ادبی دنیا

ملا جلا انتخاب

شخصیات

تاریخ

  • میانوالی کی غلہ منڈی ، گھر اور 1936ء میں آنے والے بجلی کے بلب … وچھڑا وطن ………… تحریر . ہریش چند نکڑہ …….. پانچویں‌قسط

    میانوالی کی غلہ منڈی ، گھر اور 1936ء میں آنے والے بجلی کے بلب … وچھڑا وطن ………… تحریر . ہریش چند نکڑہ …….. پانچویں‌قسط
    غلہ منڈی
    بازارکے علاوہ کاروباری سرگرمی غلہ منڈی،مویشی منڈی(ڈنگراں دا میلہ)اور جوتی مارکیٹ میں دیکھنے کوملتی ۔جُو نی مارکیٹ میں تقریباً بیس دکانیں تھیں جہاں موچی جوتیاں اور سینڈل بناتے اور بیچتے تھے۔چپل،جتی،کھیڑی اور کھسہ ،سنہری تلے والا کھسہ میانوالی کی خصوصیت تھا۔بازار میں دکانوں کی ساخت اور سائز میں عدم یکسانیت کے برعکس یہ مارکیٹ یکسانیت کا تاثر دیتی تھی۔
    ہر اتوار سول ہسپتال کے سامنے کھلے میدان میں ڈنگراں دا میلہ لگتا تھ۔جہاں گائیں بھینسیں،بھیڑیں،بکریاں، بیل، گدھے،گھوڑے اور اونٹ آس پاس کے گاؤں سے بیچنے کیلئے لائے جاتے تھے۔ ساہیوال کی گائیں بہت اچھی اور مشہور تھیں اور ان کی مانگ بھی بہت زیادہ تھی
    جیسا کہ پہلے ذکر کیا،میرے پردادا غلہ منڈی میں تاجر تھے۔ اس لئے مجھے غلہ منڈی کا تجربہ کم عمری ہی سے تھا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میرے چچا ٹیک چند نے ایک خچر پر بٹھا کر پوری غلہ منڈی کا چکر لگوایا تھا۔تب میں صرف سات سال کا تھا ۔غلہ منڈی کے درمیان میں ایک بہت بڑا صحن تھا جبکہ دکانیں کمیشن ایجنٹوں (آڑھتیوں) کی ملکیت تھیں جو کہ صرف زرعی اجناس کی تجارت کرتے تھے۔ آڑھتی سرمایہ کاروں کا کردار ادا کرتے تھے۔ کسان اور خریدار دونوں کیلئے ایجنٹ ذخیرہ اندوز اور سرمایہ کار ،سب کا کردار ادا کرتے تھے۔ منڈی ہمیشہ ہی مصروف رہتی لیکن کٹائیکے موسم میں یہ قصبے میں سب سے زیادہ رش والی اور مصروف جگہ ہوتی۔
    آس پاس کے دیہات سے کسان یہاں گدھوں،گھوڑوں ،اونٹوں یا بیل گاڑیوں پر غلہ لاد کر لاتے ،سفر کے تھکے ہارے مٹی سے اٹے کسان آڑھتی کی دکان کے باہر الگ ڈھیر پر اپنا غلہ اتارتے جو آکر اس کا معائنہ کرتا۔طریقہ کار یہ تھا کہ آڑھتی یا تو کسان کو کچھ رقم ایڈوانس دے دیتا اورمال بیچنے کے بعد باقی رقم اد کردیتا۔یا پھر سارا مال خود خرید کر موقع پر ہی ادائیگی کردیتا۔
