تاریخسفر نامہسماجیاتشہر شہر

چکوال کا کٹاس راج ’’شو دیوتا ‘‘کے حوالے سے ہندو کا مقدس مقام ہے( نیلاب رپورٹ )

چکوال کا کٹاس راج ’’شو دیوتا ‘‘کے حوالے سے ہندو کا مقدس مقام ہے( نیلاب رپورٹ )

چکوال کے علاقے چوا سیدن شاہ میں کٹاس راج کے نام سے معروف ہزاروں سال پرانے مندروں میں ’’شوراتری ‘‘ کی رسومات اختتام پذیر ہو گئی ہیں ۔ ہندوستان سے ہندو یاتریوں کا ایک گروپ ان رسومات میں شرکت کے لیئے سات مارچ کو واہگہ کے راستے پاکستان آیا تھا جو ’’شوراتری ‘‘ کی رسومات کی ادائیگی کے بعد گیارہ مارچ کو واپس چلا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ شری کٹاس راج کی تاریخی اہمیت مسلمہ ہے
شری کٹاس راج اپنا ایک منفرد تاریخی پس منظر رکھتا ہے ۔ کوہستان نمک کے درمیان چکوال سے جنوب کی جانب 35 کلومیٹر کے فاصلے
پر کٹاس کا چشمہ موجود ہے ۔ اس چشمے کو ہندو مت میں تقدس حاصل ہے ۔ ہندو روایات کے مطابق کٹاس ابتداء ہی سے ایک مقدس جگہ ہے ’’مہا بھارت ‘‘ (جو مسیح علیہ السلام سے سے تین سوسال پہلے کی تصنیف ہے) میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ سبحان رائے بٹالوی اپنی تصنیف ’’ خلاصتہ التواریخ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ مکھیالہ کے علاقے میں ایک جگہ کوٹ چھینہ ہے یہاں کی جھیل اتنی گہری ہے کہ کوئی آدمی اس کی گہرائی نہیں جانتا یہ قدیم ایام سے ایک پرستش گاہ تصور کی جارہی ہے ۔مقدس دنوں میں جب سورج بُرج حمل سے بُرج صوت میں داخل ہوتا ہے تو ہندو لوگ گروہ در گروہ اس جگہ نہانے کے لیئے اکٹھے ہوتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ زمین کی دو آنکھیں ہیں دائیں آنکھ تو اجمیر کے قریب پشکر کی جھیل ہے اور بائیں آنکھ یہ جھیل ہے ‘‘
اس کے پس منظر کے حوالے سے تاریخِ جہلم میں مرقوم ہے کہ براہمنون کی روایت کے مطابق جب شو دیوتا کی بیوی ستی مر گئی تو وہ اتنا دُکھی ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندی جاری ہو گئی اور ان سے دو مقدس تالاب معرضِ وجود میں آ گئے ایک اجمیر کا پشکر اور دوسرا کٹک شیل۔ سنسکرت میں اس کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے ۔ یہ لفظ بعد میں کثرتِ استعمال سے کٹاس بن گیا ۔
ڈاکٹر سٹین کا کہنا ہے کہ ’’ سالٹ رینج کے درمیان ایک مقدس چشمہ یا تالاب جو پنڈدانخان سے 15 میل کے فاسلے پر ہے شمال مغرب 43 فٹ ۔32 ڈگری اور مشرق کی جانب49 فٹ 72 ڈگری پر واقع ہے یہ تالاب گنیاں نالے کے سرے پر واقع ہے یہ تالاب سطح سمندر سے دوہزار فٹ سے زیادی بلندی پر ہے یہ پہاڑی چشموں کے پانی سے بھرا رہتا ہے اس کے ارد گرد کے علاقے سے ایک چھوٹی ندی چوآ سیدن شاہ کے پاس سے گزرتی ہوئی گندہالہ وادی میں داخل ہوتی ہے ۔ ‘‘
جنرل کننگھم نے بھی ان آثارِ قدیمہ کا حوالہ دیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کتاس کا مقدس چشمہ جولا مکھی کے بعد پنجاب میں یاتریوں کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے ۔ براہمنوں کی ایک روایت کے مطابق شوجی مہاراج کو دکشیا کی بیٹی اور اپنی بیوی ستی کی موت پر اتنا دُکھ ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندی جاری ہو گئی جس سے دو تالاب بن گئے ان میں سے ایک اجمیر کے قریب پشکر یا پوکھر ہے اور دوسرا کٹک شاہ یا کٹاس جو کہ دوآبہ سندھ ساگر میں ہے کاٹکشا کا معنی ’’ برستی آنکھیں ‘‘ ہے لیکن اس جگہ کے جاہل براہمن اس کا تلفظ کٹاشا یا کٹاکشا کرتے ہیں ۔ اگرچہ کہ وہ اس کا مطلب وہی بتاتے ہیں تالاب جزوی طور پر مصنوعی ہے چٹان کو کاٹ کر گنیاں نالہ کی گذر گاہمیں واقع قدرتی طاس کو چوڑا کر دیا گیا ہے ۔ تالاب کے اُوپر ہاتھوں سے بنی ہوئی ایک مضبوط دیوار ہے ۔ جس کی چوڑائی سوا دو فٹ اور اونچائی 19 فٹ ہے ۔ یہ دیوار ایک ساتھ ہی تعمیر کی گئی تھی تاکہ نالے کے پانی کو اکٹھا کرکے ایک بڑی جھیل بنا لی جائے ۔براہمنوں کا خیلا ہے کہ یہ بندر اجہ پاتک یا پتک جو دہلی کے کسی حکمران کا وزیر تھا، نے تعمیر کروایا تھا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مقدس تالاب کو محفوظ رکھا جائے اور فالتو پانی کا اخراج عمل میں لایا جائے ۔ پانی کی سُرنگ جو122 فٹ لمبی تھی چٹان کاٹ کر بنائی گئی تھی ۔ جو پانی کو اُٹھا کر تالاب کے نیچے ایک مقام پر لے جاتی تھی چونکہ تالاب اپنے اندر بھی چشمے رکھتا ہے یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہ پانی کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیئے اکٹھا کیا گیا ہو ۔
کٹاس راج کے حوالے سے بہت سے تاریخی حوالے موجود ہیں ۔ ہندوؤں کے نزدیک یہ ان کے لیئے انتہائی مقد س مقام ہے ہر سال ہندو یاتریوں کی بڑی تعداد یہاں عبادت کے لیئے آتی ہے ( جاری ہے )

Back to top button