سرائیکی وسیبشہر شہرمیانوالی

چشمہ بیراج کی جھیلوں اور سندھ ساگر کے پانڈ ایریا میں بدیسی پرندوں کا بے دریغ شکار ( انوار حسین حقی کی رپورٹ )

چشمہ بیراج کی جھیلوں اور سندھ ساگر کے پانڈ ایریا میں بدیسی پرندوں کا بے دریغ شکار ( انوار حسین حقی کی رپورٹ )
چشمہ بیراج کی جھیلوں اور دریائے سندھ کے پانڈ ایریا میں بدیسی پرندوں کا قتلِ عام۔محکمہ وائلڈ لائف کے عملے کی ملی بھگت اور سستی کی وجہ سے سائیبریا کے برفانی صحراؤں سے آنے والے آبی پرندے شکاریوں کی بے رحمی کا نشانہ بننے لگے۔ ماحول اور سماج کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا احتجاج ۔تفصیلات کے مطابق روس ( سائیبریا) کے برفانی صحراؤں سے قازقستان کے راستے ’’انڈس فلائی وے‘‘سے چشمہ بیراج آنے والے آبی پرندوں کا شکار ان دنوں بڑی بے دردی اور بے رحمی سے جاری ہے محکمہ وائلڈ لائف کے عملے کی ملی بھگت اور ناقص حفاظتی انتظامات کی وجہ سے ملک بھر کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے شکاری مرغابیوں پر عرصۂ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں ۔’’ دور دیس‘‘ سے آنے والے ان مہمان پرندوں پر یہ سار اظلم ستم محکمہ تحفظ جنگلی حیا ت کے عملے کی موجودگی میں ہورہا ہے۔ چشمہ جھیل گیم سینکچوری ہونے کی وجہ سے یہاں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کا مکمل عملہ تعینات ہے۔دو گیم انسپکڑ اور چھ گیم واچر یہاں چوبیس گھنٹے تعینات رہتے ہیں ، صرف یہی نہیں بلکہ چشمہ بیراج پر واپڈا کے سیکورٹی اہلکاروں کے علاقہ صوبہ پنجاب اور سرحد پولیس کی علیحدہ علیحدہ چیک پوسٹیں بھی قائم ہیں جہاں درجنوں پولیس اہلکار ہر وقت مسافروں کے لئے خوف و ہراس کی علامت بنے رہتے ہیں ،لیکن مرغابیوں کے قتل عام پر محکمہ تحفظِ جنگلی حیات کی طرح دونوں صوبوں کے پولیس اہلکاروں نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ان دنوں چشمہ بیراج کی جھیل اور دریا ئے سندھ کے ملحقہ کچے کے علاقے میں مرغابیوں کا شکار گزشتہ چار ماہ سے جاری ہے ضلع میانوالی کے لوگوں کو شکار شدہ مرغابی ایک سو سے ایک سو پچاس روپے میں بآسانی دستیاب ہو جاتی ہے معلوم ہوا ہے کہ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے انسپکٹروں ا ور دیگر اہلکاروں نے مختلف شکاری پارٹیوں سے رقم وصول کرکے شکار کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے کچے کے علاقے میں مختلف مقامات پر شکاریوں نے ڈسٹرکٹ وائلڈ لائف آفیسر کی مرضی سے بیس کیمپ بنا رکھے ہیں جہاں شکار اور سندھی مچھیرے جال کے ذریعے روازانہ سینکڑوں مرغابیاں پکڑتے ہیں جال کے ذریعے پکڑی جانے والی مرغابیوں کی ٹانگیں توڑ دی جاتی ہیں تاکہ وہ اڑ نہ سکیں شکاریوں کے اس وحشیانہ ظلم کے بعد مرغابیاں درد سے چیخ و پکار کرتی رہتی ہیں لیکن سنگدل شکاریوں کو دور دیس سے پناہ کی تلاش میں آنے والے ان مہمان پرندوں پر بالکل رحم نہیں آتا ، ان دنوں اندھیری راتوں میں روزانہ رات کو مرغابیاں پکڑنے کے لئے جال لگائے جاتے ہیں۔اس سلسلہ میں کچہ کے پانڈ ایریا کے علاقے ’’گجن ‘‘ اور ’’گھنڈی‘‘ میں رات کو روزانہ Netting ہو رہی۔ محکمہ وائلڈ لائف کے عملے کی ملی بھگت نے چشمہ بیراج کی گیم سینکچوری میں آبی حیات اور آبی پرندوں کی نسل کی بقاء کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے معلوم ہوا ہے کہ ۔