہیں بلکہ ایک تجزیے کے مطابق اب تو مخالفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔اس سلسلے میں جوڈیشل کمپلیکس کیلئے بار روم کے موجودہ سٹریکچر کو جن میں اجتماعی برآمدے اور انفرادی کمرے ذد میں آتے ہیں اور اس جگہ گرا کر یہاں جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کیا جانا ہے ۔پہلے پہل تو اس ضمن میںِ اس کی حمایت میں بھر پور اور پر جوش مہم چلی مگر اس اَمر کے مخالفین نے بار کی غالب اکثریت کو اپنے موقف کا ہمنوا بنا دیا ۔خود ایک وکیل صاحب نے نئی تعمیر کے مخالفین کو قدامت پسند بھی کہا اور جدت کی مخالف معاشرے کے فرسودہ خیالات کے حامی بھی ایک بات یہ بھی سامنے آئی کہ وہ وکلاء بار روم کو گرانے کی مخالفت کر رہے ہیں جن کو اپنے الگ کمرے ملے ہوئے ہیں اور وہ اس کے گرائے جانے سے عمومی برآمدوں میں ہی آبیٹھیں گے۔ مگر بار روم کے موجودہ سٹریکچر گرانے کی مخالفت کرنے والوں کا موقف ہے کہ اول تو ہم اس بات کے قطعاً مخالف نہیں کہ نیا جدید سہولیات سے آراستہ اور طرز تعمیر کی جدت سے پیراستہ جوڈیشل کمپلیکس نہیں بننا چاہیے مگر جو نقشہ اس ضمن میں سامنے لایا گیا ہے اس کیلئے کل زمین7کنال اور دو مرلہ دستیاب ہے جبکہ موجودہ پارکنگ ایریا جو کہ لگ بھگ 12کنال پر محیط ہے یہ اس جوڈیشل کمپلیکس کیلئے انتہائی کافی ہے اور بار روم جو کہ لگ بھگ12کنال پرمحیط ہے اس میں کی گئی تعمیر کو گرانا یا یہ زمین واگزار کروانا کم از کم جوڈیشل کمپلیکس کیلئے نہیں ہاں کسی اور مقصد کیلئے اگر یہ زمین واگزار کرائی جا رہی ہے تو اس کی وضاحت ضروری ہے ۔دوسرا یہ کہ سینئر سول جج کی موجودہ عدالت کے سامنے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب جانے والا روڈ جو دس بار سالوں سے عام ٹریفک کیلئے بند کیا گیا ہے اس کو بھی اگر نئے جوڈیشل کمپلیکس کا حصہ بنا دیا جائے تو یہ اس کا بہترین مصرف ہو گا اور ڈسٹرکٹ پولیس آفس کو جانے والے راستے کی بندش سے سیکورٹی کی بہتر سہولیات بھی میسر آ سکیں گی جہاں تک جدا کمرہ جات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ موجودہ بار روم کو گرا کر اس کی جگہ جدید سہولیات سے آراستہ اگر بار روم بنا دیا جائے جس میں عصر حاضر کی تمام آسائشیں موجود ہوں ہوا روشنی کا انتظام بھی مناسب ہو اور وکلاء کی پرائیویسی کا بھی خیال رکھا جائے تو اس کو گرایا جانا چاہیے۔تیسرا یہ کہ بار روم اب موجودہ حالت میں اپنا جدا تشخص اور آزادی رکھتا ہے یہاں پر ہونے والی تقریبات کیلئے بار ایسوسی ایشن یا وکلاء کو ہر قسم کی آزادی ہے اور جب بار روم گرا دیا گیا تو یہ آزادی بھی خود بخود سلب ہو جائے گی ۔چوتھا اس بار روم کی تاریخی قدر و منزلت اور یہاں پر خطاب کرنے والی شخصیات میں بھارت کے سیاسی و روحانی رہنماء موہن داس کرم چند گاندھی ،جواہر لعل نہرو اور بعد میں سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو ،سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ مولانا مفتی محمود،سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو ،سابق صدر سردار فاروق لغاری،معروف سیاستدانوں میں خان عبدالولی خان،ایئر مارشل (ر)اصغر خان ،مولانا فضل الرحمن،قاضی حسین احمد،اورمذہبی سکالر علامہ طاہر القادری ومعروف مبلغ مولانا طارق جمیل ،جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعیدسمیت کئی قابل ذکر شخصیات یہاں خطاب کر چکی ہیں اور اس بار روم میں برصغیر میں اس خطے میں چلنے والی سیاسی یا شخصی آزادی یا جمہوریت اقدار کی بحالی کی تحریکوں میں بھی نمایاں اور منفرد کردار ادا کیا ہے اس تناظر میں بار روم کا خاتمہ اس کے جدا تشخص کوختم کرنے کے مترادف ہو گا اور مستقبل میں کسی بھی ایسی سرگرمی کیلئے عدلیہ کی سٹبلشمنٹ کی اجازت لازمی ہو جائے گی ۔بار روم کو گرانے کی مخالفت میں رائے رکھنے والوں کا یہ بھی موقف ہے کہ اس کے بعد پیش آنے والے حالات سے نبر آزما ہونے کیلئے ایک بار بھر بار کونسل کو اپنی آزادی اور جدا تشخص کی جنگ لڑنا ہو گی اس ضمن میں کچھ وکلاء یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ اگر موجودہ بار روم ہر حالت میں گرانے ہی ہیں اور اس جگہ کے بغیر جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر ناممکن ہے تو پھر ایک تو بار روم کو متبادل جگہ کی فراہمی سے یہ مشکل حل کی جائے دوسرا یہ کہ جوڈیشل کمپلیکس کا جو نقشہ موجودہ تیار کیا گیا ہے اس پر نظر ثانی کی جائے اور سرگودھا طرز کا نقشہ بنایا جائے جس میں چاروں جانب عدالتیں بنائیں جائیں اور درمیان میں بار روم جو کہ کئی منزلہ بھی ہو سکتا ہے اس قسم کا موقف تجاویز کی حد تک ہی ہے ۔ وکلاء جو کہ استغاثہ یا مستغیث کی جانب سے معزز عدالت کے رو برو پیش ہوتے ہیں اپنے بار روم کو بچانے کے حق میں اور گرانے کی مخالفت میں دلائل رکھنے والوں میں کون مدعی ہیں اور کون مدعا علیہم ۔سول سوسائٹی کی یہ اکائی اپنے مقدمے میں انصاف کی طلب گار منتظر نظر آتی ہے۔انصاف کی منزل پانے کیلئے بار اور بنچ دونوں کا باہمی ربط از بس ضروری ہے۔

Back to top button