    غلہ منڈی کی ایک اور انفرادیت یہ تھی کہ ہر دکان کے باہر ایک بڑا ساتولنے کیلئے ترا زو تھا جسے ’’ترکڑ‘‘کہتے تھے۔ ترکڑ مضبوط لکڑی کی تپائی پر رکھا ہوتا تھا ۔ تولنے والا(دھڑیا) پیمانے کے ساتھ بیٹھتا تھا۔جب تولنے کیلئے چیز زیادہ بڑی ہوتی تو اسے قسطوں میں تولتے تھے۔دھڑیا مسلسل ایک تال کے ساتھ اب تک تولی جانے والی اقساط بولتا رہتا۔مثلاً ایک ایک،دو دو، اور تین تین(ہک ہک،ڈو ڈو،ترائے ترائے) یہاں تک کہ آخری قسط بھی تول لی جاتی۔یہ اس لئے کیا جاتا تاکہ تسلی رہے کہ آس پاس کی افراتفری اس کی توجہ اپنے کام سے نہ ہٹائے اور گنتی میں غلطی نہ ہو۔یہ گنتی بیک وقت کئی اور دکانوں میں بھی ہو رہی ہوتی جس سے ماحول میں پائے جانے والے شورشرابے میں ایک دھن پیدا ہوجاتی۔
    غلہ منڈی ایک افراتفری ولا مگر نہات ہی مصروف اور کاروباری قسم کا ماحول پیش کرتی تھی۔جس میں دکاندار، کسان اور جانور سب ہی برابر کا کردار ادا کرتے تھے۔
    میانوالی کے گھر
    سٹیشن سے آنے والے ٹانگے کو بھولے دا چوک پہنچ کر ہمارے گھرآنے کیلئے دائیں طرف مڑناپڑتا۔اس علاقے کو پہلے غلام حسن خان دا محلہ اور نکڑاں دی گلی دونوں ناموں سے جانا جاتا تھا۔کیو نکہ یہاں نکڑہ خاندان کے بہت سارے گھر تھے دائیں ہاتھ پر دو گھر چھوڑ کر ایک آٹھ فٹ چوڑی گلی تھی جس کے کونے پر ہمارا دو منزلہ مکان تھا۔آٹھ فٹ چوڑی گلی میں داخل ہو کر ہمارے گھر کا مین دروازہ تھا۔اور مزید آگے مکان کے پچھلے حصے میں واقع گائیوں کے چھپر کیلئے علیحدہ دروازہ تھا۔ہمارے مکان کے بعد پڑوسیوں کے مکانوں کی قطار باہر کو نکلی ہوئی تھی جس سے گلی بہت تنگ ہوجاتی تھی۔اس کو سوڑی گلی کہتے تھے جو صرف تین فٹ چوڑی تھی۔کوئی شخص اس میں اپنے ہاتھ کو باہر نکال کر نہیں گزر سکتا تھا۔
    میانوالی کے زیادہ تر گھروں کی طرح ہمارے گھر کی دیوار بھی تقریباً آٹھ فٹ اونچی تھی جس کا مقصدحفاظت سے زیادہ پرائیویسی تھا۔ اس میں ایک بڑا سا دروازہ تھا اور اس سے داخل ہوتے ہی دو چھوٹی چھوٹی دیواروں میں گھرا ہمارا خاندانی تندور تھا جہاں ہم روٹیاں پکاتے تھے ۔ تندور داخلہ گاہ کے بالکل ساتھ اس لئے تھا کیونکہ ہم اپنے پڑوسیوں کو بھی وہاں روٹی لگانے کی اجازت دیتے تھے جب ہم اپنی روٹی بنالیتے اور یوں وہ ہمیں تنگ کئے بغیر اپنا کام کرسکتے تھے۔
    ڈیوڑھی اونٹ کیلئے مناسب اونچی
    میانوالی کے بہت سے گھروں خاص طور پرپرانے اور بڑے گھروں کی ڈیوڑھی ہوتی تھی ڈیوڑھی کا لکڑی سے بنا بڑا سا دروازہ ہوتا جو ایک صحن کی طرف کھلتاتھا ۔ بڑے دروازے سے داخل ہوکر ایک طرف لکڑی کا پلنگ رکھا ہوتا ۔جس کے بڑے بڑے پائے ہوتے تھے۔اس کو ’’ماچا‘‘ کہتے تھے اور ایک وقت میں دس سے بارہ آدمیوں کے بیٹھنے کیلئے کافی تھا۔بزرگ حضرات اس ماچے یا فرش پر بیٹھے چوپٹ یا شطرنج کھیلتے نظڑ آتے اور ساتھ ہی ساتھ حقہ بھی پیتے رہتے۔وہ عام طور پر مہمانوں کو ڈیوڑھی میں ہی بھگتاتے۔
