شہر شہرمیانوالی

میانوالی کی عدلیہ ۔ عہدِ رفتہ کی کہانی

حدِ ادب
انوارحسین حقی
میانوالی کی عدلیہ ۔ عہدِ رفتہ کی کہانی
_____________________________
میانوالی کے جوڈیشل کمپلکس میں لاہور ہائی کورٹ کی150 سالہ تقریبات کے حوالے سے ایک تقریب کے شرکاء کو میانوالی کے تاریخی ، تہذیبی ، سماجی ، ادبی حوالے ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی ۔ اس ڈاکومنٹری میں عدلیہ کے حوالے سے قابلِ قدر معلومات نے عدلیہ کے تاریخی سفر کو زندہ کر دیا ۔ اس فلم کی تیاری کے حوالے سے ممتاز صحافی رانا محمد ادریس کی خدمات کی تقریب میں تعریف بھی کی گئی
تقریب کے مہمانِ خصوصی ریٹائرڈ جسٹس سیف الرحمن (جو عدالتِ عظمیٰ میں ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائٹس سیل کی حیشیت سے خدمات بھی سرانجام دے چُکے ہیں) کی تقریر ان کی پیشہ ورانہ کمٹمنٹ کی عکاس تھی ۔ چوہدری عبد القیوم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے میانوالی کی عدالتی تاریخ کا محاکمہ کیا ۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینٖڈ سیشن جج اصغر علی شاہ اور سینئر سول جج محمد یاسین موہل ، ڈی سی او میانوالی شوذب سعید ، ڈی پی او میانوالی صادق علی ڈوگر اور مرزا ساجد بیگ سپریٹنڈنٹ سینٹرل جیل میانوالی نے خوبصورت باتیں کیں ۔ دی سٹی سکول میانوالی کیمپس کی پرنسپل محترمہ مریم افشاں سول سوسائٹی کی جانب سے اکلوتی مقررہ تھیں انہوں نے انتہائی مدلل انداز میں موضوع پر اپنی گرفت کا اظہار کیا ۔14958799_1144409462309125_441321605_n سول جج فہیم شاہ نے نظامت کے فرائض سر انجام دیئے ۔ مرزا ساجد بیگ سپریٹنڈنٹ سینٹرل جیل کی تقریر معلومات کا خزینہ تھی انہوں نے معروف حریت پسند بھگت سنگھ کے میانوالی جیل میں قیام کا حوالہ دیا ۔ 14997287_1144409528975785_1211077610_nشرکائے تقریب نے عدل و انصاف کی معاشرے میں ناگزیر حیثیت نہ صرف واضح کی بلکہ اس سلسلہ میں عدلیہ کے کردار کا احاطہ بھی کیا ۔
عدالتِ عالیہ لاہور کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے لاہور ہائی کورٹ اور عدلیہ کی 150 سالہ تقریبات کے سلسلے میں پنجاب کے تمام اضلاع کی تاریخ کو اُجاگر کرنے کا جو منفرد اقدام اُٹھایا ہے اُس سے تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس سلسلہ میں شاید اپنے فرائض یاد آ جائیں ۔۔ 14958366_1144407165642688_362935771_n
ہمارے علاقہ میانوالی کی یہ بدقسمتی رہی ہے اس کے تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیئے کسی سطح پر بھی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا ۔ اس کی بڑی وجہ مناسب سر پرستی اور رہنمائی کا میسر نہ آنا ہے ۔۔
میانوالی کے ضلع بننے کی سالگرہ بننے کا دن بھی 9 نومبر کو آ رہا ہے ۔ 17 اکتوبر 1901 ء کو انگریز سرکار کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن نمبر 995 کے ذریعے بنوں کی تحصیل میانوالی کو ایک علیحدہ ضلع قرار دینے کے فیصلے پر 9 نومبر1901 ء کو عملدرآمد ہوا ۔ اس نو زائیدہ ضلع میں میانوالی ، عیسیٰ خیل کے ساتھ ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان کے سابقہ ضلع سے دو تحصیلوں بھکر اور لیہ کو بھی شامل کیا گیا تھا ۔ یکم اپریل 1909 ء کو لیہ کو ضلع مظفر گڑھ میں شامل کر دیا گیا جبکہ 80 کی دہائی میں بھکر علیحدہ ضلع بنا دیا گیا ۔
