ادبی دنیا
ملا جلا انتخاب
-
انحراف کے مشاعرے میں شاہدہ مجید کا فی البدیہ کہا گیا کلام
انحراف کےطرحی مشاعرے میں پہلی بار فی البدیہہ کہے گئے اشعار ……
-
فضائل مکہ مکرمہ وفضائل مدینہ منورہ
حافظ کریم اللہ چشتی کعبے کی رونق کعبہ کامنظراللہ اکبراللہ اکبر دیکھوں…
-
جشن میلادمصطفیﷺکی شرعی حیثیت قرآن وحدیث کی روشنی میں
خداکی رضاچاہتے ہیں دوعالم خداچاہتاہے رضائے محمدﷺ جشن میلادمصطفیﷺکی شرعی حیثیت قرآن…
-
احکام ومسائل اعتکاف
حافظ کریم اللہ چشتی اعتکاف بناہے عَکْفجسکامعنی ہے ٹھہرنایاقائم رہناجبکہ اصطلاح شرع…
-
نعیم صدیقی مرحوم کی نعت وقاص انجم جعفری بارگاہِ رسالتﷺ میں پیش کرتے ہیں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں؟ میں ایک نعت کہوں…
-
شوہرِ مظلوم
شوہرِ مظلوم _____________ فیروز نظام الدین ( ایستادہ ایک بڑی کوٹھی کے…
-
جناب خالد اشفاق کا خوبصورت اختصاریہ ’’ سو لفظوں کا نگر ‘‘
جناب خالد اشفاق کا خوبصورت اختصاریہ ’’ سو لفظوں کا نگر ‘‘…
-
میانوالی سے تو صیف احمد کی تحریر ” نمکین رشتے "
نمکین رشتے توصیف احمد( میانوالی) بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ…
-
دیوانِ منصور سے …………………………………
ہوا میں گھات لگا کر گمان بیٹھ گیا چراغ کھینچ کے اپنی…
-
خواجہ سرا دولت مندوں کے گھر کیسے رہتے ہیں
خواجہ سرا دولت مندوں کے گھر کیسے رہتے ہیں تحریر:۔ عالیہ جمشید…
-
دستار،شلواراور صحافت………………. تحریر .. خواجہ محمد کلیم
اینکر:ماروی صاحبہ ،کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کہاں ہے ؟ کہاں ہیں وہ…
-
:مجھے گیم لینی ہے
مجھے گیم لینی ہے تحریر: حافظ عمر زبیر دنیا میں بنی نوع…
-
پرویز مشرف کی فراری اورحکومت کی بےبسی پر فوزیہ شفقت کا اختصاریہ
پرویز مشرف کی فراری حکومت کی بےبسی پر فوزیہ شفقت کا اختصاریہ…
-
گرمیوں کی چھٹیاں ۔۔۔۔۔۔۔ کیسے گزاریں ۔۔؟؟
سید مبشرمہدی عیسوی کیلنڈر نے یکم جنوری سے جونئے سال کا سفر…
-
وفاقی اردو یونیورسٹی کی پروفیسر راشدہ ماہین ملک کا سرائیکی کلام
وفاقی اردو یونیورسٹی کی پروفیسر راشدہ ماہین ملک کا سرائیکی کلام ………………………………………………….…
-
انحراف کے فورم میں کہی گئی شاہدہ مجید کی گرہ بند فی البدیہہ غزل .
انحراف کے فورم میں کہی گئی شاہدہ مجید کی گرہ بند فی…
-
عروہ نیازی کی دلوں کو چھُو لینے والی تحریر ” اولادِ مدینہ "”
آئینہ عروہ نیازی اولادِ مدینہ "یا اللہ جتنے بھی بے اولاد ہیں…
-
بچپن کی عیدوں سے جڑی چند یادیں
بچپن کی عیدوں سے جڑی چند یادیں ………….. تحریر عظمیٰ خان رومی…
-
کیا پاکستان بوڑھا ہو چکا ہے؟؟؟
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔ احمر اکبر کل اچانک طبیعت ناساز ہوئی تو ڈاکٹر نے…
-
آمدِ رمضان! مرحبا مرحبا
رمضان المبارک سے متعلق ارشادِ نبوی ؐہے ’’تم پر ایک عظیم مہینہ…
-
’’کچھ وقت تو لگے گا تجھے بھلانے میں ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔( شمائلہ ناز )
’’کچھ وقت تو لگے گا تجھے بھلانے میں ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔( شمائلہ ناز…
شخصیات
-
neelab
تحریکِ پاکستان کے معتبر ناموں کی کہکشاں کا روشن ستارہ ۔ سیدہ قدسیہ گیلانی
حدِ ادب انوارحسین حقی سیدہ قدسیہ گیلانی _____________ تحریک پاکستان کا دَبستان جہاں حرُیت فکر اور عملِ پیہم کی اُجلی…
Read More » -
شخصیات
دو جوڑے ملیشیا کھدر اور ایک جوڑی جوتے میں زندگی گذارنے والا فقیر منش ایدھی
عبدالستار ایدھی نے ساری زندگی سادگی و متانت میں گذارد دی کروڑوں روپے کے فنڈز لینے والے عبد الستارایدھی نے…
Read More » -
شخصیات
عمران خان کے لیئے عزت ، دولت اور شہرت ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کا انعام ( تحریر اقبال سیالکوٹین )
عزت ، دولت ، شہرت ، یہی تین چیزیں انسان کی زندگی میں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ناں ؟…
Read More » -
شخصیات
