ادبی دنیا
ملا جلا انتخاب
-
عظیم ایدھی …… تُم آنکھیں رکھ لیتے …( ڈاکٹر فاخرہ نورین )
ایدھی آنکھیں رکھ لیتے تم کوئی ان سے کیا دیکھے گا جو…
-
پرویز مشرف کی فراری اورحکومت کی بےبسی پر فوزیہ شفقت کا اختصاریہ
پرویز مشرف کی فراری حکومت کی بےبسی پر فوزیہ شفقت کا اختصاریہ…
-
ارم ہاشمی کا خوبصورت اور بے مثال کالم ’’ بات وات ‘‘
بات وات ارم ہاشمی یہ میاں لوگ ّّ________ طویل انتظار،ٹھنڈ اور بے…
-
سلام اہل بیت!!
سلام محرم دین کو اک نئی زندگی بخش دینے والوں کا تذکرہ!…
-
جناب عنایت عادل کی تجزیاتی رپورٹ … کہاں تک سُنو گے ؟؟؟؟؟؟
کہاں تک سنو گے۔۔۔؟؟؟ عنایت عادل میرے نزدیک یہ اعلان ہی مضحکہ…
-
انحراف فورم مشاعرے میں کہے گئے شاہدہ مجید کے فی ا لبدیہ اشعار
انحراف فورم پر منعقد طرحی مشاعرے میں کہے گئے فی البدیہہ اشعار…
-
سیاسی ڈگڈگی، اور بین بندر کون؟ سانپ کون؟
مہک فاطمہ ملک کی موجودہ صورت احوال ماضی کے بہت سے مناظر…
-
مولہ چٹوک: بلوچستان کی ایک جنت نشاں وادی. (نسرین غوری )
مولہ چٹوک بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک جنت نشاں وادی مولہ…
-
مان نہ مان ، میں تیرا مہمان ( محمد جنید خان کا کالم )
مان نہ مان ، میں تیرا مہمان روس افغانستان جنگ کے دوران…
-
نیلم ملک کا دل آویز کلام ۔۔۔۔ نیلاب ڈاٹ کام کے قارئین کے ذوقِ سلیم کی نذر
( غیر مطبوعہ ) ﻏﻼﻡ ﮔﺮﺩﺵِ ﻧﻔﺲ ﺳﮯ ﭼﻞ ﮐﮯ ﺁ ﮔﺌﮯ…
-
میانوالی سے تو صیف احمد کی تحریر ” نمکین رشتے "
نمکین رشتے توصیف احمد( میانوالی) بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ…
-
سینٹرل جیل میانوالی پر دو ڈی آئی جیز کا 100 اہلکاروں سمیت چھاپہ .. کیا پکڑا گیا ؟
کرپشن اور سنگین نوعیت کی بدعنوانیوں کی شکایات میانوالی جیل پر دو…
-
جناب عنایت عادل کا فکر انگیز کالم ’’بالحق‘‘۔۔۔۔ پی ٹی آئی کا داور یا داور کی پی ٹی آئی۔۔؟؟
پی ٹی آئی کا داور یا داور کی پی ٹی آئی۔۔؟؟ عنایت…
-
اکسویں صدی کا پاکستان . کالاباغ میں انسان دوسرے انسان کا بوجھ کھینچتا ہے
اکسویں صدی کاپاکستان کالاباغ شہر کا محنت کش اپنے گھر کا چولہا…
-
"شب معراج کی فضیلت وعبادت” حافظ کریم اللہ چشتی
شب معراج کی فضیلت وعبادت رجب المرجب اسلامی سال کاساتواں مہینہ ہے۔اللہ…
-
صدقہ فطر
حافظ کریم اللہ چشتی( 0333.6828540 ) رحمتوں اوربرکتوں سے بھراہوارمضان المبارک کامقدس…
-
دیوانِ منصور سے …………………………………
ہوا میں گھات لگا کر گمان بیٹھ گیا چراغ کھینچ کے اپنی…
-
اسلامی ثقافت سے دوری ،نوجوان نسل کی تباہی کاباعث
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی میں نے تودل…
-
احکام ومسائل اعتکاف
حافظ کریم اللہ چشتی اعتکاف بناہے عَکْفجسکامعنی ہے ٹھہرنایاقائم رہناجبکہ اصطلاح شرع…
-
تکمیل عشق
عنوان ۔۔۔تکمیل عشق تحریر ۔۔۔ عروہ نیازی (میانوالی ۔۔پاکستان) بینر ۔۔۔۔ محمدزبیرپنوارقادری…
-
فضائل مکہ مکرمہ وفضائل مدینہ منورہ
حافظ کریم اللہ چشتی کعبے کی رونق کعبہ کامنظراللہ اکبراللہ اکبر دیکھوں…
شخصیات
-
شخصیات
ذوالفقار احمد چیمہ عہد ساز شخصیت اور نیوٹیک کاادارہ تحریر: سہیل احمد اعظمی
ذوالفقار احمد چیمہ عہد ساز شخصیت اور نیوٹیک کاادارہ تحریر: سہیل احمد اعظمی صحافتی، تجارتی، سماجی اور کھیل کے طبقے…