عدلیہ کے انتظامی ڈھانچے کی تفصیل انگریز سرکار کے زیر انتظام شائع شدہ گزیٹیئر آف ڈسٹرکٹ میانوالی 1915 ء میں درج ہے جس کے مطابق ضلع میں عدلیہ کا انچارج ڈسٹرکٹ جج ہوا کرتا تھا جسے ابتدائی طور پر ہر قسم کے مقدمات دیوانی وصول کرنے کا اختیار تھا ۔ان میں مالیت دعویٰ کے مطابق کچھ مقدمات وہ اپنے پاس رکھ لیتا تھا جبکہ باقی دعویٰ جات کو اپنے ماتحت منصف و جج صاحبان کے سپرد کر دیتا تھا ۔ ضلع اور تحصیل کی سطح پر اول ، دوم اور سوم درجوں کے منصف تعینات تھے ۔ ان دنوں دیوانی مقدمہ جات کی تمام تر اپیلیں ڈسٹرکٹ جج کے پاس دائر ہوتی تھیں ۔جو ان اپیلوں کو ڈویژنل جج کو ارسال کرنے کے پابند تھے ۔ موجودہ راجن پور ، ڈیرہ اسماعیل خان ، بنوں ، کرک ، میانوالی ، بھکر ، خوشاب ، سرگودھا اور جھنگ کے لیئے صرف ایک ڈویژنل جج مقرر تھے ۔ جو ڈویژنل جج ڈیرہ جات کہلاتے تھے ۔ شاہ پور میں ان کا کیمپ آفس ہوا کرتا تھا ‘‘۔ 14961395_1144407092309362_572997181_n
میانوالی کی عدلیہ کی معلوم تاریخ کے مطابق ’’1900 ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈسٹرکٹ جج جناب اے بی کیٹول (A.B Kettewell ) تھے۔لیفٹینٹ اے جے او برائن (Lt. S.A.J Oberien )ڈسٹرکٹ جج بنوں تھے ۔ ان دنوں ڈویژنل جج ڈیرہ جات کے منصب پر اے بی برجز (A.B Bridges )تعینات تھے ۔ میانوالی کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو سردار بلونت سنگھ یہاں کے پہلے ڈسٹرکٹ جج مقر ر ہوئے ۔ اس وقت بنوں میں ڈسٹرکٹ جج کے عہدے پر تعینات لیفٹینٹ جنرل اے جے اوبرائن کو کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے کر ڈپٹی کمشنر میانوالی تعینات کر دیا گیا ۔ اُس دور کی خوبصورت منظر کشی کرتے ہوئے ریٹائرڈ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عبد الحمید خان نیازی مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’ جس طرح سردار بلونت سنگھ اپنے مخصوص لباس چوڑی دار پاجامہ ، اچکن اور پگڑی میں ملبوس اپنی ذاتی بگھی پر سوار ہو کر کچہری میں آیا کرتے تھے ۔با الکل اسی طرح اے جے اوبرائن برجس ٹائی بش شرٹ، ٹی شرٹ اور فلیٹ ہیٹ پہن کر دفتر تشریف لایا کرتے تھے ۔اور خاص خیال رکھتے تھے کہ فلیٹ ہیٹ میں مرغابی کا پر ضرور ہو جسے وہ خوش بختی تصور کرتے تھے ۔میانوالی کے ان پہلے ڈپٹی کمشنر نے 9 نومبر 1901 ء کو چارج سنبھالا جو ان کے پاس 9 ۔ اپریل 1905 ء تک رہا ۔ ان کے جانشین ہیری سن (M.H Herrison ) زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے ۔ اس لیئے لیفٹینٹ اے جے او برائن کو 1906 ء میں دوبارہ ایک سال کے لیئے میانوالی میں تعینات کیا گیا ۔ اور پھر تیسری بار اکتوبر1914 ء میں انہیں دوبارہ ڈپٹی کمشنر میانوالی تعینات کیا گیا اس وقت انہیں میجر کا رینک دیا گیا ۔۔۔ای بی کیسول جو قبل ازیں ڈسٹرکٹ جج ڈیرہ اسماعیل خان تعینات تھے وہ بھی اس درمیانی عرصہ میں ایک سال چار ماہ کے لیئے ڈپٹی کمشنر میانوالی کے عہدے پر کام کرتے رہے ۔۔۔‘‘14958794_1144409095642495_653985329_n
ان دنوں ڈسٹرکٹ جج اور ڈپٹی کمشنر کے عہدہ جات ہم پلہ تھے ۔ حافظ عبد الحمید جو میانوالی میں ڈسڈرکٹ جج تھے اور کچھ عرصہ ڈپٹی کمشنر میانوالی بھی رہے ۔قیام پاکستان سے پہلے تحصیل عیسٰی خیل میں قیامِ پاکستان سے پہلے کسی جج کی تعیناتی نہیں ہوئی تھی میانوالی سے جج صاحبان وہاں مقدمات نمٹانے جایا کرتے تھے ۔ گزیٹئر آف میانوالی میں منصف صاحبان کی تعیناتی کا ذکر ملتا ہے ۔ 1899 میں ٹینڈر(Tender ) میانوالی میں بطور منصف درجہ اول تعینات تھے ۔ ان کے تبادلے پر سردار محمد یوسف خان کو 1900 ء میں منصف درجہ اول میانوالی تعینات کیا گیا تھا ۔ میانوالی کو ضلع کا درجہ دینے کے بعد پیر قمر الدین اور سردار نہال سنگھ کو منصف درجہ اول مقرر کیا گیا۔ علاوہ ازیں پنڈت کنول لال منصف درجہ دوم ۔ لالہ گیلا رام کو کو منصف درجہ سوم تعینات کرتے ہوئے دیوانی مقدمات سونپے گئے تھے ۔ ان دنوں جی ایم وینٹ (G.M Vent ) اسسٹنٹ کمشنر میانوالی کو منصف درجہ دوئم اور لالہ گھیسو رام تحصیلدار میانوالی کو منصف درجہ سوم کے اختیارات بھی تفویض تھے ۔ اسی طرح سردار مسعود کو1901 ء میں منصف درجہ اول اور لالہ بھوجن رام کو منصف درجہ سوئم ان کی مدد کے لیئے مقرر کیا گیا ۔