سید نصیر شاہ …’’ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سے کہیں جیسے ‘‘
’’ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سے کہیں جیسے ‘‘ تحریر : خالد سعید ایڈو کیٹ لبنان کے عظیم…
Read More » -
شخصیات
محمد اشفاق چُغتائی کے حوالے مولانا عبد الستار خان نیازی کی تحریر
مولانا عبد الستار خان نیازی: محمد اشفاق چغتائی عاشق رسول اور علامہ اقبال سے سچی محبت کر نے والا تھا…
Read More » -
شخصیات
درد کے سفیر سے انصاف کے سفیر تک( اعجاز ملک )
درد کا سفیر سے انصاف کا سفیر تک عیسیٰ خیل کے قبیلہ رب نواز خیل کے احمد خان نیازی کے…
Read More »
تاریخ
-
میانوالی کے باسی ہریش چند نکڑہ کی کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ وچھڑا وطن. ( پہلی قسط)
میانوالی کے باسی ہریش چند نکڑہ کی کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ وچھڑا وطن ‘‘ اردو ترجمہ :۔ انجینئر شہزاد اسلم خان ………… پہلی قسط
میں سب سے زیادہ اپنے بچوں، پوتیوں اور نواسے نواسیوں کاشکر گزار ہوں جن کی اپنے خاندان کی جڑوں کو جاننے اور سمجھنے کی شدید خواہش میری اس کاوش کی وجہ بنی۔اس کے بعد میں خاص طور اپنی بیوی کوشلیا کی حوصلہ افزائی کا ذکر کروں گا۔انہوں نے جگہوں ،روایات اور حالات و واقعات کو یاد کرنے میں میری بے انتہا مدد کی۔ہم دونوں نے اپنے ماضی کے واقعات کو دوبارہ زندہ کیا پھر میں انہیں قلمبند کرنے کے قابل ہوا۔
اپنی ذاتی کوششوں کی تکمیل کیلئے میں میانوالی سے چھوڑ کر آنے والے اپنے خاندان کے بہت سے بزرگوں ،رفقاء اور دوستوں سے بھی گفتگو کی جو کہ اپنے واقعات اور تجربات مجھے بتانے کو تیار تھے۔ویسے تو بہت سے افراد نے میری مدد کی مگر میں خاص طور اس بیش قیمت اور قابل ذکر مددکاذکر کروں گا جو شری دھرم سوارپ نکڑہ،روشن لال چکڑ،کرشن گوپال آہوجا گرمکھ خرانا،ہربھگوان سپرا اور میری ممانی بھگونتی نے کی۔میں خوش قسمت ہوں کہ میری ملاقات میانوالی کے مسٹر جی ایم شاہ سے ہوگئی جو کہ حکومت پاکستان کی وزارت تعلیم میں ایک اعلیٰ عہدیدار تھے۔یہ ملاقات 2001ء میں ان کے دورہ دہلی کے موقعہ پر ہوئی۔انہوں نے مجھے بہت سی اہم معلومات فراہم کرنے کے علاوہ پروفیسر محمد سلیم احسن کی چند دلچسپ تاریخی تحریریں میرے حوالے کیں۔
میں پوری طرح اپنے برسوں پرانے دوست ٹی پی اسرہ جوکہ آئی اے ایس کے ایک سابق افسر ہونے کے علاوہ بہت سی کتابوں کے مصنف بھی ہیں کاشکریہ ادا نہیں کرسکتاجنہوں نے اس کتاب کے مسودے کو بار بارپڑھا اور تصحیح کی۔اس دوران انہوں نے کتاب کے بہت سے حصوں کو دوبارہ لکھا بھی اور یوں اپنے مصنف ہونے کا فائدہ پہنچایا۔ اور آخرمیں ان سب سے بڑھ کر میں اپنے لئے دیپک کا مشکور ہوں جو نہ صرف میرے کام کیلئے باعث تحریک بنا بلکہ اس نے انتہائی احسن طریقے سے کتاب کی طباعت و اشاعت کاکام نبھایا یہ اس کی کوشش کا نتیجہ ہے کہ آج یہ کتاب اپنی اس شکل میں موجود ہے۔
پیش لفظ
جب ہریش جی(میں ہمیشہ اپنے تیس برس پرانے دوست ہریش چندرنکڑہ کو اسی نام سے پکارتا ہوں)نے مجھے’’وچھڑا وطن‘‘ کا مسودہ دیکھنے کو کہا اور اس وقت مجھے ان کی اس شاندار کارنامے کو بہت کم علم مجھے یاد تھاکہ وہ مجھے اکثر بتایا کرتے تھے کہ وہ یہ کام کیوں کررہے ہیں کہ یہ سب وہ بالخصوص اپنے پوتے پوتیوں کی تجسس کو دور کرنے کیلئے کررہے تھے جو وہ موجودہ شمال مشرقی پاکستان میں پانی جڑوں کے متعلق رکھتے تھے۔جب انہوں نے ایک کتا ب لکھنے کا ارادہ کیا جو صرف ان کے اپنے بچپن ،تعلیم،کم عمری کی شادی ،روایات ،رسوم اور تہواروں کے متعلق بار بار کئے جانے والے سوالات کا مفصل جواب ہو بلکہ دراصل ایک گزرے ہوئے دور کی زندگی کا احاطہ کرے جس کے اوپر وقت کا کثیف پردہ پڑچکا ہے۔لیکن جب میں نے ڈیڑھ سو صفحات کی اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تب مجھے پتہ چلا کہ میں صرف متجسس بچوں کو معلومات کے لکھے جانے والے یادوں کے ایک مجموعے کو نہیں بلکہ معاشرت کے زبردست مطالعے کو پڑھ رہاتھا۔