ادبی دنیا
ملا جلا انتخاب
-
جشن میلادمصطفیﷺکی شرعی حیثیت قرآن وحدیث کی روشنی میں
خداکی رضاچاہتے ہیں دوعالم خداچاہتاہے رضائے محمدﷺ جشن میلادمصطفیﷺکی شرعی حیثیت قرآن…
-
آمدِ رمضان! مرحبا مرحبا
رمضان المبارک سے متعلق ارشادِ نبوی ؐہے ’’تم پر ایک عظیم مہینہ…
-
ایک اہم سبق دیتی سیرت رسول و امن اسلام کانفرنس کراچی
ایک اہم سبق دیتی سیرت رسول و امن اسلام کانفرنس کراچی عروہ…
-
شبِ برات! فضائل، برکات اور خصوصی عبادات
از قلم: ڈاکٹر ایم اے قیصرؔ شعبان اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ…
-
حضرت سیدعلی بن عثمان ہجویری المعروف داتاگنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
حافظ کریم اللہ چشتی گنج بخشِ فیض عالم مظہرِنورِخدا ناقِصاں راپیرِکامِل کاملاں…
-
سیاسی ڈگڈگی، اور بین بندر کون؟ سانپ کون؟
مہک فاطمہ ملک کی موجودہ صورت احوال ماضی کے بہت سے مناظر…
-
عروہ نیازی کی دلوں کو چھُو لینے والی تحریر ” اولادِ مدینہ "”
آئینہ عروہ نیازی اولادِ مدینہ "یا اللہ جتنے بھی بے اولاد ہیں…
-
مولہ چٹوک: بلوچستان کی ایک جنت نشاں وادی. (نسرین غوری )
مولہ چٹوک بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک جنت نشاں وادی مولہ…
-
آقاﷺکامحبوب ترین مہینہ شعبان المعظم
آقاﷺکامحبوب ترین مہینہ شعبان المعظم فضیلت وعبادت ماہ شعبان المعظم شعبان المعظم…
-
میانوالی کی 20 سالہ دوشیزہ پر سانپ عاشق ۔ 5 سالوں میں 42 مرتبہ ڈسی گئی مارچ میں 9 مرتبہ سانپوں نے کاٹا ۔
میانوالی کی 20 سالہ دوشیزہ پر سانپ عاشق ۔ 5 سالوں میں…
-
"زندگی اے زندگی ” جویریہ خان کی تحریر
’’زندگی اے زندگی!‘‘ تحریر: جویریہ خان گھر بھر میں خوشیوں کا سماں…
-
میانوالی میں پاک چائنہ راہداری منصوبے پر کام تیز… مزید 48638کنال اراضی حاصل کر لی گئی
میانوالی ( انوار حقی سے ) ضلع میانوالی کے علاقے میں پاک…
-
میں تجھے چھوڑ کے دنیا سے کنارہ کر لوں
میں تجھے چھوڑ کے دنیا سے کنارہ کر لوں تو مجھے چھوڑ…
-
عورت دشمنوں کی پلکوں پر شب و روز کو ہلکا کر دے.
عورت دشمنوں کی پلکوں پر شب و روز کو ہلکا کر دے…
-
ربیعہ کنول کی خوبصورت تحریر ” سرکار "
شاہ ہوں یا شاہوں کے شاہ… سرکار۔۔۔ تو ہر جگہ ہی ان…
-
عظیم ایدھی …… تُم آنکھیں رکھ لیتے …( ڈاکٹر فاخرہ نورین )
ایدھی آنکھیں رکھ لیتے تم کوئی ان سے کیا دیکھے گا جو…
-
جناب خالد اشفاق کا خوبصورت اختصاریہ ’’ سو لفظوں کا نگر ‘‘
جناب خالد اشفاق کا خوبصورت اختصاریہ ’’ سو لفظوں کا نگر ‘‘…
-
نیلم ملک کی غزل
غزل …………. نیلم ملک اﻧﺪﺍﺯِ ﺗﮑﻠﻢ ہے جُدا اس لئے سب سے…
-
عالیہ جمشید خاکوانی کی نظم ” بے سمت منزلوں کا مسافر”
بے سمت منزلوں کا مسافر (عالیہ جمشید خاکوانی) اب تو یاد کرنے…
-
محترمہ حفصہ نور کے جواب میں …………… تحریر سیدہ رابعہ فاطمہ بخاری
محترمہ حفصہ نور کے جواب میں …………… تحریر سیدہ رابعہ فاطمہ بخاری…
-
ممتاز شاعرہ شاہدہ مجید کا کلامِ خاص "قارئینَ نیلاب ” کی نذر
غزل (شاہدہ مجید ( آج موقع ہے جو کہنا ہے مری جاں…
شخصیات
-
شخصیات
ﻋﻄﺎﺍﻟﻠﮧ ﺧﺎﻥ ﻋﯿﺴﯽٰ ﺧﯿﻠﻮﯼ -:
ﻋﻄﺎﺍﻟﻠﮧ ﺧﺎﻥ ﻋﯿﺴﯽٰ ﺧﯿﻠﻮﯼ -: ۔ ﺁﭖ 19 ﺍﮔﺴﺖ 1951 ﺀ ﮐﻮﺻﻮﺑﮧٴ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﮯ ﺿﻠﻊ ﻣﯿﺎﻧﻮﺍﻟﯽ ﮐﮯ ﻗﺼﺒﮯ ﻋﯿﺴﯽٰ ﺧﯿﻞ…
Read More » -
شخصیات
آہ معراج محمد خان …. ” کیا دولتَ نایاب لُٹی ہے موت کے ہاتھوں "؟
معراج محمد خان: غریب کا ساتھی رخصت ہوا .. تحریر :.عثمان غازی جمہوریت کو مذاق سمجھنے والے کیا جانیں کہ…
Read More » -
شخصیات
ِ.. مولانا شیرانی: مجموعہ کمالات وتنازعات
مولانا شیرانی: مجموعہ کمالات وتنازعات. تحریر … بخت محمد برشوری بچپن میں روز شام کو قریب کے سرکاری ڈیری فارم…
Read More » -
شخصیات
دیکھیئےوزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر نے کالاباغ کے بارے میں کیا کہا ؟