    تقریباً400مربع گز پر بنا ہواہمارا مکان درمیانے سائز کا تھا یہ یقیناًاس علاقے کے اچھے گھروں میں شمار ہوتا تھا۔خان غلام حسن خان جو ایک نامی گرامی وکیل تھے اور جنکے نام پر یہ محلہ بھی تھا ان کا گھر بڑا تھا۔لیکن پھر بھی اس کا مقابلہ میانوالی کے جاگیرداروں کی بڑی بڑی حویلیوں سے نہیں کیا جاسکتاتھا۔
    میانوالی میں شاید اس طرح کی پچاس حویلیاں تھیں۔ایک ایکڑ یا اس سے بھی زائد رقبے پر قائم ان حویلیوں کی ڈیوڑھیاں بھی بڑی ہوتی تھیں۔ان کے دروازے اتنے اونچے ہوتے تھے کہ ان میں سامان سے لدے اونٹ بھی گزر کر صحن تک آتے تھے۔ ان حویلیوں میں کمروں کے مختلف سیٹ ہوتے تھے۔اور گائے بھینسوں کے لئے الگ جگہ ہوتی۔کچھ حویلیوں میں ایک یا زیادہ گھوڑوں کیلئے اصطبل بھی تھے۔ صحن سے چارے اور غلے کی بوریوں سے بھرے گودام بھی دکھائی دیتے تھے۔زیادہ تر حویلیوں میں ایک کنواں ہوتا جسے کھوئی کہتے تھے جہاں سے عورتیں رسی کے ساتھ بالٹیاں یا جستی گھڑے باندھ کر پانی نکالتی تھیں۔اگر کوئی گھڑا رسی سے چھوٹ جاتا تو اس کو نکلانے کیلئے’’بلی‘‘ استعمال ہوتی تھی۔یہ ایک عام سے
    لو ہے کے چھلے کی طرح کی چیز تھی جس کا قطر چھ سے آٹھ انچ تھا۔اور اس میں چھلے میں لگی چابیوں کی طرح ہکیں لگی ہوتیں۔بلی کو کنوئیں میں ڈالا جاتا اور رسی کی مدد سے کنوئیں میں اس طرح گھمایا جاتا کہ بالٹی یا گھڑا پکڑلیا جاتا اور پھرباہر کھینچ لیا جاتا۔
    ہمارے گھر کے دروازے میں سے داخل ہو کر تندور کے پاس سے ہوتے ہوئے ہمارا صحن آجاتا جس کا فرش اینٹوں کا تھا۔ البتہ بہت سے لوگ اپنے صحن کو گارے کے ساتھ لیپا ئی کرنے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ اس سے فرش گرم نہیں ہوتا اور زیادہ حرا رت خارج نہیں ہوتی تھی۔مکان کے سامنے کے حصے میں ایک لمبابرآمدہ جس میں چار اونچی محرابیں(ڈاٹیں)تھیں جو اینٹوں سے بنے منقش ستونوں پر قائم تھیں۔ان کے پیچھے تینکمروں کی ایک قطار تھی۔بائیں کونے والا کمرہ نکڑاں دی گلی میں کھلتا تھا جسے بیٹھک کہتے تھے یہ ہمارا ڈرائنگ روم تھا۔
    میانوالی میں کمروں کی چھت تقریباً دس فٹ اونچی تھیں۔جبکہ فرش سادہ اور پلستر شدہ ہوتے تھے۔دیواروں کے اندر ایک یا دو انگیٹھیاں بنی ہوتیں جہاں عام استعمال کی چیزیں مثلاًشیشہ،کنگھی،سرپر لگانے والا تیل اور لالٹین رکھی ہوتی اور ساتھ ہی کسی دیوتا کی تصویر یا خاندان کی اس اکلوتی لڑکی جس نے مڈل پاس کیا ہوتا کی فریم شدہ سند بھی رکھی ہوتی تھی۔بجلی کے بلب 1936ء میں میانوالی میں آئے اور انہوں نے ایک ہلچل مچا دی۔اس سے پہلے ہم صرف تیل کے لیمپ یا لالٹینوں سے گزارا کرتے تھے۔