اس کتاب نے میرے اپنے دل کے تار بھی چھوئے کیونکہ میں خود بھی برصغیر کے اسی خطے میں پیدا ہوا۔اگرچہ میرے ماں باپ جہلم اور روالپنڈی سے تعلق رکھتے تھے مگری میری پیدائش ملتان کی ہے ابتدائی تعلیم ڈیرہ غازی خان سے حاصل کی۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ ہرنال گاؤں جایا کرتا تھا جو کہ راولپنڈی کے ساتھ واقع ہے تقسیم سے ایک سال پہلے میں لاہور بیھ گیا۔ان گزرے ہوئے سالوں کے جونقوش میں نے حاصل کئے وہ آج بھی میری اس دور کی یادداشت کا حصہ ہیں۔
جیسے جیسے میں ’’وچھڑاوطن‘‘پڑھتا گیا مجھے لگا اس کے صفحات پر میرے اپنے راشتہ داروں، دوستوں اور سکول کے ساتھیوں کاعکس موجود ہے اس کتاب نے میرے طاق نسیان سے بھولے بسرے لوگوں کا ایک ہجوم پھر سے زندہ کر دیا۔اس کتاب میں پیش کئے گئے گردو پیس ،حالات و واقعات اور حکایات،سب کے سب تقریباً ویسے ہی ہیں جن کو میں نے خود دیکھا یا محسوس کیا۔
میانوالی کی اصل سر ا ئیکی میں لکھا گیا دیباچہ بہت پر اثر انداز میں آبائی وطن سے جدائی اپنے ماں باپ سے جدائی سے بہت مختلف ہے۔ اس جدائی میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔کتاب کا آخری صفحہ اس کتاب کے لکھنے کی ایک اور وجہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یعنی اپنے’’وچھڑے‘‘ مگرکبھی نہ بھلانے جاسکنے والے ’’وطن‘‘کو خراج عقیدت پیش کرنا اور یہ بقول مصنف وہ صرف اپنی یادداشتوں کے ذریعے ہی کرسکتے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہریش جی نے اظہار عقیدت کا یہ طریقہ اختیار کیا جس کی بدولت یہ تمثیل انگیز اور دلکش کتاب سامنے آئی۔اس کتاب نے مصنف کی کئی ظاہری اور پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی ظاہر کیا ان کا داستان گوئی کا ہنر،گزرے واقعات اور مشاہدات کی جاندار انداز میں دوبارہ تخلیق جو کہ اس دور کے روئیوں،طرزفکر،توہمات اور رحجانات کو کھل کر بیان کرتی ہے اور آخر میں ان کی خوبصورت لفاظی ان سے سے بڑھ کر ہے۔جس کے استعمال سے انہوں نے قابل ذکر واقعات ،مزاحیہ حالات اور رقت انگیز مصائب کے بیان میں سب کے ساتھ انصاف کیا ہے۔
لیکن جس طرح میں نے پہلے کہا اگرآپ کتاب کی بیان کردہ دلکشی اور دلربائی کو نظر انداز کربھی دیں اور اس کو انیس تیس اور چالیس کی دہائیوں کے متحدہ ہندوستان کے شمال مغربی حصے کے معاشرتی مطالعے کے طورپر دیکھیں تو یقیناً’’وچھڑا وطن‘‘ ماہرین عمرانیات کی خصوصی توجہ حاصل کرسکتی ہے۔لیکن ایک چھوٹے سے قصبے کے ماحول،ثقافت اورطرز عمل کو مکمل بیان کیا گیا ہے۔مثلاً اس شہر کے گردوبیش،برسوں قدیم سجاوٹ کے انداز،ذخیرہ کرنے اور کھانا پکانے کے طریقے وغیرہ،یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ کی آنکھوں کے سامنے تصویریں گزریں گی۔ چابی دا لٹھا چار آنیگز،بستہ قاعدہ تختی،طرے والی پگ،ستھنٹر تے بوچھنٹری،بالکل ویسے ہی جیسے اس ’’جادو دا ڈبہ‘‘ کی تصویریں جو ہمیشہ بچوں کیلئے کشش کا باعث تھا۔اس ’’جادو دا ڈبہ‘‘ کو مصنف نے اپنے انداز میں خوب بیان کیاہے۔یہ کتاب پڑھتے ہوئے مختلف کرداروں اور چہروں کا ایک ہجوم زندہ ہوکر آپ کے سامنے آجاتا ہے۔آپ کی ملاقات باتونی حجام سے ہوتی ہے جو کہ اپنے استرے اور پھٹکڑی سے لیس ہے۔ انہی صفحات پر آپ کو خندق کھودنے والا وہ بھائی بھی نظر آئے گا جو کہ لاہور اپنی سہری بہن کو ملنے جاتا ہے اور رات کو تقریباً بھوکا ہی سونے کو جاتا ہے ۔کیونکہ بہن کے گھر ملنے والا کھانا اس کیلئے بہت کم ثابت ہوتا ہے۔یہیں کہیں آپ اس ٹھگ ویدسے بھی ملیں گے جو کہ روحوں سے باتیں کرنے کی اپنی خصوصی قوت کا مظاہرہ کررہا ہے۔پھرآپ مقامی اداکاروں کی ’’رام لیلا‘‘میں وہ فاش غلطیاں بھی نظرآئیں گی جن سے ناظرین کو ہنسی کے دورے پڑجاتے ہیں۔(کیا ہم سب آج بھی ان کو محبت سے یاد نہیں کرتے اوراپنے دوستوں کے ساتھ محفوظ نہیں ہوتے؟) ایسے ہی آپ کئی چٹ پٹی باتوں کی مثال پیش کرسکتے ہیں جو مہارت سے نشانے پر لگائی جانے والی ضربوں کا کام کرتی ہیں اور ایک مکمل واضح تصویر بناتی ہیں۔
