ادبی دنیا

‘ ہم کہاں ہیں ‘

عائشہ عزیز

اگر کوئی ناراض ہو جائے تو منانا بری بات نہیں ہے لیکن منانے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لینا کہ وہ ناراض ہے یا بیزار ۔۔۔۔!!!
مستنصر حسین تارڑ
مستنصر صاحب کی یہ تحریر نظروں سے گزری تو ماضی میں گزرے بہت سے دوست احباب کی شبیہہ ایک ہلکے جھٹکے کے ساتھ ذہن کے پردے سے ٹکرا کر گزری۔
اگر ہم سب ماضی میں تھوڑا پیچھے جھانکیں تو ہمارے بچپن سے لے کر اب تک جس چیز نے ہمارے معاشرے کو بری طرح متاثر کیا وہ "مادہ پرستی ” ہے۔
سب سے پہلے تو جب ہم نے اپنی روایات کو دقیانوسی سمجھنا شروع کیا پھر آہستہ آہستہ اپنے مذہب "اسلام” سے دوری اختیار کرتے گئے، پھر گھروں میں 300 چینل کا اہتمام کر کے خود کا دل لگانے اور بچوں کو گھر کے اندر ہی مصروف رکھنے کا انتظام کرنے پہ ڈٹ گئے۔تا کہ بچے گھر میں ہی مصروف رہیں اور بلاوجہ گھر سے باہر نہ جائیں۔
تصویر کا یہ ایک رخ دیکھنے میں تو ٹھیک لگتا ہے مگر تصویر کے دوسرے رخ پہ والدین نے یہ توجہ نہیں دی کہ انہوں نے بچوں کی تربیت کے لئے جو 300 چینل اپنے بچوں کو تحفے میں دیا ہے مستقبل میں اس کا بچوں کی اخلاقیات پر کیا اثر پڑنے والا ہے۔
اور یوں خاندانی نظام متاثر ہونے لگا اور یہی خاندانی نظام پاکستان میں بھی بہت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مختصراً دولت اور شہرت کے حصول کی خواہش، سٹیٹس کو بلند سے بلند مقام پر لے جانے کی دوڑ میں ہم اخلاقی طور پر بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
والدین دن رات دولت کمانے کے چکر میں اپنے بچوں اور خاندان سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور اچھے برے طریقے سے گھر لائی گئی دولت سے بچے طرح طرح کی برائیوں کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں جن میں سر فہرست جنسی بے راہ روی ہے۔
پاکستان میں جنسی بے راہ روی نے جس خوفناک طریقے سے ہمارے معاشرے کو پستی میں دھکیلا ہے اگر ہم اس کی تفصیل میں جائیں تو نجانے کتنے fact & figures کو مجھے لکھنا پڑے گا اور شائد پڑھنے والوں کے پاس آجکل اتنا وقت نہیں ہوتا اسکی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے۔
ٹچ موبائل نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے آپ انٹر نیٹ کے ذریعے اپنے ٹچ موبائل پر جو بھی دیکھنا چاہتے ہیں آپ کی privacy متاثر نہیں ہو گی۔
زندگی کی رفتار اتنی تیز ہو چکی ہے کہ اب کسی کو منانے کا وقت ہی نہیں رہا۔
"ضرورت کیا ہے منانے کی، جب دماغ ٹھیک ہو جائے گا اور ضرورت پڑے گی تو خود ہی مان جائے گا”
ہماری زندگی ضرورتوں سے شروع ہو کر ضرورتوں پر ختم ہو جاتی ہے۔ ہم نے ضرورتوں تک خود کو محدود کر رکھا ہے کہ ہم تعلقات بھی وہاں بنانا پسند کرتے ہیں جہاں سے ہمارے مفادات کو تسکین ملتی ہے۔
"شائد ہم سمجھدار بہت ہو گئے ہیں”
چھوٹی چھوٹی نیکییوں سے شروعات کریں۔ کوئی بلاوجہ ناراض ہو جائے تو اسے بلاوجہ منا لیں۔ اپنے بچوں کو وقت دینا شروع کریں ان کی رہنمائی ہالی ووڈ یا بالی ووڈ کے فلم یا پروگرامز دکھا کر نہیں بلکہ سیرت النبی ﷺ کی کتاب کھول کر نبی ﷺ کی زندگی سے اپنے بچوں کی رہنمائی کریں۔
صدقہ ، خیرات کریں۔ اپنے ارد گرد موجود کسی ایک مجبور کا ہاتھ تھام کر اسکی مدد کرنے کی کوشش کریں وہ کوشش مالی بھی ہو سکتی ہے اور جزباتی بھی۔
یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہمارے دلوں کے اوپر جمی گناہوں کے گرد کو صاف کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
” معاشرے کی از سر نو تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں صرف باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے اپنے معاشرے کو رہنے کے قابل بنائیں جہاں لوگ، لوگوں سے خوفزدہ نہ ہوں”

Back to top button