  • میانوالی کے بازار . چھلوشاہ کا چوک … اور جودھا رام (ہریش چند نکڑہ کا وچھڑا وطن )

    ہریش چند نکڑہ کی کتاب وچھڑا وطن ……… میانوالی
    میانوالی کے بازارچھلو شاہ دا چوک اور دھاری شاہ پنساری… ( چوتھی قسط )
    ریلوے اسٹیشن کے عین سامنے میانوالی کی تین اہم سڑکوں میں درمیا ن میں سڑک ایک تھی اسے مین بازار یا صرف بازار کہتے تھے ۔باقی دو میں شمالی جانب کچہری روڈ اور جنوب میں گروبازار شامل تھے۔جب آپ سواری پر یا پیدل بازار میں آگے جاتے تو دائیں طرف ریلوے سٹاف کوارٹر،غلہ منڈی اور سٹیشن چوک سے قریباً آدھا میل آگے شہر کا واحد برف کارخانہ تھا۔
    عام طور پر لوگ پیدل چلتے اور سڑک پر ٹانگے،گھوڑے اور چند گدھوں کے علاوہ کچھ سائیکل سوار بھی نظر آتے تھے۔صبح کے وقت دکاندار اپنی دکانیں کھولتے دیکھے جاسکتے تھے جن کی دکانوں کے چبوترے (تھڑا) سڑک تک بڑھے ہوتے اور سائے کیلئے پٹ سن کا کپڑا (چھجا)تنا ہوتا۔بازار میں زیادہ تر مر د ہی نظر آتے کیونکہ عورتیں اکثر گھروں تک ہی محدود تھیں۔بازارمیں مختلف قسم کی دکانیں تھیں جن میں اکثر چھوٹی اور کم سامان والی تھیں اور چیزیں بہت غیر منظم انداز میں نمائش کے لئے رکھی ہوئی تھیں۔
    میاں زکری کا احترام نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی کرتے تھے ان میں سے کچھ ہر جمعے درگاہ پر مفت کھانے(دیگ)میں بھی حصہ وصول کرتے تھے۔
    میانوالی کے محلے
    بازار کے ساتھ ساتھ دکانوں کے پیچھے دنوں طرف مختلف رہائشی علاقے، محلے تھے۔ زیادہ ترمحلوں کے نام خاندانوں یا ان ذاتوں کی وجہ سے پڑے تھے جو یہاں رہائش پذیر تھیں۔بہت سال پہلے جب لوگ یہاں نقل مکانی کرکے آئے،زمین بلکل مفت تھی اور سب نے اپنی ضرورت اور تعمیر کی استطاعت کیمطابق جگہ پر قبضہ کرلیا۔حفاظت کے پیش نظر وہ لوگ جو بعد میں نقل مکانی کرکے آئے انہوں نے اپنے انہی رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں کے ساتھ گھر بنانے کو ترجیح دی جن کے پاس فالتو جگہ پڑی تھی۔ایک ہی علاقے میں آباد خاندانوں کی وجہ سے اس خاندان یا ذات کا محلہ وجود میں آجاتا۔چنانچہ کا لڑا ں دا محلہ،مہندرثاں دا محلہ ،بازار کی شمالی طرف جبکہ خوشابیوں ، آہوجوں کے محلے بازار کی جنوبی طرف واقع تھے۔