میانوالی کے’’اردو شعرا‘‘ کے عنوان تلے مصنف نے تلوک چند محروم کا ذکر کیا ہے جو لابھورام جوش ملسیانی کی طرح اس زمانے میں برصغیرکے اندر اردو شاعری کے بچے کھچے بزرگوں میں سے ایک مانے جاتے تھے(مجھے نہیں علم تھا کہ ان کا تعلق بھی میانوالی سے تھا) مجھے ایک واقعہ یاد ہے جو کہ مجھے محروم صاحب کے ایک دوست شاعرنے سنایا۔یہ واقعہ اس بھاری دور میں لوگوں کو جکڑے حالات کا عکاس ہے جب برصغیر کی تاریخ کا ایک المناک باب لکھا جارہا تھا۔محروم صاحب اس دور میں گورڈن کالج راولپنڈی میں اردو پڑھایا کرتے تھے۔جب بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوئی اوت تقسیم ناگزیر نظرآنے لگی تو محروم صاحب کے مداحین نے ان کو الوداع کہنے کیلئے ایک مشاعرے کا اہتما کیا ۔مشاعرے کا طرح مصرعہ تھا’’جارہے ہیں حضرت محروم پاکستان سے‘‘ کئی نظمیں پیش کی گئیں جن میں دکھ اور تکلیف کے ساتھ محروم صاحب سے جدائی پر پچھتاوے اور احساس زیاں کا بیان تھا۔آخرمیں شمع محروم صاحب کے سامنے رکھی گئی۔انہوں نے اپنے کلام کا اختتام اس شعر پر کیا۔
جا رہے ہیں حضرت محروم پاکستان سے
گر نہ پاکستان سے جائیں تو جائیں جان سے
ہندواورمسلمان برادریوں کی اپنی الگ ثقافتی اقدار سے ہٹ کر ان کے معاشرتی روابط بہت بھرپور طریقے سے مقصدیت اور ایمانداری کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔کتاب کے وہ ابواب جو میانوالی کی زندگی کے اس رخ کو بیان کرتے ہیں انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ باوجودیکہ ہندو پانی،مسلم پانی کا تصور مو جو دتھا اور کھانا بھی اکٹھا نہیں کھایا جاتا تا یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا واقعی ملک کی تقسیم ناگزیر تھی۔
بہرحال یہ ساری محنت جس کا آغاز دراصل ہریش جی کی اپنے پیاروں سے محبت میں کی گئی ایک کوشش سے ہوا۔اس کا نتیجہ ایک پڑھنے کے قابل اور دلکش چھوٹی سے کتاب کی صورت میں نکلا۔جو ایک طرف تو ایک عام قاری کیلئے دلچسپی اور وطن کی یاد کو ابھارنے کا باعث ہے اور دوسری طرف ماہرین عمرانیات کیلئے قیمتی معلومات سے بھر پور ایک دستاویز ہے۔جو تاریخ کا ایک حصہ بیان کرتی ہے۔ آخر یہ خوبصورتی سے لکھی ہوئی یاداشتیں ہی ہیں۔ نہ کہ بادشاہوں ،جنگوں اور معاہدوں کے قصے جو ملاوٹ،کجی،مبالغہ آرائی اور غلو سے پاک ہوتی ہیں اور تاریخ کو زندہ رکھتی ہیں۔یہی تاریخ کا اصل جزو ہیں۔(ٹی ۔پی اِسّر)
وچھڑا وطن تے عمراں لنگھیاں
بھاویں وَت اساں ملے ناں
میانوالی آڈکھاں جو کہڑی گلوں
ہنٹر تک تینوں بھلے ناں
1947ء میں میانوالی کے لوگوں کیلئے سب کچھ اچانک اور تیزی سے بدل گیا۔وہ واقعات جو لاکھوں لوگوں کیلئے ڈراؤنے خواب ثابت ہوئے اور اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ان کے نتیجے میں میانوالی کے ہندوؤں اور سکھوں کی ساری آبادی اپنے وطن سے بے دخل ہوئی اور ہندوستان اور دنیا کے کئی دوسرے علاقوں میں جاآباد ہوئی۔ آج 60 سال گزرنے کے بعد یہ واضح ہے کہ آج ان مشترکہ اقدار،ثقافت،رسوم یہاں تک کہ زبان کا بھی بہت کم حصہ ہمارے پاس رہ گیا ہے،جو ہمارے بچھڑے وطن میں ہمیں ایک بندھن میں باندھے ہو ئے تھے۔میانوالی کے باسی جہاں بھی گئے انہوں نے خود کوئی نئے ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔اور اس دوران اپنے طبقے کی مشترکہ خصوصیات کھوبیٹھے۔لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے کردار کی مضبوطی کو قائم رکھا جو اس مٹی نے انہیں دی تھی جو کبھی ان کا گھر تھی۔
یہ کتاب لکھنے کا خیال 1994ء کے موسم گرما میں آیا۔میں اور میری بیوی کوشلیا بنگلور میں اپنے بیٹے دیپک،بہومارگریٹ،پوتے نکھل اور پوتی مایا کے ساتھ لطف اندوز ہورہے تھے۔ہمیں جنوبی بھارت کی ایک شادی میں بلایا گیا۔شآدی ہال بہت بڑا،روشن اور گیندے کے پھولوں سے خوبصورتی کیساتھ سجا ہواتھا۔ جبکہ ہال میں جدید موسیقی کا انتظام بھی تھا۔