عبد الحمید خان نیازی ایڈوکیٹ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اے برجز ڈویژنل جج ڈیرہ جات شاہ پور کے تبادلہ پر ان کی جگہ خان بہادر عبد الغفور کو بطور ڈویژنل جج شاہ پور تعینات کیا گیا تھا ۔منصف صاحبان کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے اپیلوں کی تعداد بڑھنے لگی جس پر ڈبلیو ای ای ریناؤف (W.E.Renauf ) کو بطور ایڈیشنل ڈویژنل جج شاہ پور بمقام جھنگ تعینات کیا گیا بعد ازاں رائے بہادر چونی لال کو 1913 ء میں ایڈیشنل ڈویژنل اینڈ سیشن جج میانوالی تعینات کیا گیا ۔ ان کے جانشینوں میں خان بہادر عبد الغفور خان آف زائدہ ، خان بہادر خواجہ تصدق وغیرہ تھے ۔ 1915-16 میں ڈویژنل جج کا ہیڈ کوارٹر شاہ پور کی بجائے سرگودھا کو بنا دیا گیا تھا ۔
ضلع میانوالی کو یہ افتخار حاصل ہے کہ یہاں پر عدلیہ کے تاریخ ساز افسران تعینات رہے ۔ جناب جسٹس ایم آر کیانی بطور ڈویژنل میجسٹریٹ بھکر تعینات ہوئے ۔ جناب جسٹس فضل کریم بھی بطور سول جج بھکر تعینات رہے ۔ جناب جسٹس ایس اے رحمان ، جناب جسٹس اے ایل فلچر ، جناب جسٹس اختر حسین ملک ، جناب جسٹس خواجہ احمد پال اور جناب جسٹس محمد امیر ملک بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تعینات رہے ۔ جبکہ جناب جسٹس میاں غلام احمد ملک بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ، جناب جسٹس محمد الیاس ، جناب جسٹس عبد اللہ خان اور جناب جسٹس محمد خورشید خان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا ہ سے تھا ۔
میانوالی کی بار بھی ابتداء سے ہی قابل اور نامور وکلاء پر مشتمل رہی ہے ۔ 1901 ء میں میانوالی کے ضلع بننے کے وقت عدالت ہائے اپیل میں میانوالی کی جانب سے صرف تین وکلاء سائیں داس ایڈوکیٹ ، بیرسٹر ، لالہ بھاگو رام پلیڈر اور لالہ بھواں داس پلیڈر پیش ہوا کرتے تھے ۔ بعد میں فوجداری مقدمات کی پیروی کے لیئے محمد خان سنبل ایڈوکیٹ کا نام بھی سامنے آیا ۔ محمد خان سنبل علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے اور مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی کے کالج فیلو بھی تھے ۔
1910ء کے بعد میانوالی میں وکلاء کی تعداد بتدریج بڑھنا شروع ہوئی ۔ 1935 ء میں میانوالی بار کے وکلاء کی تعدا د 37 تھی ۔ 1938 ء میں بار ممبران کی تعداد 38 ، 1944 ء میں 44 ، 1945 ء میں 35 اور پھر 1946 ء میں یہ تعداد 19 رہ گئی تھی۔ 14961370_1144408302309241_1626053978_n
میانوالی سے تعلق رکھے والے بہت سے لوگوں نے عدلیہ میں بطور منصف اپنی خدمات انجام دیں ۔ اس وقت بھی جناب جسٹس علی باقر نجفی عدالت عالیہ لاہور کے منصف کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ متعدد ایڈیشنل اور سیشن جج میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں ۔عدلیہ کی تاریخ ایک مکمل اور بھر پور موضوع ہے جس کا احاطہ ایک کالم میں نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ سلسلہ جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی ۔۔ رب زدنی علما

Back to top button