عالمی سطح پر چشمہ بیراج کی جھیل کو جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے 1984ء میں محفوظ قرار دیا گیا تھا ۔ آب گاہوں کے تحفظ کے بین الاقوامی معاہدے ( جسے رامسر کا نام دیا گیا ہے ) میں چشمہ بیراج کی جھیل سائٹ نمبر 816 کے طور پر موجود ہے آبی پرندوں کی نقل و حمل کی سات بین الاقوامی گزرگاہوں میں ’’انڈس فلائی وے ‘‘بہت مصروف اور مشہور گزر گاہ سے اسے عام طور ر’’ گرین روٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اسی راستے سے سائیبریا کے برفانی علاقوں سے مرغابیوں اور مختلف اقسام کے دیگر پرندے قازقستان کے راستے افغانستان اور ایران سے ہوتے ہوئے چشمہ بیراج پہنچتے ہیں ۔ ’’گرین روٹ‘‘ سے آنے والے پرندے پرواز کے دوران زمینی نشانات کے علاوہ دریائے سندھ سے سمت کے تعین میں مدد حاصل کرکے پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں سے ہوتے ہوئے بھارتی صوبے راجھستان تک پہنچتے ہیں ان پرندوں کی اس علاقے میں آمد اکتوبر کے مہینے میں شروع ہو جاتی ہے جب کہ مارچ اپریل میں شکاریوں سے محفوظ رہنے والے پرندوں کی واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے فطر ی ماحول کے تحفظ کے لئے ان پرندوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے لیکن حکومت اور ماحول کے تحفظ کے لئے بیرونی امداد حاصل کرنے والی تنظیمں اپنی ذمہ داری پوری طر شکاریوں ح ادا نہیں کر رہی 1974 ء کے بعد سے چشمہ بیراج کے مطابق جنوری 1974ء میں ایک لاکھ سے زائد پرندے چشمہ بیراج کی فضاؤں میں موجود تھے ۔ چشمہ بیراج کے قریبی علاقوں کے لوگ ایسے آبی پرندوں کو پکڑنے کے لئے بہت تگ و دو کرتے ہیں جن کے پاؤں میں جھانجر (Ring) موجود ہوں ۔ اس علاقے میں یہ بات مشہور ہے کہ جھانجر والے پرندے پکڑنے سے انعام ملتا ہے ھالانکہ ایسانہیں ہے ابتداء میں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کا عملہ ان پرندوں کو پکڑکر ان کے پاؤں میں جھانجر پہنا دیتاتھا تاکہ پرندوں کو شمار کرنے ساتھ ساتھ یہ اندازہ بھی لگایا جا سکے کہ کتنے پرندے اگلے سال یہاں واپس آتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہتا پڑتا ہے کہ محکمہ تحفظ جنگلی حیات اب ان مہمان پرندوں کی حفاظت کے لیئے اپنے فرائض اداکرنے کی بجائے شکار کرنے والوں کی معاونت اور سرپرستی میں مصروف ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مرغابیوں کے شکار کے موسم کی وجہ سے میانوالی سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور یہاں تعینات سرکاری افسران کے مہمانوں کی آمد اور تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ملک بھر سے شکار کے شوقین اعلیٰ افسران درائے سندھ کے نواحی علاقہ کچہ میں شکار کھیلنے کیلئے آتے رہتے ہیں۔ان ’’مخصوص مہمانوں ‘‘کی اس علاقے میں آمد کے موقع پر محکمہ تحفظ جنگلی حیات کا عملہ بے بس نظر آتا ہے۔بے رحمی سے شکار نے چشمہ گیم سینکچوری کے علاقے میں آبی حیات کو شدید خطرات سے دو چار کررکھا ہے۔ آج سے دہ ماہ قبل لاکھوں کی تعداد میں آبی پرندے فطرت کے رنگ بکھیر رہے تھے لیکن دو ماہ کے دوران ہونے والے بے دریغ شکار نے ماحول سے فطرت کی رنگینی چھین کر ماحول کو اداس کر دیا ہے۔

Back to top button