نئے جوڑے کو آشیر باد دینے کے بعد ہمیں ڈائننگ ہال لے جایا گیا جہاں ہم بھی دوسرے بہت سے مہمانوں کی طرح کھانے کیلئے بیٹھ گئے میں کھانے کا آغاز میٹھے چاول’’پایاسم‘‘سے کیا جوکھیر سیملتے جلتے تھے میں وہاں ذکر کیا کہ میانوالی میں خاص موقعوں پر کھانوں کا آغاز ایک میٹھی ڈش کڑاہ سے کیا جاتا تھا۔
میرا یہ عام سا تبصرہ میرے بارہ سالہ متجسس پوتے نکھل کے تجسس کیلئے ایک نکتہ آغاز ثابت ہوا۔اور اس نے مجھ پر میانوالی میں ہونے والی شادیوں کے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کردی۔اگلے کئی دن میں اس کا یہ تجسس صرف شادیوں تک محدود نہ رہا بلکہ وہ مانوالی میں زندگی کے تمام پہلوؤں کے متعلق پوچھنے لگا جس میں روایات،طرز زندگی،لوگوں کا انداز فکر اور رویئے ،سب شامل تھے۔
میرا بیٹا دیپک بھی سوالات و جوابات کے چند ادوار میں موجود تھا۔اس دوران اس نے محسوس کیا کہ ان میں سے کئی باتیں اس کیلئے بھی نئی تھیں۔اس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیسے جیسے پرانی نسل ختم ہوتی جارہی ہے۔ شاید ان سوالات کے جواب دینے والا کوئی باقی نہ رہے جو نوجوان نسل کو میانوالی میں اپنی ثقافت،اقدار اور طرز زندگی کے بارے میں بتا سکے۔اس نے شدت سے محسوس کیا کہ میں جو نکرہ خاندان کی کہانی لکھنے کا کام شروع کیا ہوا ہے وہ شآید نئی نسل کو ان کی جڑوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہ دے سکے۔چنانچہ یہی وہ موقعہ تھا جب میں نے اپنا مقالہ لکھنے کے خیال کو مانوالی کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کے ارادے سے بدل دیا۔
جب میں نے اپنے منصوبے پر کام شروع کیا اور معلومات اکٹھی کرکے ان کا جائزہ لینا شروع کیا تو اس وقت بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک انتہائی کٹھن تجربہ ثابت ہوگا۔ جس پر مجھے کئی سال محنت کرنا پڑے گی۔میں دوبارہ انہی حالات و واقعات میں جابسا جن کے بارے میں میں نے کئی برسوں سے سوچنا بھی چھوڑ دیا تھا اور شاید دوبارہ کبھی سوچتا بھی نہیں اور نہ کبھی انہیں یاد کرتا۔اگر انہیں نئی نسل کیلئے محفوظ کرنے کی خواہش اتنی شدید نہ ہوتی۔ انہی یادوں کے ساتھ ساتھ میرے بچھڑے وطن کی یاد اپنے عروج پر جا پہنچی لیکن اب اس میں ایک مقصد بھی شامل ہوچکا تھا۔مزید یہ کہ مجھے احساس ہوچکا تھا کہ میں میانوالی میں رنے والے اپنے طبقے کی آخر ی نسل سے تعلق رکھتا ہوں چنانچہ میں وہاں کی زندگی کے بارے میں قابل اعتماد معلومات دے سکتا ہوں۔
’’وچھڑا وطن‘‘ بیتے سالوں کے حقائق، یاداشتوں اور حکایات کو اکٹھا کرنے کی میری ایک حقیر سے کاوش کا نتیجہ ہے۔اس کے ذریعے میں نے اس علاقے کی جغرافیائی اور ظاہری حالت کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی وہاں کیلوگوں کی زندگی کے طبقاتی، معاشرتی اور ثقافتی پہلوؤں کو بھی بیان کیا ہے۔
یہ میرے لئے انتہائی اطمینان کا با ت ہوگی اگر یہ کتاب نوجوان نسل کو ان کی اصل کے بارے میں جاننے میں مدد دینے کا ایسا مقصد حاصل کرلے اور ساتھ ہی ساتھ پرانی نسل کو کسی حد تک اپنے مشترکہ ماضی میں دوبارہ جابسائے وہ ماضی جو اب صرف یاد بن کر رہ گیا ہے -
صحابہ کرام کے مزارات اور سرکٹے سات بھائیوں کا مدفن
ضلع میانوالی میں
پچاس پچاس گز لمبی قبریں ۔
صحابہ کرام کے مزارات اور سرکٹے سات بھائیوں کا مدفن
دلچسپی کا تحقیق طلب موضوع
رپورٹ ۔ انوار حسین حقی
خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے سنگھم پر آباد ضلع میانوالی قدیم علاقوں پر مشتمل ہے ۔ ان علاقوں کا تعلق کسی خاص زمانے یا تہذیب تک محدود نہیں ہے بلکہ ان پہاڑوں اور بیابانوں میں کئی زمانے اور تہذیبیں دفن ہیں ۔۔