میانوالی ( انوار حقی سے ) وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر کے خاندان کا بنیادی تعلق تحریک انصاف کے…
Read More » -
شخصیات
سید نصیر شاہ …’’ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سے کہیں جیسے ‘‘
’’ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سے کہیں جیسے ‘‘ تحریر : خالد سعید ایڈو کیٹ لبنان کے عظیم…
Read More » -
شخصیات
موسیٰ کلیم مرحوم اور خوشبو کی ہجرت
حدِ ادب انوارحسین حقی موسیٰ کلیم مرحوم اور خوشبو کی ہجرت ____________________________ موت سے کسی کے لیئے فرار ممکن نہیں…
Read More »
تاریخ
-
میانوالی کی لو ، اندھاری اور گُڑ دا حلوہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہریش چند نکڑہ کا وچھڑا وطن ( چھٹی قسط )
میانوالی کی لو ، اندھاری اور گُڑ دا حلوہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہریش چند نکڑہ کا وچھڑا وطن ( چھٹی قسط )
’’لُو اور ’’اندھاری‘‘
میانوالی کا موسم سرما(سیالا)شدید سرد اور خشک تھا۔درجہ حرارت دو یا تین سینٹی گریڈ تک گر جاتا تھا۔بعض اوقات صبح کے وقت پانی کے اوپر برف کی تہہ نظر آتی اور کھلے میدانوں میں دھند بھی چھائی ہوتی۔موسم گرما بہت گرم اور لمبا تھا جو مارچ میں شروع ہوکراکتوبر میں ختم ہوتا۔ درجہ حرارت اڑتالین(48) سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا اور کئی مہینے چالیس سے زیادہ ہی رہتا۔موسم کی شدت میں اس وقت اضافہ ہوجا تاجب گرم ہوایں(لُو) چلا کرتیں اور ان کے علاوہ بہت شدید گردیلے طوفان(اندھاری یا جکھڑ) بھی آتے ۔جن میں کبھی کبھی بگولے(واجھولنا) بھی شامل ہوجاتے۔یہ بگولے اتنے طاقت ور ہوتے کہ کپڑے،بستروں کی چادریں،گدے اور کبھی کبھی چارپائیاں بھی کئی کئی گز دور جا گرتے مجھے آج بھی وہ مشہور کہاوت یاد ہے جو میانوالی کی تین مشہور چیزوں کو ظاہر کرتی ہے۔
’’میانوالی دی اندھاری،کھاندی کراڑی تے دھاری شاہ پساری۔‘‘اندھاری تو وہ جس کا میں اورٍ کر کرچکا ہوں۔دھاری شاہ ایک مشہور ایورویدک ڈاکٹر(وید یا حکیم)تھا جو پورے ضلع میں اپنی یونانی اور ایورویدک دوائیوں کیلئے مشہور تھا۔اور سب سے آخری ایک ہندو عورت تھی جس کا نام کھاندی کراڑی تھا۔یہ ایک جھگڑالو عورت تھی جو ہر وقت غصے اور لڑاکا مزاج کیلئے مشہورتھی۔کسی بھی طبقے یا رتبے کے کسی شخص میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اس کے پا س سے گزرتا یا اس سے بحث کرتا۔
گرمی کا توڑ
گرمی دانوں کیلئے چکنی مٹی
میانوالی ایک صحرائی علاقہ تھا۔جس کی وجہ سے صبح کا وقت نسبتاً خوشگوار ہوتا۔لیکن دوپہر کو ناقابل برداشت حد تک گرمی ہوجاتی۔زیادہ تر لوگ ہاتھ والے پنکھے کے ذریعے ہوا حاصل کرکے تسکین حاصل کرتے۔ان دستی پنکھوں کو کھجور کے پتوں سے بنایا جاتا تھا اور یہ مختلف سائز اور ڈیزائن میں ملتے تھے۔بعض گھروں میں چھت والے پنکھے بھی تھے۔چارچھ فٹ لمبا لکڑی کا ایک تختہ افقی طور پر چھت کے ساتھ رسیوں سے باندھ دیاجاتا جس کے نیچے دو یا تین فٹ چوڑی پٹ سن کے کپڑے کی جھالر لگی ہوتی۔جب اس تختے کوجھولے کی طرح ہلایا جاتاتوجھالر کی وجہ سے پورے کمرے میں ہوا چل پڑتی۔غریب لو گ ان پنکھوں کو خود ہی ہلاتے جبکہ صاحب حیثیت لوگوں نے اس کام کیلئے ملازم رکھے ہوتے تھے۔
گرمی اتنی شدید ہوتی کہ اکثر لوگوں کو پورے جسم پر گرمی دانے(پِت) نکل آتے۔بہت سے لوگ متاثرہ حصوں پر ایک خاص قسم کی مٹی جسے ’’چکنی مٹی‘‘ یا ملتانی مٹی کہتے تھے۔کالیپ لگاتے تاکہ جلن ختم ہوسکے۔ کئی لوگوں کوہیٹ سٹروک ہوجاتا۔لوگ دھوپ میں نکلتے ہوئے اپنے سر اور چہرے گیلے کپڑ ے سے ڈھانپ لیتے تاکہ گرمی اور پسینے سے محفوظ رہیں۔
