سوات سے سوات تک
ملک قیصرٹھیٹھیہ
جب سے ہم دوستوں کی محفل سے ملک الطاف رخصت ہو ا دل اچاٹ سا تھا ، الطاف تھا تو پانچ منٹ میں پروگرام بناتا سب کو اکٹھا کرتا اور سب کو لے جاتا ۔اس باربھائی سید فیاض شاہ نے فون پر حکم صادر کیا کہ سوات کا پروگرام اور ہم نے جانا ہے ،میں نے حامی بھر لی میانوالی سے اسلام آباد پہنچے تو شاہ صاحب نے گرمجوشی سے استقبال کیا پنڈی کی سڑکوں کی خاک مناسب مقدار میں کھانے کے بعد مینگورہ روانہ ہوئے ۔رات گئے مینگورہ کے گرینڈ سیزن ہوٹل میں مہمانوں کا انتظار تھا وہاں کئی نوجوان چہروں نے روایت سے ہٹ کر استقبال کیا ۔ رات گئے بھی ہوٹل میں دن کا سا سماں تھا ۔پورے پاکستان سے ایک سو بیس سے زائد مہمان اس پروگرام میں شریک ہو رہے تھے ۔پروگرام پرونشل یوتھ اسمبلی اور غیر سرکاری تنظیموں نے ترتیب دیا تھا تاکہ ان علاقوں میں سیاحت کے فروغ کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔اس سلسلے میں برادرم ذیشان ہوتی ،عابد اتوزئی،کاشف بھائی اور ان کی پوری ٹیم نے انتظامات کو گو زیسٹ کے نام سے حتمی شکل دے رکھی تھی۔
خیر کھانا کھانے کے بعد سونے کی تیاریاں ہوئیں تو رات کے تین بج چکے تھے ۔صبح صبح اٹھے تو دریا کے کنارے بنے اس ہوٹل کے کمرے سے باہر دریائے سوات کے نظاروں نے ساری تھکن اتار دی۔اس دریا کے ٹھنڈے پانی نے پتھروں کو ٹھنڈ اٹھار کرکے ان کو بھی کپکپانے پر مجبور کررکھا تھا اور کئی بوڑھے پتھر تو سر باہر نکال کر دھوپ لگوا رہے تھے۔رات کو اس پروگرام کی افتتاحی تقریب تھی جس میں سوات انتظامیہ کے علاوہ سوات کی لوکل باڈیز کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔اس پروگرام میں نوجوانوں نے ہلہ گلہ کرکے محفل کو گرمایا ،ٹیم ممبر فہد برکات کی سالگرہ کا کیک لیٹ ہی سہی کاٹاگیا اور آدھا کیک ان کے منہ پر مل دیا گیا ۔رات گئے تک دھوم دھڑکا لگا رہا اور نیند نے قابو کرکے ہمیں سونے پر مجبور کر دیا ۔اگلے دن صبح ناشتہ کے بعد مالم جبہ روانگی ہوئی۔برادرم فرحان نے گائیڈ کی ڈیوٹی خوب نبھائی اور ہمیں مینگورہ سے مالم جبہ تک ایک ایک علاقہ کی تاریخی حیثیت سے آگاہ کیا۔سڑک کی صورتحال پر ہم نے مراد سعید کو کوسا تو مقامی لوگوں نے بتایا کہ سڑک نہ بننے کی وجہ امیر مقام ہے ،امیر مقام کی کمپنی کو اس روڈ کا ٹھیکہ دیا گیا تھا لیکن بعد میں اس سڑک کو عدالتی تنازعوں کی نظر کر دیا گیا، مالم جبہ میں کام کرنے والے ایک انجینئر نے بتایا کہ اب یہ سڑک بن جائے گی کیونکہ عمران خان یہاں آئے تھے اور اب وہ اس کو خود دیکھ رہے ہیں ۔ خیر مالم جبہ پہنچے تو بارش نے ہمارا استقبال کیا ۔ ہم نے بھی ہار نہیں مانی اور جیسے ہی بارش تھمی تو چیئر لفٹ کے ساتھ بنے ٹریک پر چڑھ دوڑے،وہاں بادل ہم سے گلے مل کر حال احوال دریافت کر رہے تھے ، اچانک کالا بادل ہمارے قریب آکر گرجا اور کہا بہت عرصے بعد ملے ہو بھگوئے بغیر تو نہیں چھوڑوں گا خیر جب ٹاپ کے نزدیک تھے تو بارش نے بھگو دیا۔ بارش میں مٹی کے اس ٹریک سے واپسی زرا مشکل سے ہوئی لیکن تھکاوٹ نہیں تھی۔برستی بارش میں چپل کباب سے تواضع ہوئی تو کچھ ٹھنڈ کم ہوئی۔ بارش رکی تو کھیلوں کا سلسلہ شروع ہوا، کئی پہاڑنما بندوں کو ہلکے سے پہاڑ پر چڑھتے دیکھا تو ہر کوئی ہنس رہا تھا۔شام کے وقت مقامی ہوٹل پہنچے تو سب سردی سے کانپ رہے تھے۔فرحان بھائی نے خالص شہد اور باداموں کا آمیزہ بنا کر پیش کیا تو سردی کو بھاگنا پڑا۔ہمارا کمرہ فیاض شاہ صاحب اور وقاص بھائی کی وجہ سے کشت زعفران بن چکا تھا، فرحان کی پشتو لہجے کی اردوکی مٹھاس نے سب کو شوگر ہی کر دی ۔اگلے دن اٹھ کر پھر سفر کی تیاری کی اس بار منزل کالام تھی، مدین کی چائے اور بحرین کا کھانا تھکن اتار دینے کے لیے کافی تھا۔ پھر رستے میں اک موڑ آیا اور اسی موڑ میں ایک ٹرک پھنسا ہوا تھا، ٹرک ہٹنے تک ہم بھی دریائے سوات کی ظالم لہروں کی اٹھکھیلیاں دیکھتے رہے ،کالام ہوٹل پہنچے تو کلچرل پروگرام شروع ہوا اور رات گئے تک شیراز کے رباب کی سر کانوں کو لبھاتی رہی۔صبح کالام سے جیپوں کے ذریعے سیف اللہ جھیل اور مہونڈڈ جھیل کا سفر شروع ہوا،آپ دشوار گزاراور پرپیچ سفر میں یہاں کے مقامی ڈرائیورزکو داددیے بغیررہ نہیں سکتے، ہمارا ڈرائیور جو کہ گائیڈ بھی تھا ہمیں کمنٹری کی طرح آنے والے مناظر سے آگاہ کر رہا تھا ۔آبشاروں اور نالوں سے گزرتے ہوئے آخر کار ہم مہونڈڈ جھیل سے گزر کر پہلے سیف اللہ جھیل پہنچے،جھیل کے نیلے اور یخ پانی میں وضو کرنے کا مزہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ۔وہاں کی فلٹر شدہ صاف شفاف ٹھنڈی ہوا سب سے گلے مل کر ان کو خوش آمدید کہ رہی تھی،خچر نما گھوڑوں نے ہم کو دیکھ کر قہقہ لگایا تو ہم نے ان کو قابو کرنے کے لیے ان پر سواری کی لیکن وہ باز نہ آئے۔کشتی رانی کے بہانے کشتی میں بیٹھے تو فیاض شاہ کے اندر کے فوٹو گرافر نے دور ایک آبشار کو تاڑ لیا پھر ڈیڑھ کلو میٹر کا پہاڑی سفر طے کرکے وہاں پہنچے تو وہاں کا منظر کچھ یوں تھا آبشار سے گرنے والا پانی بہت نیچے پڑے پتھر پر پڑتا اور سارا پانی دھوئیں کی طرح ہوا میں ایسے اٹھتاجیسے بادل محو رقص ہوں۔پانی کے پتھر پر گرنے کی آواز ایسے سر پیدا کر رہی تھی جیسے دور پار رباب اور ہارمونیم کی آمیزش والا ساز بج رہا ہو۔اس مشکل آبشار پر فرحان بھائی، انجینئر شیررحمن،ناعمہ اور شاہ صاحب کے ساتھ بہت دیر قدرت کے اس کرشمے کو دیکھتے رہے نا چاہتے ہوئے بھی پہاڑ سے اتر کر واپس سیف اللہ جھیل آئے،وہاں پر احمد رضا (وقاص)،ناصر اقبال، جلال شیرازی،راحیل اور شیراز بے صبری سے منتظر تھے ، وہاں سے نکل کر مہونڈڈجھیل آئے ،جیپوں سے اترتے ہی جھیل کی طرف دوڑ لگا دی گئی ،جھیل کے کنارے پہنچے تو پانی میں پہاڑ اور آسمان کا عجب طرح کا عکس پڑ رہا تھاگو یا رنگوں کے ڈبے الٹ گئے ہوں اور بے ترتیب برشوں سے کوئی شہکار تخلیق کیا جا رہا ہو۔