    مسلمان زیادہ تر مغرب میں شہر کے مضافات اورشمال میں میاناں دا کھوہ جسے ’’اینٹھے آلا کھوہ‘‘بھی کہتے تھے کے آس پاس کے علاقوں میں آباد تھے۔اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ میانوالی قصبے کی بنیادمسلمانوں (میانڑاں)نے ڈالی۔ یہ ہندو تھے جنہوں نے یہاں نقل مکانی میں پہل کی اور ان علاقوں پر قبضہ کیا جو قصبے کا مرکز بنے۔ مسلمان بعد میں آئے اور مضافات میں آباد ہوئے۔
    سٹیشن سے اپنے گھر آنے کیلئے پہلے مین بازارمیں بھولے دا چوک آتا جہاں پر بھولا پکوڑاں والا کی دکان تھی جو قصبے میں بلاشبہ سب سے بہترین پکوڑے بناتا تھا۔قریب ہی ’’ہیم راج دی مسیت‘‘ تھی۔ (ہیم راج کی مسجد)جس کا نام ہیم راج کے نام پر تھا۔ہیم راج ایک ہندو حکیم تھا جو مسلمان ہوگیا اور اپنی دکان مسلمانوں کو دے دی۔انہوں نے دکان گرا کر مسجد تعمیر کرلی۔اگرچہ اس کا گھر بالکل ہمارے گھر کیسامنے تھا لیکن مذہب کی تبدیلیکے بعد میں نے دوبارہ کبھی اس کو نہ دیکھا۔اس نے خود کو گھر تک محدود کرلیا اور کبھی باہر نہ نکلا۔ ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد وہ اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا تھا۔البتہ بہت سے کہتے تھے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے بعد اتنا شرمندہ ہوا کہ وہ ہندولوگوں کا سامنا نہ کرسکتاتھا۔چنانچہ خود کو گھر میں محدود کردیا ۔مٹھائی کی دکان(حلوائی)کے بعد سنار(سناراں)کی دکان اور اس سے آگے منیاری یا کتاب فروش یا پھر ڈاکٹر کا کلینک ۔
    صبح کے وقت بلدیہ کے ملازم جوڑیوں میں آتے،ایک صفائی والا اور ایک ما شکی جس نے کمرپر پانی سے بھری مشک لادی ہوتی جس سے وہ صفائی سے پہلے پانی کا چھڑکاؤ کرتا۔دن کے وقت بازار میں گہما گہمی ہوتی اور ہر چیز مٹی مٹی ہوجاتی۔سورج غروب ہونے کے بعد سڑکوں پر ویرانی کا سماں ہوتا۔البتہ حلوائیوں، سگریٹ کی دکانوں اورڈھا بو ں کے باہر لالٹین یا پرائمس کے گیس لیمپ لٹکے ہوئے دیکھے جاسکتے تھے۔بعض اوقات سینما جانے والوں کی ٹولیاں لیٹ نائٹ شو سے واپس آتی نظر آتیں۔
    جیسے جیسے آپ بازار میں آگے چلتے جاتے آپ فلیکسFlex) شُو کمپنی کی ایجنسی اورٹھیکیدار جواہر مال اینڈ سنزکی فرم کے آگے سے گزرتے۔یہاں تک کہ آپ چھلو شاہ دا چوک پہنچ جاتے ۔اس چوک کا نام چھلو شاہ کی وجہ سے پڑا جو اپنے بٹیوں گنگا شاہ،دیال شاہ اور کشوری لال کے ساتھ میانوالی میں کپڑوں کا تھوک کا سب سے بڑا کاروبار کرتا تھا۔ وہ تقسیم کے بعد دہلی چلے آئے اور ان کے خاندان نے چیپ سلک سٹور کے نام سے کرول باغ دہلی میں کاروبار شروع کیا ۔بہت جلد یہاں پر بھی ان کا کاروبار خوب چمکا۔چھلوشاہ دا چوک سے آگے آکر دیگر قابل ذکر چیزوں میں تیرتھ سوڈا فیکٹری اور نہالا حلوائی شامل ہیں۔نہالا حلوائی اپنی دیسی گھی دی ریوڑیاں کیلئے مشہور تھا۔