Read More » -
شخصیات
محمد اشفاق چُغتائی کے حوالے مولانا عبد الستار خان نیازی کی تحریر
مولانا عبد الستار خان نیازی: محمد اشفاق چغتائی عاشق رسول اور علامہ اقبال سے سچی محبت کر نے والا تھا…
Read More » -
سیاسیات
عمران خان کے حوالے سے عینی نیازی کی تحریر ہار ما ننا اس نے سیکھا نہیں ۔۔۔
ہار ما ننا اس نے سیکھا نہیں ۔۔۔ عینی نیازی دنیا میں کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو دوسروں…
Read More » -
شخصیات
آہ معراج محمد خان …. ” کیا دولتَ نایاب لُٹی ہے موت کے ہاتھوں "؟
معراج محمد خان: غریب کا ساتھی رخصت ہوا .. تحریر :.عثمان غازی جمہوریت کو مذاق سمجھنے والے کیا جانیں کہ…
Read More » -
شخصیات
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
جناب حفیظ اختر رندھا وا ( سابق چیف سیکرٹری پنجاب ) ___________ پاکستان کی سول بیوروکریسی ہمیشہ سے ایک متنازعہ…
Read More » -
شخصیات
دیکھیئےوزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر نے کالاباغ کے بارے میں کیا کہا ؟
میانوالی ( انوار حقی سے ) وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر کے خاندان کا بنیادی تعلق تحریک انصاف کے…
Read More »
تاریخ
-
پرویز مشرف اور تاریخ کا عجائب گھر
پرویز مشرف اور تاریخ کا عجائب گھر __________________
جسے زعم تھا کہ وہ کسی سے ’’ڈرتا ورتانہیں‘ ‘ وہ ڈر کے مارے ڈھیر نظرآتا ہے۔ این آر او کی رسید کے طور پر ’’گارڈ آف آنرز ‘‘ لے کر وطن سے جانے والا لاکھ منع کرنے کے باوجود پاکستانی سیاست میں بھونچال لانے کے زعم میں وطن واپس آیا تو نہ ’’ سید مشرف ‘‘ کی گردان لگانے والے شیخ رشید کو نزدیک پایا اور نہ ہی وردی کے ساتھ صدر منتخب کروانے کے دعویدار چوہدری برادران نے ساتھ دیا۔ اکتوبر 1999 ء سے لیکر2008 ء تک مُکے دکھا اور لہرا کر بار بار قوم کو فتح کرنے والے ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف’’نہ ہاتھ باگ پر ہے اور نہ پا ہے رکاب میں ‘‘ کی ایک عبرت انگیز تصویر بن چُکے ہیں۔۔۔اپنے اسلاف اور اپنی تاریخ سے بچھڑنے کی ریت ڈالنے والے پرویز مشرف کا مقدر ’’ تاریخ کا کوڑے دان ‘‘ ٹہرتا واضح طور پر دکھائی دینے لگاہے۔۔۔۔ایسا شاید اس لئے بھی ہے کہ تاریخ کا تجزیہ بڑا بے رحم ہوتا ہے ۔ڈکٹیٹروں کی سفاکی سے بھی زیادہ بے رحم مگر سچا اور غیر جانبدار۔۔۔۔۔۔۔
اکتوبر2000 ء میں بی بی سی کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ’’ اگر نواز شریف مجھے برطرف نہ کرتے تو شاید نوا ز شریف آج بھی بر سرِ اقتدار ہوتے اور ان کا اقتدار قائم رہتا‘‘۔انٹرویو کے ایک جملے میں اقتدار کی کشمکش کی پوری کہانی سمودی گئی ہے۔ کہ پرویز مشرف کو نواز شریف سے کسی نوعیت کا کوئی اختلاف نہیں تھا۔وہ نواز شریف کی تمام معاشی، سیاسی اور عالمی حکمت عملیوں سے مطمئن تھے۔اصل مسئلہ نوکری کا تھا۔پرویز مشرف کی نوکری کو خطرے میں ڈالنے کا جرم نواز شریف کو مہنگا پڑا۔جنر ل پرویز مشرف کی جانب سے پاکستان کے اقتدار پر قبضے کو کسی آئینی ترمیم یا قانون کی کسی شق کے ذریعے حق بجانب قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی دیا جا سکتا ہے۔ وہ بارہ اکتوبر1999 ء سے گیارہ ستمبر2001 ء تک پاکستان میں معذرت کی صدا بن کر رہے۔ عالمی سطح پر ان کو کوئی پذیرائی نہیں مل سکی تھی۔ بھارت نے ان سے مذاکرات کرنے سے واضح لفظوں میں انکار کر دیا تھا۔ اور اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنے دورہ جنوبی ایشاء میں جب بمشکل پاکستان میں بھی چند گھنٹے قیام کرنے کی ازراہِ عنایت حامی بھری تو اپنے لمبے چوڑے شرائط نامے میں ایک شرط یہ بھی رکھی تھی کہ وہ پاکستان میں قیام کے دوران کہیں پر بھی جنرل پرویز مشرف سے ہر گز ملاقات نہیں کریں گے، چنانچہ امریکی صدر بل کلنٹن اُس وقت کے صدرِ مملکت رفیق احمد تارڑ سے ہی فقط ملاقات فرما کر تشریف لے گئے تھے۔اسی ذہنی و نفسیاتی پس منظر میں وہ نو گیارہ کے بعد اچانک امریکی حمایت سے اختیار و اقتدار کے تمام مراکز کے مالک و مختار ہو گئے۔امریکہ سے اُس وقت کے سیکرٹری خارجہ جنرل کولن پاول کے ایک ٹیلی فون پر انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کے نتائج آئندہ کئی برسوں اور نسلوں تک پاکستان بھگتتا رہے گا۔کولن پاول نے ہمارے اس وقت کے صدرِ مملکت کے سامنے محض ٹیلیفون پر سات مطالبات رکھے اور ہمارے صدرِ مملکت جنرل پرویز مشرف اُن مطالبات پر سوچنے کے لئے سات دن بھی طلب نہیں کر سکے، سات سیکنڈوں سے بھی کم وقت میں انہوں نے امریکی مطالبات تسلیم کر لئے تھے۔جس کی امید امریکہ بھی نہیں رکھتا تھا۔خود کو نجات دہندہ کے طور پر یاد رکھے جانے کے خواہش مند صدرِ مملکت جنرل پرویز مشرف کے اُس بدترین فیصلے کی کانٹوں بھری فصل آج تک وطنِ عزیز کاٹ رہا ہے۔اور پاکستان کا مستقبل اندیشوں اور وسوسوں کے نرغے میں ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں بھی ہم بار بار لکھتے رہے کہ بارہ اکتوبر 1999 ء کے واقعات دو افراد کی ذاتی جنگ تھی۔ اس جنگ کا تعلق تحفطِ ارض وطن سے نہیں بلکہ تحفظِ ذات اور تحفظِ مفادات سے تھا۔مفادات کی جنگ خواہ کتنے خُلوص سے لڑی جائے بہر حال وہ ذاتیات کی جنگ ہوتی ہے۔اور ذاتیات کی جنگ میں فتح پانے والے خواہ ہیرو کہلائیں یا مُکے لہرائیں، آئین پامال کریں، ایمر جنسی نافذکریں، اظہارِ رائے کے حق پر قدغن لگائیں،عدلیہ کو بے دست و پا کریں، ان کے ارد گرد سیاستدانوں کا ہجوم رہے آخر کار انہیں تاریخ کے عجائب گھر میں گُم ہو جانا ہوتا ہے۔اسی راستے پر اب پاکستانی سیاسی تاریخ کے ڈکٹیٹر پرویز مشرف رواں دواں ہیں۔۔۔۔۔۔۔
جب قوم کے گذرے ماہ و سال پر نظر دوڑائی جائے تو ایک بڑا المیہ یہ سامنے آتا ہے بارہ اکتوبر 1999 ء کو بھی اس ملک کے سیاستدان، علماء، دانشور، صحافی دو افراد کی ذاتی جنگ کو ذاتی مفادات کی جنگ سمجھنے کی اہلیت سے محروم تھے۔اور اس جنگ کے خاتمے پر وہ ایک فریق کی موت پر جشن مناتے نظر آئے۔۔۔ مگر تاریخ کی روایت کے عین مطابق ان سب کو دوسرا جشن منانے کی مہلت نہ ملی کہ مرنے والی قبر پر ہنسنے والے صرف ایک بار ہنس سکتے ہیں۔اس کے بعد تاریخ ان پر بار بار ہنستی ہے۔اور پھر وہ تاریخ کی بھول بھلیوں میں گُم ہو جاتے ہیں۔