فرحان بھائی نے ڈرون بابا سے ڈرون اڑانے کا گر سیکھنے کی کوشش کی۔میں اس جھیل کے کنارے پرنجانے کتنی دیر بیٹھا قدرت کے اس شاہکار کو ایسے تکتا رہا کہ آنکھیں جھپکنا بھول گئیں ،نگاہیں پہاڑوں سے پانی کے اند رتک آتیں تو آنکھوں کے رستے ٹھنڈک روح تک کو سکون دیتے ہوئے پھر سے طواف نظارہ کرنے لگ جاتیں ۔وہاں سے واپسی کا کسی کا دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن واپس آنا پڑا۔واپسی کاسفر شروع ہواتو احمد رضا (وقاص) بھائی کو زبردستی اپنے ساتھ بٹھایااحمد رضا پیشے کے اعتبار سے پاکستان کے پہلے تھری ڈی آرٹسٹ ہیں لیکن اللہ پاک نے انہیں ہر طرح کے ٹیلنٹ سے نواز اہے ۔ احمد رضا نے سروں کو چھیڑا تو ہمارے ساتھ بیٹھے "مرنڈا سٹوڈیو” کے فنکار کی حالت دیدنی تھی۔شاہ جی کی جگتوں ، ڈرونی لطیفوں ، فرحانی قصوں کے بعد واپس کالا م پہنچے وہاں پربرادرم صہیب احمدکے ہوٹل میں کلچرل شو کا انعقادکیا گیا تھا جس میں پاکستان کے تمام صوبوں کے کلچر کو اجاگر کیا گیا تھا۔رنگوں اور سروں کے اس امتزاج میں پورے پاکستان سے آنے والے مہمان لطف اندوز ہوتے رہے۔شیراز کے ربا ب کو بھی اسکی انگلیوں کے لمس کا انتظار تھا اور پھر رباب کی آواز پہاڑوں سے ٹکرا رہی تھی ا ور پیغام دے رہی تھی کہ "امن ہی زندگی ہے”
ادھر رات گئے احمد رضا بر آمدے میں تھری ڈی پینٹنگ بنانے میں لگا ہوا تھااس کے برش بجلی کی مشین کی طرح چل رہے تھے وہ برش لگاتا اور ایک لمحے کے لیے واپس آکر ایک آنکھ بند کرکے کام چیک کرتا اور پھر شروع ہو جاتا اور ڈیڑھ گھنٹے بعد اس کی تخلیق کردہ تھری ڈی پینٹنگ پر سب حیران کھڑے تھے۔گوزیسٹ کی کامیابیوں کے لیے جو ٹیم کام کررہی تھی اس میں خواتین ٹیم ممبرز کی کارکردگی مثالی تھی۔
اس کامیاب پروگرام کرنے پر تمام ٹیم ممبران کو مبارکباد دیتے ہوئے پورے پاکستان کے لیے پیغام کہ سوات میں امن مکمل طور پر بحال ہو چکا ہے ، ان علاقوں میں آپ بھی جائیں اور اللہ تعالیٰ نے ان علاقوں کو جو خوبصورتی عنایت کی ہے اس سے لفط اندوز ہوں ۔ حکومت پاکستان اور حکومت خیبر پختونخواہ سے گزارش کے اگر آپ سیاحت سے کچھ کمانا چاہتے ہیں تو ان علاقوں کی سڑکوں کو بنائیں ، یہاں پر کمیونی کیشن سسٹم کو بہتر بنائیں ۔ سیاحوں کو سہولیات دیں ۔ سوات سے سوات تک کے اس سفر میں بہت سے نئے دوستوں سے متعارف کروانے پر گوزیسٹ اور شاہ جی کا شکریہ۔عابد اتوزئی اور ذیشان بھائی کے لیے دعائیں کہ وہ ایسے میلے ٹھیلے کامیابی سے منعقد کراتے رہیں۔