    مزید آگے چند مشہور اور بڑے تاجروں اور منیاریوں کی دکانیں تھیں جیسے ملکاں دی ہٹی، تھانہ رام منیاری آلاجوقصبے میں سب سے بڑا پرچون فروش تھا۔خواجہ جنرل سٹور جو میانوالی کے چند بڑے مسلمان تاجروں میں سے ایک تھا۔اور دھاری شاہ پنساری جو ایک مشہور دیسی ڈاکٹر(وید)بھی تھا اورساتھ ہی پنساری بھی۔
    بازار تقریباً دو میل لمبا تھا۔جس کے اختتام پر سول ہسپتال تھا جو دریا کے کنارے سے ایک میل پہلے آتاتھا۔جیسے جیسے آپ بازار میں آگے چلتے جاتے ،کاروباری سرگرمی کم سے کم ہوتی چلی جاتی اور گھر اور دکانیں آپس میں گڈ مڈ ہونے لگتیں۔یہاں تک کہ آپ بھولے دا چوک سے آدھا میل آگے سول ہسپتال پہنچ جاتے۔ ہسپتال سے آگے سڑک مرگھٹ،جہاں ہندو مردے جلاتے اور سلطان میاں زکری کی درگاہ تک جاتی جو میاں علی کے دوسرے بیٹے تھے۔
    نکڑاں دی گلی جانے کیلئے بازار سے دائیں طرف مڑکرجو پہلا تاثر حاصل ہوتا وہ رہائشی علاقے کی سنسان فضا کا تھا۔مرد حضرات صبح سویرے ہی گھروں سے کام پر چلے جاتے جبکہ عورتیں عام طور پر گھروں میں ہی رہتیں اور گھر کے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں۔کچھ بچے مختلف کھیل مثلاً ہاکی،پھیتے یا گلی ڈنڈا کھیلتے نظر آتے۔یا پھر جودھا رام کو تنگ کرتے۔ جودھا رام ایک دماغی طور پر معذور ہمارا پڑوسی تھا جو اکثر ننگے پیر،مٹی سے بھرے کپڑوں میں اوربکھرے ہوئے لمبے بالوں کے ساتھ پھر رہا ہوتا وہ گلی میں یوں آگے پیچھے چکر لگارہا ہوتا جیسے گلی کی حفاظت کررہا ہو۔
    شامیں اور راتیں میانوالی قصبے کو مکمل خاموشی اور سکوت میں لے جاتیں جس کی گلیاں ویران اور مدھم روشنی میں ڈوبی ہوتیں۔صرف بڑی سڑکوں پر سٹریٹ لائٹ کا بندوبست تھا جو کہ پرانے وقتوں میں مٹی کے تیل والے لیمپ تھے جو لکڑی کے کھمبوں پرلٹکا ئے جاتے۔
    بلدیہ کے لوگ ہر شام شہر میں سیڑھیاں لے کر نکلتے اور لیمپوں کی صفائی کرکے انہیں جلاتے۔جب شام کو چاند نہیں نکلتا تھا لوگ خصوصاً بزرگ حضرات کہیں بھی جانے سے پہلے اپنے ساتھ لالٹین ضرر لے کر نکلتے روشن دانوں،دروازوں اور کھڑکیوں کی درزوں سے نکلنے والی مدھم روشنی یا گرمیوں میں چبوتروں سے آنے والی روشنی کے علاوہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا۔ایسا لگتا تھا جیسے قصبے کو جلد سونے کی عادت تھی۔

Back to top button