ہیٹ سٹروک سے بچنے کے کئی نسخے تھے مثلاً کچے پیاز کھانا اور کچی لسی پینا۔باداموں، خشخاش،الائچی اور چینی کو پیس کر ان کاملیدہ تیار کرکے برف والے پانی میں حل کرکے لیا جاتا۔اس خاص مشروب کو سردائی کہتے تھے۔جو کہ امیر لوگوں کا پسندیدہ تھا۔ یہ بہت ہی تازگی بخش ٹھنڈک افزاء اور قوت پہنچانے والا مشروب تھا۔
سردی کا مقابلہ گڑ دا حلوہ
سردیوں کے آتے ہی گرم کپڑے جیسے جرسیاں مفلر اور اونی ٹوپیاں ہمارے گھروں کے صندوقوں سے نکال لئے جاتے۔ایک طرف تو گرمیوں میں ہمیں بستر پر سوتے وقت ایک پتلی سی چادر بھی اوڑھنے کی ضرورت نہ پڑتی اور دوسری طرف سردیوں میں موٹی رضائیوں کا استعمال ضروری ہوجاتا۔یہاں تک کہ دن میں بھی کئی لوگ کمبل،کھیس حتیٰ کہ رضائیاں تک بھی لپیٹ کر گھومتے نظر آتے
شدید سردی کے مہینے،دسمبر اور جنوری جن میں درجہ حرارت انتہائی کم ہوجاتا۔اس میں اکثر لوگ بخار،کھانسی،زکام اور ناک بہنے جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتے۔ان بیماریوں کا ایک مفید پہلو یہ تھا کہ ان کے علاج کیلئے جو نسخے استعمال ہوتے تھے ان میں بڑے مزے کی کھانے کی چیزیں شامل تھیں۔مثلاً بیسن دی روٹی،اور گڑ دا حلوہ۔پانی اور گڑیا چینی کے ساتھ بیسن کاآٹا گوندھ لیا جاتا۔اس آٹے کو چھوٹی کڑاہی میں تلا جاتا جس میں وافر مقدار میں دیسی گھی یا مکھن ڈالا جاتا۔’’گڑ دا حلوہ‘‘گڑ کی بنی توانائی بخش،گھی میں تر ،ایک اور مزیدار ڈش تھی۔
اللّٰہ اللّٰہ مینہ وسا
میانوالی میں بارش بہت کم ہوتی۔کسانوں کے علاوہ بھی تمام لوگ نہایت بے چینی سے اس کا انتظار کرتے اور اسے خدا کی مہربانی تصورکیا جاتاگرمیوں میں لوگ یوں دُعاکرتے۔
’’اللہ مینہ وسا۔ساڈی جھولی وچ دانڑے پا‘‘
’’اے اللہ ہمیں بارش دے جس سے ہمیں اناج حاصل ہو۔‘‘
مجھے آج بھی وہ میٹھی خوشبویاد ہے جو تپتے ہوئے فرش پر بارش کیپہلے قطرے پڑنے کے بعد پیداہوتی تھی۔
میانوالی میں صرف دو موسم تھے۔ سردی اور گرمی ۔گرمی کی تپش کبھی کبھی بارش سے کم پڑ جاتی۔جہاں تک بہار ،اس کے سبزے اور مہکتے پھولوں کا تعلق ہے تو ہو ہم صرف کتابوں میں پڑھتے تھے۔میانوالی میں موسم بہار نہیں آتا تھا۔ اور نہ ہی ہمیں خزاں یا سوکھے،زرد گرتے ہوئے پتوں کی پت جھڑ کا علم تھا۔ -
کیا حضرت عمرؓ بن خطاب نے ساسانی لٹریچر اور سکندریہ لائبریری کو جلانے کا حکم دیا تھا ؟
کیا حضرت عمرؓ بن خطاب نے ساسانی لٹریچر اور سکندریہ لائبریری کو جلانے کا حکم دیا تھا ؟………….. ڈاکٹر لُنبیٰ مرزا کی فکر انگیز تحریر
کافی عرصے سے مجھے سکندریہ لائبریری کو جلانے کی حکایت کو غلط ثابت کرنے کی خواہش تھی۔ آج اس دیومالائی کہانی کو جھوٹا ثابت کرنے کی شدید ضرورت اس لیے ہے کہ طالبان اور داعش اس کی مثالیں دے کر انسانی تہذیبی ورثے کو تباہ برباد کرنے میں مشغول ہیں۔ ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس بات سے آج کی دنیا کا کیا تعلق ہے کہ آج سے سینکڑوں سال پہلے کے لوگوں نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا؟ تو جس طرح ماضی میں صلاح الدین نے فاطمی دستاویزات کو تباہ برباد کرنے کو اس کہانی سے درست ثابت کیا بالکل اسی طرح آج طالبان اور داعش بھی ان کہانیوں کی بنیاد پر انسانی تاریخی خزانے برباد کرنے پر تلے ہیں۔ انہی پرانی کہانیوں کے حوالے استعمال کرکے نئی تباہیوں کی تیاریاں کی جاتی ہیں۔ بامیان کے بدھا کے مجسمے کی مثال لے لیں۔ مصری جہادی ایمان والے مسلمانوں کو اہرام مصر اور ابوالہول کو تباہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ کل وہ بامیان تھا ، آج اہرام مصر ہوسکتے ہیں۔ عربی میڈیا نے حال ہی میں سعودی شیخ علی بن صید الرابی کے الفاظ نشر کیے جن میں مصر کے عظیم اہرام کو منہدم کرنے کا ذکر ہے۔ اب الغوری نے بھی اس ترانے میں حصہ لے لیا ہے جو وہ اسلامی لیڈر ہیں جن کو گزشتہ صدر حسنی مبارک کے دور میں پرتشدد خیالات کو فروغ دینے پر دو دفعہ سزا سنائی گئی تھی۔ انہوں نے مسلمانو ں کو پکارا کہ ان بتوں کو ہٹائیں۔ کٹر ملاؤں کا بگل بجتا ہے کہ ’بت پرستی کی علامات کو تباہ کرنے کا جو کام صحابی حضرت عمروؓ بن العاص نہیں کرسکے وہ مرسی کو پورا کرنا چاہیے‘۔ اس تباہی کے راستے کو روکنے کے لیے مجھے موقع دیں کہ آپ کو یہ ثابت کر دکھاؤں کہ یہ کہانیاں محض ایک بڑا جھوٹ اور فریب ہیں۔