تاریخی اور جغرافیائی طور پر یہ وادیِ سندھ کا حصہ ہے ۔ ہندو مت ، گندھارا ، بدھ مت ، سمیت قدیم ترین ادوار کے آثار یہاں موجود ہیں ۔ یہ علاقہ تاریخ کی دسترس میں کب آیا اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ مستند تاریخی کتب میں اس خطے کا ذکر موجود ہے ۔ گریسر اپنی شہرہ آفاق کتاب لنگوائیسٹک سروے آف پاکستان (Linguistic Survey of Pakistan ) میں وادی سندھ کی زبانوں کو دوحصوں میں تقسیم کرتا ہے ۔ ایک سندھی اور دوسری لہندی یا مغربی ( یعنی سورج کے اُترنے کا علاقہ یا سمت ) اُس کا کہنا ہے کہ ’’ مغربی زبان ( میانوالی سمیت ) بولنے والے علاقوں نے ہندوؤں کی مقدس کتابوں رامائن اور مہا بھارت کے دو کرداروں کو جنم دیا ہے۔ رامائن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ مہا بھارت کی نسبت زیادی قدیم داستان ہے ۔ اکثریت کی رائے ہے کہ ہندو بھی ان مقدس کتابوں کے زمانے کا تعین نہیں کر سکے ۔ان علاقوں میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ قرونِ اولی سے ہی شروع ہو چُکا تھا ۔ مورخین اس کے لیئے جو مضبوط حوالے پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک معتبر شہادت یہ دی جاتی ہے کہ اس علاقے میں قدیم دور کی قبریں موجود ہیں ۔
ضلع میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کے پرانے مزارات اور قبروں کے مطالعاتی دوروں کے دوران دلچسپ تاریخی واقعات سے آگاہی اور مقامات کے مشاہدے کا موقع ملا ہے ۔ ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے کی بجائے دستیاب معلومات ، حالات و واقعات کو قارئین کی خدمت میں پیش کرنا زیادہ مناسب خیال کیا جا رہا ہے شاید یہ سب کچھ اس علاقے کی تاریخ کے مزید کھوج اور تحقیق کے لیئے مہمیز کا کام دے سکے ۔
میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں مٹھا خٹک کے ایک بلند وبالا پہاڑ کے پہلو میں پچاس پچاس گز لمبی قبریں موجود ہیں ۔ ان مزارات کی تاریخ کے حوالے سے کوئی مستند معلومات موجود نہیں ہیں ۔ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مزارات صدیوں پرانے ہیں ۔ علاقے کے زیادہ تر لوگ اس پر متفق ہیں کہ یہ صحابہ کرام کے مزارات ہیں ۔۔۔۔
ان قبروں تک جانے والے راستے پر ’’ مزارات صحابہ کرام ‘‘ کا بورڈ بھی لگا ہوا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ان قبروں کی غیر معمولی لمبائی کے بارے میں مختلف روایتیں پائی جاتی ہیں ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہاں کے لوگ برگذیدہ لوگوں کی قبریں لمبی بنایا کرتے تھے ۔ پہلے یہ قبریں کچی تھیں اب پختہ کر دی گئی ہیں ۔ کچھ یہ کہتے سُنے گئے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی لمبائی میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا گیا جب ان کو پختہ کیا گیا تو خود بخود ان کی لمبائی میں اضافہ ہونا بند ہو گیا ۔
ان غیر معمولی لمبی قبروں کی تعداد تین ہے جن میں سے دو قبروں کی کی لمبائی پچاس پچاس گز ہے جبکہ ایک قبر 25 گز لمبی ہے یہ چھوٹی قبر بچے کی بتائی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ دور دراز سے لوگوں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے ۔ مختلف چڑھاوے چڑہائے جاتے ہیں اور منتیں مانگی جاتی ہیں ۔ یہاں زائرین کی رہائش کے لیئے کمرے بھی بنے ہوئے ہیں پینے کا شفاف پانی اکسیویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی دستیاب نہیں ہے بارش کا پانی جمع کرنے کے لیئے ایک چورس حوض بنایا گیا ہے بارشیں نہ ہونے کی صورت میں ٹینکر کے ذریعے پانی لاکر اس حوض میں جمع کیا جاتا ہے ۔
اس سلسلہ میں تحقیقی کام کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔ تاہم علاقے کی تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام اس علاقے میں اسلامی لشکر کے ہمراہ تشریف لائے تھے
