ادبی دنیا

"” کچھ لوگوں کی کوشش ہے کچھ لوگ,, بہل جائیں "”

دانش رحمان دانش

یہ جشن,یہ ہنگامے,دلچسپ کھلونےہیں
کچھ لوگوں کی کوشش ہےکچھ لوگ بہل جائیں
جووعدۂ فرداپراب ٹل نہیں سکتےہیں
ممکن ہےکہ کچھ روزاس جشن پہ ٹل جائیں

وقت کےنامورشاعر جناب ساحرلُدھیانوی کےتحریرکردہ اشعارملکی حالات کےعین مطابق آتےہیں, اوریوں گُمان ہوتاہےجیسےیہ اشعارپاکستان پرہی لکھےگئےہوں.
جیساکہ آپ جانتےہیں روزِاول ہی سےسادہ لواورحُب الوطن افرادچالاک اورشاطرحُکمرانوں کاآسان شکاررہےہیں
کوئی بھی تاریخ اُٹھاکردیکھ لیں حُب الوطنی اورمزہب کارڈکوپاکستان کےحُکمرانوں اورڈیکٹیٹرزکی جانب سےعوام کےمُنہ میں ہڈی کی مانندڈال کرذاتی مفادات کی تکمیل کی گئی, آئےروزایک نیاتماشہ رچاکرعوام کواس کےپیچھےلگادیاجاتاہےاورحقیقت کوپس پُشت رکھ کرعوام کوغربت کی لکیرسےنیچےمزیدنیچےدکھیل دِیاجاتاہے,اورایسےحالات میں لوگ حکومت سےدووقت کی روٹی کاتقاضہ کرسکتےہیں ناکہ عہدہ داروں کےاحتساب کااوریہی توحاکمِ وقت کی سب سےبڑی خواہش رہی ہے.
بدقسمتی سےآج بھی اس ریاست میں یہی تماشہ شانداراندازمیں جاری ہےاورعوام کومسلسل بیوقوف بنایاجارہاہے. مذہب کےنام پرآنےوالی حکومت نےاقتدارمیں آنےکےبعدکوئی بھی قابلِ ذکرِفخر احکامات واقدام نہیں کیئے. نہ نعروں کاکچھ فائدہ ہوانہ وعدوں کی تکمیل, حتیٰ کہ حالات بدترسےبدترہوگئے,اورایک کےبعدایک بُہران نےعوام کی چیخیں نِکال دیں مگرمجال ہےکہ حکومت اورحکومتی عہدہ داروں کےکان پرجوں تک بھی رینگی ہو, بس ہرمسلّےپرایک ٹویٹ عوام کی نذرکردِیاجاتاہے.. "اگرٹویٹ ہی مسائل کاحل ہےتوپھرکُرسی پر ‘جیک ڈارسے’ Jack Dorsey ‘ کوبٹھادیں”

کُرسی ہےتُمہاری , یہ جِنازہ تونہیں ہے
کُچھ کرنہیں سکتےتواُترکیوں نہیں جاتے

ہرواقعہ پرجناب وزیرِاعظم صاحب ایک ٹویٹ کردیتےہیں اورپھراُن کےچمچےپریس کانفرنس کرکہ اس ٹویٹ کی تشہیراورعوام کواس کےفوائدبیان کرنےمیں لگ جاتےہیں.اوریہ عوام جوریاستِ مدینہ کہ خواب دیکھ کےبیٹھی تھی اب سُودکے پرچار پروزیراظم صاحب کےخِطاب بھی سُن رہی ہے,اور”دونہیں ایک پاکستان” کانعرہ لگانےوالےآج تِین پاکستان میں پِس کررہ گئے. مگرگھبرانےکی ضرورت نہیں کیونکہ حکومت کےپاس لوٹوں کی ایک بڑی تجربہ کارٹیم ہےجونت نئےسبزباغ دِکھانےکی صلاحیت رکھتی ہےاوروہ عوام ہےجوہرنئی چیزکےپیچھےبھاگ پڑتی ہے. لہذاجب بھی کوئی مسلّہ ذورپکڑتاہےاورعوام اسکےبارےمیں سوال اُٹھاناشُروع کردےتوبجائےاُس مسلّےکےحل کے ایک نیاشوشاچھوڑکرلوگوں کواسکےپیچھےلگادیاجاتاہےاورمسائل وہیں کےوہیں.
آخرکب تک ہم ایسےہی سرکس نُمامعاشرےمیں غُلامی اورآنکھوں پرپٹی باندھےذندگی گُزارتےرہیں گے.. یہ وہ معاشرہ ہےجہاں عدالت پرسوال اُٹھاؤتوتوہینِ عدالت, کسی جرنیل کی بات کروتوغداری کاٹیگ, اورکسی مولوی پراُنگلی اُٹھاؤتوکُفرکافتویٰ لگاکربات ہی ختم کردی جاتی ہے,,, لیکن اپنی ہی عوام پرلاٹھی چارج اورپھراُن کوجیلوں میں بندکرناوقت کی عین ضرورت کیوں ؟
دراصل ہم غُلام قوم ہیں,,ہم میں کوئی سیاسی غُلامی, کوئی مذہبی غُلامی, توکوئی ڈنڈےکےڈرسےاپنااستحصال ہوتادیکھ رہاہے, مگرچُپ ہے. اورغُلاموں کی حالت کبھی نہیں بدلتی… اگرہمیں اپنی حالت سنوارنی ہے, اگرہمیں اپنی آنےوالی نسلوں کوبہتراورآزاد ذندگی دینی ہے,, توپھرہمیں سچ کوسچ اورجھوٹ کوجھوٹ کہناہوگا.
صحیح کوصحیح اور غلط کوغلط لکھناہوگا.

Back to top button