کیا حضرت عمرؓ بن خطاب نے ساسانی لٹریچر اور سکندریہ لائبریری کو جلانے کا حکم دیا تھا؟ کیا حضرت عمرؓ کے منہ سے ’حسبنا کتاب اللہ‘ کے الفاظ دو جرنیلوں، مصر میں حضرت عمروؓ بن العاص اور ساسان میں ابن ابی وقاص کے لیے 642 کے معرکہ نہاوند کے بعد سکندریہ اور ساسانی لٹریچر کی تباہی کے لیے نکلے تھے؟ محض یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ پرانے تاریخ دانوں نے یہ کہا کیونکہ انہوں نے بھی ان لوگوں کی سنی سنائی باتیں آگے بیان کیں جنہوں نے 500 سال بعد یہ واقعات ریکارڈ کیے تھے۔ مغربی مفکرین کہتے ہیں کہ خدا بھی تاریخ نہیں بدل سکتا لیکن تاریخ دان بدل سکتے ہیں۔ اس متھ کے اتنی مضبوطی سے تاریخ میں جڑے ہونے کی بدقسمت وجہ یہ ہے کہ یہ کہانی مسلمانوں نے خود پھیلائی نہ کہ ان کے دشمنوں نے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کئی نمایاں مسلمان تاریخ دانوں نے یہ کہا کہ لائبریری عرب مسلمان حملہ آوروں نے تباہ کی۔ ان تاریخ دانوں میں ابن قفطی (1172-1248) ، ال مقریضی (1364-1442) اور ابن خلدون (1332-1406) شامل ہیں۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ وہ انہوں نے اس لیے کیا تاکہ صلاح الدین کو فاطمی اسماعیلیوں کے مقابل بہتر دکھایا جاسکے۔ میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں خود بھی اس متھ پر یقین رکھتا تھا لیکن میری تحقیق سے یہ بات غلط ثابت ہوگئی۔ اگر ابن خلدون نے اس کا تذکرہ 700 سال کے بعد کیا تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کس اتھارٹی کی بنیاد پر ابن قفطی کی لکھائی سے یہ نتائج اخذ کیے۔ حضرت عمرؓ ، حضرت عمروؓ بن العاص اور ابن ابی وقاص کو ان الزامات سے مکمل طور پر بری کردیا جانا چاہیے کیونکہ ابن قفطی کی تحریر اس واقعے کے 500 سال بعد کی ہے۔
1359دور حاظر میں کارل سیگن نے اس متھ پر کچھ توجہ دلائی لیکن برنارڈ لوئس اس کو ریجکٹ کرتے ہیں۔ گریگوری بار ہیبراس (1226-1286) نے جن کا اکثر مغربی مؤرخین حوالہ دیتے ہیں، محض ابن قفطی کی کہانی کو دہرایا تھا اور ایک بغدادی ڈاکٹر عبد الطیف کا حوالہ دیا جو 1203 میں مصر میں تھے اور انہوں نے اپنے ایک مختصر سفر کا ذکر کیا تھا جس میں وہ ایک لائبریری سے گذرے جسے حضرت عمروؓ بن العاص نے کی اجازت سے جلا دیا گیا تھا۔ 1249 میں الزوزانی کی لکھی ہوئی تاریخ الحکماء میں 414 سوانحات حیات موجود ہیں جن میں حکیموں ، فلسفیوں اور افلاکیات کے ماہروں کا تذکرہ شامل ہے۔ ’نباح الرعاة علیٰ نباح النحات‘میں قریب ہزار مسلمان دانشوروں کی زندگیوں کا حال موجود ہے۔ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت عمروؓ بن العاص اور ابن ابی وقاص نے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ ابن خطاب کے کہنے پر لائبریریوں کو جلایا۔ کہانی یہ بھی بتاتی ہے کہ حضرت عمروؓ نے شہر کی کئی بھٹیاں سکندریہ لائبریری کی کتابوں سے بھردیں۔ حضرت عمرؓ نے 634 سے 644 تک حکومت کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ 639 سال کے دسمبر کے مہینے میں حضرت عمروؓ بن العاص 4000 فوجیوں کے ساتھ مصر پر حملہ کرنے کے لیے نکلے۔ زیادہ تر سپاہی عرب قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور الکندی ذکر کرتے ہیں کہ ایک تہائی سپاہی عرب قبیلے غافق سے تھے لیکن ان کے ساتھ کچھ بازنطینی اور فارسی فوجی بھی تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے۔ بہرحال مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمرؓ نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اور سوچا کہ محض 4000 فوجیوں کے ساتھ مصر کو شکست دینے کی توقع رکھنا شائد بے وقوفی ہو۔ انہوں نے حضرت عمروؓ بن العاص کو خط لکھا کہ وہ واپس آجائیں اور یہ بھی لکھا کہ اگر آپ لوگ یہ خط موصول ہونے تک مصر میں داخل ہوچکے ہیں تو پھر بڑھتے جائیں، خدا آپ کا مددگار ہو اور میں مزید جتنی ضرورت ہو اتنے سپاہی اور بھیج دوں گا۔