سلطان خیل کے گرد ونواح کا یہ پہاڑی علاقہ تاریخی حوالوں سے بھرا پڑاہے اس خطے میں سرہنگوں ، نیازیوں اور مروتوں کی لڑائیاں بھی تاریخ کاحصہ ہیں ۔ یہ وہی خطہ ہے جس کے بارے میں مورخین دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’یہ علاقہ بلوچستان اور سندھ سے بھی پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا ‘‘ ۔پروفیسر سلیم احسن جنہوں نے میانوالی کی تاریخ پر خاصا کام کیا ہے وہ بھی اس علاقے میں اسلامی لشکر کی آمد کا ذکر کرتے ہیں ۔ اسی تاریخی پس منظر میں محمد منصور آفاق بھی اس علاقے کو ’’باب الاسلا م ‘‘ کہتے ہیں ۔۔۔
پروفیسر ملک محمد اسلم گھنجیرہ ( مرحوم ) کی تحقیق کے مطابق بلوچستان کا علاقہ سندھ سے بھی پہلے فتح ہو کر مسلمانوں کی سلطنت میں شامل ہوچُکا تھا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کے خلاف محمد بن قاسم کو یلغار کرنے کے لیئے بھیجنے سے پہلے بلوچستان کے نائب گورنر علافی کو سندھ پر حملہ کرنے کے لیئے بھیجا تھا ۔ مگر اس کے باوجود بلوچستان کو ہند کا باب الاسلام اس لیئے نہیں کہ سکتے کہ بلوچستان جغرافیائی اعتبار سے باقی ہندوستان سے الگ تھلگ تھا ۔ اس علاقے کا ایران کی ساسان سلطنت کا جزو ہونے کی وجہ سے اس کا ہند سے سیاسی اور ثقافتی رابطہ برائے نام تھا نیز یہ کہ بلوچستان نے باقی ہندوستان کی عسکری یا فکری تسخیر میں کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کیا ۔۔
سندھ 711-712 عیسویں ( 90-90 ہجری ) میں فتح ہو کر اسلامی سلطنت کا حصہ بنا اور صدیوں تک اسلامی سلطنت کا حصہ رہنے والے اس علاقے سے ہندوستان کے دوسرے حصوں کو فتح کرنے کی کوشش کی گئی اس علاقے نے فوجی اور سیاسی کامرانیوں سے زیادہ نظریاتی اور تہذیبی فتح کے در وا کیئے ۔ اسی لیئے سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے ۔ یہ لافانی اعزاز خطہ مہران سے کسی طرح بھی چھینا نہیں جا سکتا ۔
مورخین کا کہنا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے علاوہ عربوں کا پاک وہند میں داخل ہونے کا ایک اور راستہ بنوں اور میانوالی کا علاقہ ہے یہ علاقہ سندھ اور بلوچستان کی فتح سے بہت پہلے مسلمانوں کے قبضہ میں آیا ۔ پروفیسر محمد اسلم ملک گھنجیرہ( جو اس علاقے کی تاریخ کے حوالے سے اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں) لکھتے ہیں ’’ یہ علاقہ دیر تک اسلامی سلطنت کے ماتحت نہیں رہا ۔ کیوں کہ جب زابلستان ( کابل اور اس کے ملحق علاقوں ) میں بغاوت ہوئی تو یہ علاقہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ۔ اور پھر دوبارہ فتح نہیں کیا جا سکا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس علاقے کی تسخیر سے ہندوستان کی مزید تسخیر کا باب وا نہیں ہوا ۔ لیکن اس علاقے کا اسلامی فتوحات کے آغاز میں ہی فتح ہوجانا کئی لحاظ سے اہم تھا خاص کر اس لیئے کہ
بلوچستان کے برعکس یہ علاقہ ایرانی سلطنت میں شامل نہ تھا ۔ اس لیئے یہ ہند اصل ( India Proper ) میں شمار ہوتا تھا ۔ یہ علاقہ ابتدائی اسلامی فتوحات یعنی 44 ہجری ، یا 665-666 عیسیوں میں فتح ہوا اس لیئے کئی صحابہ کرام نے بھی اس میں شرکت فرمائی اس علاقے پر مسلمانوں کے اس حملے کا احوال بلاذری نے فتوح البدان میں یوں لکھا ہے کہ 44 ہجری بمطابق 665-66 عیسویں میں مہلب بن صفرہ نے بتہ اور الاھواز پر حملہ کرکے کفار کے ساتھ جنگ کی ۔ طبری اور ابن الاثر نے اس کی کچھ مزید تفصیل اس طرح دی ہے کہ ’’ اس وقت خراسان کے جنرل آفیسر کمانڈٹ عبد الرحمان ابنِ سمرہ تھے اور مہلب ابن، ابی صفرہ ان کے زیر کمان آفیسر تھے اور تسخیر کابل کے بعد ہندوستان کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے صلیبی لشکر نے بتہ اور الاھواز پر حملہ کیا ۔۔۔