بارہ اکتوبر1999 ء کے قومی منظرنامے پر یہ تلخ حقیقت بھی ہمیشہ موجود رہے گی کہ ہماری دینی جماعتیں بھی اجتماعی طور پر دانشِ نورانی اور قوتِ برہانی سے محروم رہیں۔ یہ تمام کی تمام جماعتیں فوجی حکومت کی آمد کے اسباب کاسراغ نہیں لگا سکیں اور نہ ہی اس کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں (مشرف کے پورے دورِ اقتدار میں ) کوئی حتمی رائے قائم کر سکیں۔پینسٹھ سالہ سیاسی مد و جذر کے گذرنے کے باوجود انہوں نے ہر مرتبہ ٹھوکر کھائی ہے۔اور کبھی بھی قوم کی درست وقت پر درست رہنمائی نہیں کی ہمیشہ حکمرانوں کی کاسہ لیسی کی اور جب پانی سر سے گذر گیا تو بغاوت کا علم لے کر کھڑے ہو گئے۔پرویز مشرف نے ہمیشہ بر سراقتدار رہنے کی خواہش کی تکمیل کے لئے جو اقدامات کےئے ان کے سامنے بند باندھنے میں ہماری بڑی اور قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
آج ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف قانون کے کٹہرے میں ہیں۔ قانون کی عدالت ان کے بارے میں کیا فیصلہ صادر کرتی ہے یہ عدالت کی صوابدید اور اختیار کی بات ہے۔ جس پر کسی قسم کی کوئی رائے زنی مناسب نہیں ہے۔۔۔۔۔
البتہ تاریخ اور وقت کا ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں فیصلہ نمایاں ہونے لگا ہے۔پرویز مشرف کا منہ زور اقتدار تاریخ کے عجائب گھر میں گُم ہوچُکا ہے۔ اس طویل عہداقتدار میں کوئی ایک کارنامہ بھی ایسا نہیں جو انہیں تاریخ میں اچھے لفظوں سے یاد رکھنے کے قابل ہو۔آج ان کے اقتدار پر نظر دوڑائیں تو تاریخی نتائج نے ان کے سفر کو پسپائی اور رسوائی سفر ثابت کر دیا ہے۔ان کی حکومت ہمیشہ رجعتِ قہقری میں مبتلا دکھائی دیتی ہے۔اقتدار کے تمام ماہ سالوں میں ان کا ہر اگلا قدم کئی قدم پیچھے ہٹنے کے راستے ہموار کرتا نظر آتا رہا۔سیاست سے لے کر معیشت تک،معاشرت سے لے کر معاملات تک،ملکی حالات سے لیکر عالمی تنازعات تک پرویز مشرف کی حکومت کا سفر دائرے کا سفر تھا اور دائرے کا سفر کبھی ثمر آور نہیں ہوتا۔۔۔۔ پرویز مشرف کا انجام ہر اُس حکمران کے لئے نصیحت آموز ہونا چاہیے جسے اپنی حکومت کی کارکردگی پر غرور کی حد تک فخر ہو۔ جو ہمہ دانی کا دعویٰ رکھتے ہیں وہ المناک انجام دے دوچار ہوتے ہیں۔اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والوں کو ہر کسی کی تنقید پروپیگنڈا لگتی ہے ۔ یہ سوال بڑا اہم ہے کہ مسند نشین کے حواسِ خمسہ مسند پر کام کیوں نہیں کرتے۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟ -
دریائے سندھ پر تیرتی نعش اور نواب آف کالاباغ … ظفر خان نیازی کی چونکا دینے والی تحریر
نواب کالاباغ ملک امیر محمد خان
دریائے سندهه پر بہتی لاشنوے کی دہائی کی بات ہے ، میں ان دنوں اسلام آباد اسٹیشن پر تھا ، کسی کام سے اپنے درویش دوست فقیر ادریس کنٹرولر ایڈمن کے پاس گیا تو وہاں ڈائریکٹر انجنئیرنگ یونس خان گپ شپ کے موڈ میں بیٹھے مل گئے ۔ یونس خان کا ریڈیو پاکستان کے ان چند انجنئیرز میں شمار ہوتا ہے جن کا لٹریچر اور ریڈیو پروگرامنگ کے حوالے سے بہت اعلی ذوق تھا . ان کی گفتگو سن کر مسرت آمیز حیرت ہوتی تھی ۔ میں بھی گپ شپ سننے لگا ۔ اچانک مجھے کہنے لگے ، نیازی صاحب میں اپنے لڑکپن میں میانوالی بھی رہا ہوں ، میرے والد محمد صادق سن ، 1934/5 میں وہاں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر تھے ۔ اور میں اس وقت ساتویں آٹھویں میں پڑھتا تھا ۔ میرے والد کی نواب کالا باغ ملک امیر محمد خان سے بہت گہری دوستی تھی ۔ میں ایک دفعہ والد کے ساتھ کالا باغ بوہڑ بنگلہ میں ٹھہرا جس کی سیڑھیاں دریا میں اترتی ہیں ۔ میں وہاں دریا کے کنارے آیا تو میں نے دیکھا ایک لاش بنگلے کی سیڑھیوں کے ساتھ لگ کر دریا میں تیر رہی ہے ۔ وہ لاش ایک باریش مرد کی تھی ۔ میں نے بھاگ کر نواب صاحب کو اطلاع دی تو وہ آئے اور اپنے ملازموں کو ڈانٹ کر کہنے لگے ، میں نے کہا تھا ، اس کو نیچے کی طرف پھینک کر آؤ ۔ ملازم نے جواب دیا ، ہم نے اسے نیچے کی طرف ہی پھینکا تھا ۔ نواب صاحب نے کہا اسے اب اور دور جا کر بہانا ۔ ایسا ہی کیا گیا ۔۔۔
لیکن دوسرے دن وہ لاش پھر ان سیڑھیوں کے ساتھ آکر لگی کھڑی تھی ۔
کہنے لگے ، اس کے بعد اس لاش کو اسی جگہ دفن کرایا گیا جہاں سے وہ نکلی تھی ۔۔۔۔
یہ واقعہ میں نے کچا پکا تو پہلے بھی سن رکھا تھا لیکن اس میت کا چشم دید گواہ مجھے یونس خان ڈائریکٹر انجنئیرنگ ریڈیو پاکستان کی صورت میں بھی مل گیا ۔(یونس خان صاحب کی پک آپ کمنٹس میں دیکھ سکتے ہیں )
اس واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ کالا باغ میں ایک قدیم قبرستان تھا ۔ نواب صاحب نے وہ قبرستان مسمار کرایا اور وہاں بنگلہ کی تعمیر اور کاشت کاری شروع کر دی ۔ اس کھدائی کے دوران جو ہڈیاں اور ڈھانچے ملے وہ دریا برد کئے جاتے رہے ۔ یہ میت ، اللہ بہتر جانتا ہے کب کی مدفون تھی ، صحیح سلامت تھی – اس کی داڑھی تک محفوظ تھی ۔ اس میت کو دریائے سندھ میں پھینکتے تو وہ اگلی صبح پھر وہیں آکھڑی ہوتی ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نواب صاحب کو ، جبکہ کچھ بغوچیوں کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کو خواب میں میت نے کہا کہ مجھے جہاں سے نکالا ہے ، وہیں دفن کرو ۔۔
میرے ریڈیو کے سینکڑوں دوست جو اس واقعے کے راوی یونس خان صاحب کے ساتھ کام کر چکے ہیں ، وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ یونس خان ، انتہائی نیک ، دین دار اور دلچسپ بات یہ کہ دیوبندی مزاج کے پرہیز گار انسان تھے ۔ اس روایت کے دوسرے سامع ، فقیر غلام ادریس خان حال ہی میں ڈائریکٹر فنانس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں ، ان کا تعلق تو ڈی آئی خان سے ہے لیکن اب وہ بارہ کہو اسلام آباد میں مستقل قیام رکھتے ہیں ۔
۔۔۔۔ اس واقعے کا ایک دُکھی پہلو یہ ہے کہ نواب صاحب خود اپنی اولاد کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔ ان کا جنازہ اٹھانے لگے تو قبرستان کی دوری کے پیش نظر ٹریکٹر ٹرالی منگوائی گئی ۔ حمیداللہ خان روکھڑی نے نوابزادوں کو کہا ۔ اپنے باپ کو مار بیٹھے ہو ، لیکن آخر تھا تو تمہارا باپ ۔ اس کی میت کا کچھ تو احترام کرو !!
اس پر ٹرالی کی بجائے جنازہ کندھوں پر لے جایا گیا ۔ تدفین کے بعد نواب صاحب کی میت کا کیا ہوا ، اللہ بہتر جانتا ہے ، لیکن افواہ عام کچھ اچھی نہیں ۔ ۔۔۔۔ کل من علیھا فان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