کافی مصر ی نوادرات کفر کی نشانیاں قرار دے کر توڑ دی گئیں۔ سکندریہ کی عظیم لائبریری کو کفرانہ معلومات قرار دے کر جو کہ قرآن سے مختلف تھیں حضرت عمرؓ کے احکام کے مطابق ابن العاص کی زیر نگرانی تباہ کردیا گیا۔ اس کہانی کو القفطی نے 500 سال کے بعد ’دانشمند انسانوں کی تاریخ ’ میں دہرایا۔ القفطی یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایک عیسائی پیروکار جان فلوپان (490-566) نے حضرت عمروؓ بن العاص سے دوستی بڑھا لی اور لائبریری کو استعمال کرنے کی اجازت طلب کی۔ عجیب بات ہے کہ القفطی سے پہلے سنہ 120 عیسوی میں وفات پانے والے یونانی مورخ پلوٹارک تھے جنہوں نے پہلی صدی عیسوی کے اواخر یا دوسری صدی عیسوی کے اوائل میں سکندریہ میں سنہ 48 قبل از مسیح میں ایک لائبریری کے جلائے جانے کا تذکرہ کیا تھا جس کے بعد 600 سال تک تاریخ خاموش رہی۔ پلوٹارک ایک قدیم ریکارڈ ہے جس میں سکندریہ لائبریری کے سانحے کا ذکر ہے۔
اپنی کتاب ’دانش مند انسانوں کی تاریخ‘ میں مسلمان مورخ القفطی کہتے ہیں کہ ان کتابوں کو چھ مہینے تک جلایا گیا اور صرف ارسطو ، حساب کے ماہر اور جغرافیے کے ماہر بطلیموس کی کتابیں چھوڑ دی گئیں۔ عربوں کی فتح کے دور میں ایک مشہوں آدمی تھا جس کا نام یحییٰ (جان) تھا جو کہ گرامر کا بڑا ماہر تصور کیا جاتا تھا۔ وہ سکندریہ میں راہب تھا اور یعقوبی عیسائیت اور سوری فرقے کا حامی تھا۔ اس نے تثلیث کے نظریے کی مخالفت کی۔ بشپ اس سے ملے اور اس کو اپنے عقیدے پر واپس آنے کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کردیا۔ ایسا کرنے پر اس کی تنزلی کر دی گئی۔ یحییٰ حضرت عمروؓ سے ملا جو کہ سائنس کو بڑھاوا دینے کے لیے مشہور تھے۔ حضرت عمروؓ نے ان کو عزت بخشی اور ان کی فلسفیانہ تقریر سنی اور اس سے اتنے خوش ہوئے کہ اس کو اپنا قریبی دوست بنا لیا۔ ایک دن یحییٰ نے حضرت عمروؓ سے کہا کہ آپ نے سکندریہ میں سب کچھ اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔ جس چیز کی بھی آپ کو ضرورت ہے وہ بلاشک آپ رکھیں اور جو آپ کو نہیں چاہیے وہ مجھے دے دیں۔ یہ سن کر حضرت عمروؓ نے پوچھا کہ تمھیں کیا چاہیے؟ جان نے کہا کہ شاہی الماری میں موجود فلسفے کی کتابیں ! حضرت عمروؓ نے کہا کہ میں خود سے امیر المونین حضرت عمرؓ بن خطاب کی اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ہوں۔ حضرت عمروؓ بن العاص نے حضرت عمرؓ بن خطاب کو خط لکھ کر ان کی نصیحت طلب کی۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ جن کتابوں کا آپ نے ذکر کیا ہےان کے بارے میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو کتابیں قرآن سے متفق ہیں ان کو جلا دیا جائے کیونکہ قرآن کافی ہے اور جو کتابیں اس کے مخالف ہیں ان کو ضرور ختم کردینا چاہیے۔ حضرت عمروؓ نے یہ کتابیں عوامی حماموں میں بانٹ دیں تاکہ ان کو ان کی بھٹیوں میں جلایا جاسکے۔ یہ کتابیں چھ مہینے میں ختم ہوئیں۔ اس کہانی کے ساتھ ایک مسئلہ مورخ لوئس نے یہ بیان کیا کہ جان فلوپان حضرت عمروؓ کے مصر کو فتح کرنے سے کافی عرصہ پہلے مر چکے تھے۔ اور اتنے سارے حماموں کی بھٹیوں کو اتنا عرصہ چلانے کے لیے تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ کتابوں کی ضرورت پڑنی تھی۔