اس علاقے میں دریائے سندھ کے مغربی پہاڑ پر چشمہ بیراج کے قریب واقع قلعہ کافر کوٹ کو کنگھم نے آرکیالوجیکل سروے کی جلدXIV میں شامل کرتے ہوئے اسے ( Kafir kot of Till Raja ) کہا ۔ اس قلعے پر عر ب حملہ آوروں کے نشانات چند قبور اور ایک بے ترتیب سی مسجد کی صورت میں موجود ہیں ۔ اس سے مورخین کے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ مہلب نے بنوں کا علاقہ فتح کرنے کے بعد اس قلعے پر حملہ کرکے اسے فتح کیا ہوگا ۔ اس قلعے میں جو قبریں بنائی گئی ہیں وہ قلعے کے بھاری بھرکم پتھروں سے بنائی گئی ہیں ۔ ان کے ساتھ ایک مسجد بھی ہے جس کی چوڑائی زیادہ نہیں ہے ۔ قبلہ کی سمت مصلیٰ بنا ہوا ہے ۔ اس مسجد کی اُونچائی قلعے کی زمین سے تین سے چار فٹ اُونچی ہے یہ بھی قلعے کے اُکھڑے ہوئے پتھروں سے بنائی گئی ہے ۔ یہاں مسجد کی موجودگی اس خیال کو تقویت پہنچا تی ہے کہ حملہ آور مسلمان تھے ۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم ملک کہتے ہیں کہ ’’ یہاں عرب حملہ آوروں کی ہی قبریں ہیں اور یہ مہلب کے لشکر کے ہی مجاہدین تھے ۔ چونکہ مہلب کا حملہ 44 ہجری میں ہوا تھا ۔اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ بقیدِ حیات تھے ۔ اس لیئے بعید نہیں کہ مذکورہ قبروں میں واقعی صحابیانِ رسول ﷺ محو استراحت ہوں اور اس طرح میانوالی کی سرزمین کو یہ فخر و امتیاز حاصل ہے کہ اُس نے ہندوستان میں سب سے پہلے صحابیانِ رسول کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا ۔ اور لشکرِ اسلام کو خوش آمدید کہا ۔۔
قلعہ کافر کوٹ کی مغربی جانب ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں کڑی خیسور کے قریب بھی اصحابِ رسول کے مزارات ہیں ۔
اسی علاقے میں سلاگر پہاڑ کی ڈھلوان اور دریائے سندھ کے کنارے آباد سینکڑوں سال پرانے شہر کالاباغ کے پرانے بازار کے آخر میں چند پرانی قبریں موجود ہیں ۔ان کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ صحابہ کرام کے مزارات ہیں ۔ ان میں دوقبریں مستورات کی ہیں جن پر لکڑی کی جالیوں کا پردہ بنایا گیا ہے۔ یہاں ایک چھوٹے بچے کی قبر بھی ہے ۔ مقامی لوگوں کی اکثریت اس روایت پر متفق ہے کہ زمانہ قدیم میں شہر کے کئی لوگ بیک وقت کئی دنوں تک ایک ہی خواب دیکھتے رہے ۔ خواب میں ان لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ ’’ آنے والے دنوں میں دریا کے پانی میں کچھ میتیں تیرتی ہوئی اس علاقے میں داخل ہوں گی ان میتوں کی تدفین کی جائے کیوں کہ ان میں جو بڑی میتیں ہیں وہ اصحابِ رسول کی ہیں ۔ خواب نظر آنے کے بعد دریا کی نگرانی شروع کر دی گئی تھی خواب کے عین مطابق چند دنوں بعد کفن میں لپٹی نعشیں پانی میں تیرتی ہوئی شہر کی حدود میں داخل ہوئیں جنہیں مقامی لوگوں نے دریا سے نکال کر عزت و تکریم کے ساتھ دفن کر دیا ۔ شہر کی آبادی کے وسط میں یہ قبیریں مرجع خلائق بنی ہوئی ہیں ۔ مقامی لوگوں نے اب اس مزار کے احاطے کی تعمیر و نو کر کے اسے پختہ کر دیا یے ۔
ضلع بھر میں جہاں اولیائے کرام کے مزارات کی کثرت ہے وہاں ڈھک اور موسیٰ خیل کی پہاڑی کے ساتھ ساتھ خوبصورتی سے تراشے ہوئے پتھروں کی قبریں بھی موجود ہیں ۔ یہ سطح زمین سے اونچائی پر ہیں اور ایک لمبے چوڑے مربع چبوترے پر بنائی گئی ہیں ۔ ایک بڑے پتھر کے اندر دیا ( چراغ ) رکھنے کی جگہ بھی انتہائی نفاست سے بنی ہوئی ہے ۔ ان میں سے کئی قبروں پر جھنٖڈے لگے ہوئے ہیں اور ان صاحبانِِ مزار کے لئے علاقے میں خاصا احترام پایا جاتا ہے صدارتی ایوارڈ یافتہ سکالر پروفیسر سلیم احسن کا کہنا ہے کہ ’’ ان قبروں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ساتھ بھائی تھے جن کے سر دشمن نے کاٹ لیئے مگر پھر بھی وہ سر کے بغیر چلتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تھے ۔ اس علاقے میں راجہ رسالو اور کوکلا رانی کا قصہ بھی مشہور ہے ۔
وادی سندھ مختلف اقوام اور عہد کے زیر نگیں رہا جن میں ایرانی ، یونانی ، موریا، یونانی باختری ، ساکا ، پارتھین ، کشان م گپتا ، ہندو، اور بدھ قابلِ ذکر ہیں ۔ ان علاقوں کے تاریخی اور تہذیبی کھوج کی طرف توجہ دینے کی زیادہ ضرورت محسوس نہی کی گئی جس کی وجہ سے قدم قدم پر تشنگی محسوس ہو تی ہے لیکن اس کے باوجود واقعات اور مقامات کی اہمیت کسی طرح سے بھی کم نہیں ہوتی ۔