بدقسمتی سے یہ مسئلہ اور بھی اس لیے بڑھ گیا کہ کئی نمایاں مسلمان مورخین نے یہ لکھا کہ وہ عرب مسلمان حملہ آوروں نے لائبریری تباہ کی۔ ان مورخین میں القفطی، المقریضی، ابن خلدون، ابن ندیم اور دیگر شامل ہیں۔ مسئلہ یہ ہی دکھائی دیتا ہے کہ ان سبھی نے القطفی کی لکھائی پر انحصار کیا۔ اپنی کتاب پرولیگومینا میں 14 صدی کے مورخ ابن خلدون بالکل ملتی جلتی کہانی فارس میں ایک لائبریری کی سناتے ہیں جو کہ حضرت عمرؓ کے حکم پر کی گئی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک گھڑی ہوئی داستان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ابن خلدون سکندریہ لائبریری کے عربوں کے ہاتھوں تباہ ہونے کے احوال کو اس زمانے کے کتابوں کے ساتھ عرب روئیے سے جوڑتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ فارسی کتابیں عرب مسلمانوں اور ساسانی فوج کے درمیان 642 کے معرکہ نہاوند کے بعد سعد ابن وقاص کے ہاتھوں پانی میں پھینکی گئیں اور آگ میں جلائی گئیں۔ اس جنگ کو مسلمانوں میں فتوحات کی ماں کے طور پر جانا جاتا ہے جس میں حضرت عمرؓ ابن خطاب نے ابن ابی وقاص کو ایک خط میں لکھا کہ ’اگر ان کتابوں میں ہدایت موجود ہے تو اللہ نے ہمیں بہتر ہدایت دی ہے اور اگر ان میں گمراہی موجود ہے تو اس سے اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔‘
یہ کافی ناقابل یقین بات لگتی ہے کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے ساسانی تباہی اور سکندریہ کے لیے دو مختلف جرنیلوں کو ایک ہی دہائی میں ایک ہی جیسے احکامات دئیے جیسا کہ ابن خلدون نے اس واقعے کے 700 سال بعد بیان کیا۔ دوسری جنگ 636 میں سعد ابن ابی وقاص کے زیر نگرانی شروع ہوئی جس میں جنگ قادسیہ کی 1ul-Reutersکامیابی سے ایران میں ساسانی حکومت کا مستقل خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد زاگرس کے پہاڑ راشدین کی خلافت اور ساسانی شہنشاہیت کے درمیان ایک قدرتی رکاوٹ بن گئے۔ مستقل فارسی مداخلت کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے 642 میں ساسانی شہنشاہیت پر مکمل حملے کا حکم دیا جو کہ فتح کی صورت میں 651 میں ختم ہوئی۔ اس کے مخالف بحث یہ ہے کہ حضرت عمروؓ نے مصر کو 642 عیسوی میں فتح کیا اور اس حقیقت کو بازنطینی، کاپٹک اور عرب لکھاریوں نے ریکارڈ کیا لیکن ان میں سے کسی نے بھی سکندریہ لائبریری کی تباہی کا ذکر نہیں کیا۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ مسئلہ چھیڑا ہی نہیں کہ کتابیں فضول یا کافرانہ ہیں اگر ان کا قرآن سے اختلاف ہے ۔ اس کے بعد پانچ سو سال تک اس واقعے کا کچھ ذکر نہیں ہے۔ صرف تیرھویں صدی میں یہ کہانی سطح پر ابھری جو کہ ساتوں صلیبی جنگ میں پھیلائی گئی تھی تاکہ اس سے مختلف ایجنڈوں کو ہوا دی جا سکے۔ پلوٹارک کے دعوے کے مطابق جولیس سیزر کے دورے کے درمیان سکندریہ میں ایک لائبریری کو جلایا گیا تھا۔ یہ واحد ایک ریکارڈ ہے قدیم لٹریچر میں جس سے پتا چلتا ہے کہ سکندریہ لائبریری کو کیا ہوا۔ لائبریری ایک ماضی کا حصہ تھی جب پلوٹارک اس کے ڈیڑھ سو سال بعد لکھ رہا تھا جس نے اس کی دوبارہ تعمیر کے بارے میں 120 بعد مسیح سے پہلے کچھ نہیں کہا۔ سکندریہ کی عظیم لائبریری کے اندر مالدار بطلیموسی مصر کے فرعونوں نے قدیم زمانے کی ہر اہم لکھائی محفوظ کرلی تھی۔ ایک ایسے زمانے میں جہاں ہر ایک کتاب کو ہاتھ سے نقل کرنا پڑتا تھا، حرف بہ حرف، لفظ بہ لفظ نقل، لکھائی کے ایسے نظام سے جس میں دہائیاں صرف ہوجاتی تھیں۔
سکندریہ لائبریری میں دسیوں ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ ایسی کتابیں جو زمین میں اور کہیں نہیں تھیں ، نہ ہی روم میں، نہ یونان میں ، نہ ہی فارس، چین یا انڈیا میں اس کے مقابل کی مرکزی تعلیم کی لائبریری موجو د تھی۔ لیکن جولیس سیزر کی تعلیم پر اتنی توجہ نہیں تھی جتنی کہ فتح پر۔ اپنی محبوبہ قلوپیٹرا کے ساتھ ایک جذباتی بحث کے بعد اس نے اپنے سب سے زیادہ بھروسے والے کارکنوں کو حکم دیا کہ پہلی اپریل 48 قبل مسیح میں صبح ہونے سے پہلے لائبریری کو آگ لگا دیں ۔ جب قلوپیٹرا صبح اٹھی اور اس نے اپنے علم کے خزانے کو آگ میں جلتا ہوا دیکھا تو وہ کھڑکی کے پاس اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑی اور اتنی زور زور سے روئی کہ اس سے سویا ہوا سیزر جاگ گیا۔ (مدیر: زیادہ مشہور روایت یہ ہے کہ خانہ جنگی کے دوران سیزر کو اپنے جہاز خود جلانے پر مجبور ہونا پڑا، اور یہ آگ پھیل کر سکندریہ کی لائبریری کو جلانے کا باعث بنی) ایک دہائی کے بعد سیزر کے لیفٹننٹ اور بعد میں آنے والے حکمران مارک اینتھونی نے پرگامون لائبریری کو لوٹا تاکہ اس کی کتابیں قلوپیٹرا کے نقصان کو پورا کرسکیں۔ ’اپریل فول‘ اس نے فاخرانہ انداز میں قلوپیٹرا سے کہا جب اس نے کتابوں سے بھرے جہاز اس کو پیش کیے۔ لیکن پرگامون کی کتابیں سکندریہ لائبریری کی کتابوں کے نصف سے بھی کم تھیں جن کے برباد ہوجانے سے مغربی دنیا اگلے 1500 سال تک سائنسی ، دانشورانہ اور تہذیبی لحاظ سے مشرق کے سائے میں رہنے پر مجبور ہوگئی۔
کوفنر لکھتے ہیں کہ پلوٹارک ہی ہمارا تاریخ کے ساتھ بہترین رابطہ ہیں۔ وہ ایک عالم تھے جو سکندریہ میں رہتے تھے۔ انہیں سکندریہ کی لائبریری کے بارے میں ضرور معلوم ہوتا اگر وہ ان کے زمانے میں موجود رہی ہوتی۔ آریلین کے زیر نگرانی جس کتب خانے کو جلادیا گیا، اس کی پھر سے تعمیر ہوئی لیکن پھر اس کو ہمیشہ کے لیے تھیافلس نے تباہ کردیا وہ ایک مختلف ادارہ تھی۔ وہ میوزیم جہاں ہیپاٹیا ایک لیکچرر تھیں شہر کی یونیورسٹی تھی جو کہ کتب خانے سے جدا ایک ادارہ تھی۔ یہ لائبریری ساتویں صدی میں ممکن ہے کہ کھلی ہوئی تھی ہی نہیں۔ یہ صرف ایک پرانی گھڑی ہوئی کہانی ہے کہ اس کو مسلمانوں نے تباہ کیا جو کہ سنجیدہ تاریخ نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ مسلمانوں نے سکندریہ لائبریری کے مجموعات کو نظر آتش کیا اور ان کو چھ مہینے تک حمام گرم کرنے میں استعمال کیا نہ صرف ایک دھوکا ہے بلکہ عجیب بھی ہے۔
حضرت عمرؓ ابن خطاب نے تباہی بربادی سے گریز کیا تھا۔ وہ تو کہتے تھے کہ تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ بیٹھو اور ان کو خود سے قریب رکھو اور یہ کہ اللہ دلوں کو دانش سے زندگی دیتا ہے جس طرح وہ مردہ زمین کو آسمان سے بکثرت بارش بھیجتا ہے۔ یہ ایک جانی مانی تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے افلاطون، ارسطو، اقلیدس اور بطلیموس کے علاوہ دیگر عظیم یونانی فلسفیوں کی لکھائیوں کا ترجمہ کیا اور ان کو محفوظ کیا۔ جبکہ دوسری طرف یہ سچائی ہے کہ جن لوگوں نے سافو، ایپی کیورس، ڈموکرٹس، ہیراکلیٹس اور ارسطو کے مکالمات کو تباہ کیا وہ کٹر عیسائی تھے اور اس تمام معلومات کو شیطانی کہتے تھے۔ عربوں نے ساسانیوں کی روشن خیالی کو اپنایا، وہ آج کے سیاسی اسلام کی طرح تنگ نظر نہیں تھے۔ سن 489 میں ایڈیسا کا تعلیمی اور سائنسی ادارہ بازنطینی شہنشاہ زینو کے حکم سے بند کردیا گیا تھا۔ اس کےبعد یہ ادراہ فارسی حکومت کے زیر نگرانی گندیشاپور خراسان میں منتقل ہوا اور اس کو نسیبس یا نسیبن کا اسکول کہا جاتا تھا۔ یہاں پر وہ پیگن فلاسفر جن کو جسٹونین نے ایتھنز سے 529 میں نکال دیا تھا اور دیگر دانشوروں نے طب، فلکیات اور حساب میں اہم ریسرچ کی۔
ساسانی بادشاہ خسرو (531-579) کے دور میں ، جن کو ’انوشیروان‘ کےلقب سے بھی پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ’لافانی روح‘، گندیشاپور طب اور معلومات کے لیے مشہور ہوگیا۔ خسرو نے کئی یونانی فلسفیوں کو اور نسطوری فرقے سے متعلق عیسائیوں کو پناہ دی جو جسٹینین کے مظالم سے بھاگے ہوئے تھے۔ ساسانی حکومت 638 بعد مسیح میں عرب مسلمانوں کے سامنے ڈھے گئی۔ فاتح جو الربع الخالی کے بنجر علاقے سے نکلے تھے ان کو بازنطینی، ساسانی، ویدک تہذیبوں کے علمی خزانوں کا سامنا ہوا ۔ زیادہ تر مسلمان ان پڑھ تھے اور انہوں نے اپنی حکومت میں مقامی دانش کی مدد لی جس کے نتیجے میں انہوں نے یونانی علم خود میں سمو لیے۔ اس زمانے میں مغرب میں یونانی علوم کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں تھی۔ یہ معلومات عربوں نے لاطینی سے ترجمہ کیں ۔ یونانی تہذیب سکندر اعظم کے فوجیوں کے ہاتھوں مشرق کی سمت پھیل چکی تھی۔ تو ایک لحاظ سے یہ ایک ’علمی جہاد‘ تھا جس میں تمام مسلمان ممالک ادب اور جدید سائنسی تعلیم کے میدانوں میں تگ دو میں مشغول تھے۔
آخر کیا وجہ تھی کہ یہ متھ مسلمانوں نے نہ کہ ان کے دشمنوں نے پھیلائی؟ اس میں کیا مقصد پوشیدہ تھا؟ برنارڈ لوئس اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’پال کاسانووا کے اس تبصرے میں اس بات کا مکمل جواب مل جاتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ کہانی 13 ویں صدی کی شروعات میں پھیلی ، یقیناً اس کی ابتدا 12 ویں صدی کے اختتام میں ہوئی ہوگی۔ یہ مسلمانوں کے عظیم ہیرو صلاح الدین کا دور تھا جو کہ نہ صرف صلیبیوں کو شکست دینے کے لیے مشہور ہے بلکہ مسلمانوں کے نقطہء نظر سے زیادہ اہم اس لیے ہے کہ اس نے کافرانہ قرار دی ہوئی فاطمی خلافت کا قاہرہ میں اس کے اسماعیلی نظریات کے ساتھ ساتھ قلع قمع کیا جو کہ صدیوں سے اسلام کے اتحاد کے لیے خطرہ بنی ہوئی تھی۔ عبد الطیف، صلاح الدین کے بڑے مداح تھے جس سے ملنے وہ یروشلم بھی گئے تھے۔ ابن قفطی کے والد بھی صلاح الدین کے پیروکار تھے جس نے ان کو نئے مفتوح شہر میں قاضی مقرر کردیا تھا۔
صلاح الدین کا پہلا کام قاہرہ میں سنی مسلک کی بحالی تھا۔ اس نے فاطمی مجموعات اور خزانے توڑے اور ان کو عوامی نیلامی کی نظر کیا۔ ان میں کافی بڑی لائبریری شامل تھی جس میں غالباً کافرانہ قراد دی گئی کتابیں بھری ہوئی تھیں۔ ایک لائبریری کی تباہی چاہے اس میں کسی بھی نوعیت کی کتب ہوں ایک تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھی گئی ہوگی۔ سکندریہ لائبریری کی کہانی نے اس بربادی کو درست راستہ ثابت کرنے میں سہارا دیا۔ اس تشریح کے مطابق اس کہانی کا پیغام یہ نہیں تھا کہ حضرت عمرؓ ایک علم دشمن تھے کیونکہ انہوں نے ایک لائبریری کو تباہ کیا بلکہ یہ تھا کہ ایک لائبریری کو تباہ کرنے کو درست ثابت کیا جائے کہ سب کے چاہے جانے والے خلیفہ حضرت عمرؓ نے بھی اس کی اجازت دی تھی۔ تو اس طرح ایک بار پھر بہت سے دیگر مواقع کی طرح ، اسلام کے ابتدائی ہیروز کے واقعات کو بعد کے مسلمانوں نے اپنے اعمال کو درست قرار دینے کے لیے اپنی پسند کے جامے پہنا دیے جن کو یہ ہیروز شاید کبھی قبول نہ کرتے۔ اب یہ مسئلہ اور قصہ بلاشبہ حل ہوچکا ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عمروؓ ابن العاص اور ابن ابی وقاص کو اس الزام سے بری کردیا جانا چاہیے جن کو ان کے مداحین اور مخالفین نے ان کے لیے گھڑا۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایک ایسا مذہب جس کی شروعات لفظ ’اقراء‘ یعنی کہ پڑھ سے شروع ہوئی تھی، وہ علم کے خزانے کی تباہی کیونکر چاہے گا۔ انسانوں میں طاقت ہے کہ وہ تجربات سے پرکھ کر سچائی کو قبول کرکے دنیا کو آگے بڑھائیں بالکل ویسے ہی جیسے مسلمانوں کی گذری ہوئی نسلوں نے کیا۔ بار بار واپس جا کر پرانے وقتوں کی زندگی نہیں جی جا سکتی ہے۔ وہ صرف سبق ہیں ، ہمارے اپنے زمانے کے نئے مسائل حل کرنے کے لیے ایک سوچ کا راستہ ہیں اور اس کو ایسے ہی دیکھا جائے تو دنیا اور اس کے مستقبل کے لیے بہتر ہے۔
لکھاری: اقبال لطیف مترجم :ڈاکٹر لبنیٰ مرزا ۔ایم