” نام میں کیا رکھا ہے ” تحریر . زنیرہ ثاقب
” نام میں کیا رکھا ہے ” تحریر . زنیرا ثاقب
میرا نام ربیع مسیح ہے میری عمر آٹھ سال ہے۔ میں دوسری کلاس میں پڑھتی ہوں۔ تھی۔ میرا ہاتھ میں ایک سوراخ ہے شاید اس سے کچھ گزر گیا ہے۔ کوئی بال بیرنگ یا کوئی چھرا۔ لیکن ابھی اس میں جان ہے اس لئے درد کا احساس ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ آہستہ آھستہ ڈھلکتا ہے۔ اب تو وہ ہاتھ نہیں۔ وہ تو بس ایک گوشت کا لو تھڑا ہے۔ میرے آنکھیں یہ سب دیکھتی ہیں۔ میں دیکھتی ہوں۔ کہ سب گوشت کے لوتھڑے ہیں۔ اماں نے بتایا تھا کہ ہم سب کا خون سرخ ہے اندر سے ہم سب ایک ہیں . ماں سچ کہتی تھی ۔ لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ جب خون اور گوشت مل جاتا ہے تو باہر سے بھی سب اک جیسے لگنے لگتے ہیں۔
میرا نام کرن جان ہے۔ میرا جسم آھستہ آھستہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میرے کوکھ میں جو جان ہے وہ باہر اآنے کو تڑپتی ہے۔ شاید اس کو سمجھ نہیں آتی کہ یک دم اس کی پناہ گاہ چھلنی کیسے ہو گئی؟ اتنی گرمی کیوں بڑھ گئ ہے اور وہ محفوظ جگہ آگ کی طرح جلتی کیوں ہے؟ میرے ہاتھ میں کتاب ہے۔ شاید وہ بائبل ہے۔ اس میں لکھا ہے سب انسان برابر ہیں۔ میرا نام؟ میرا نام تو ابھی کسی نے رکھا نہیں کیوں کہ میں ابھی پیدا نہیں ہوا ۔ اگر میری پناہ گاہ میں اتنے سوراخ نہ ہو جاتے تو شاید میں آسانی سے سانس لیتا اور چار دن بعد میں اس دنیا میں آنکھ کھولتا. سوچتا ہوں کہ ایسا تو میرے بنانے والے نے میرے لئے نہیں چاہا ہو گا؟ بغیر پیدا ہوے میں آگ میں جلتا ہوں۔ میری ماں مجھے بچانے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ تو خود آھستہ آھستہ ختم ہونے کو ہے۔ اور اس کے ساتھ میں بھی آنکھیں موند لیتا ہوں۔ باہر سے آہ و بکا سنائی دیتی ہے۔ میں خوش ہوں کہ میں اس کو نہیں دیکھتا۔
میرا نام آدرش لال ہے۔ آج ہولی نہیں ہے لیکن ہر طرف لال رنگ پھیلا ہے ۔ اس میں میرا لال رنگ بھی شامل ہے۔ وہ جو میرے جسم میں پیوست چاقو سے نکلتا ہے ۔ مجھے لال رنگ سے اپنی بیٹی پریہ یاد آتی ہے۔ وہ جس کی شادی پچھلے مہینے اغوا کے بعد زبردستی انھوں نے کردی۔ وہ کہتے تھے اس میں ہی تم لوگوں کی فلاح ہے۔ اس کا لال رنگ کا لہنگا۔ اور چاقو سے لگا میرا لال ہولی کا رنگ، دونوں ایک جیسے لگتے ہیں۔
میرا نام ضیاء خان ہے۔ میں ایک مسلمان ہوں۔ فرقہ یاد نہیں۔ ابّو نے کہا تھا کہ ہم بس مسلمان ہیں کسی فرقے سے نہیں۔ انہوں نے مسجد میں مارنے سے پہلے پوچھا نہیں کہ کون کون یہاں مسلمان ہے؟ کس فرقے سے تعلق ہے؟وہ جمعے کی نماز کے وقت اندر آیا۔ اس کی آنکھیں خالی تھیں۔ بلکل خالی جیسے اس کی روح نہ ہو۔ بس ایسے جیسے چلتی پھرتی لاش ہو ۔ وہ بس ایک مشین جیسا تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ دیکھا وہ ایک دھاگے کو کھینچ رہا تھا۔ اور پھر سب کچھ رک گیا۔ بہت آھستہ آھستہ۔ اس کا جسم سینکڑوں ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ ہر طرف لال رنگ کے چھینٹے اڑتے تھے لیکن اس کی آنکھیں۔ ان میں کوئی رنگ نہ اترا۔ وہ تو خالی ہی رہیں۔ ایسے جیسے اس کو کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ سترہ یا اٹھارہ برس کے بچے کو ویسے بھی کیا معلوم ہوتا ہے۔
اور اب میں۔ میں تو۔ میرا نام۔ میرا نام شاید شرمندگی ہے۔ میری گردن شرم سے جھکی ہے ۔ میری آنکھیں زمین میں گڑی ہیں۔ نہیں میں وہ نہیں جس نے ان سب کو مارا۔ میں تو وہ ہوں جو اپنے گھر میں بیٹھ کر ان سب کی کہانی سنتا ہے، سناتا ہے، دکھی ہوتا ہے۔ کچھ دن تک رات کو ٹھیک سے نیند نہیں آتی۔ اور بس۔ پھر میں آگے چلتا ہوں۔ کیونکہ مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔ نہیں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کل میری باری ہے۔ کیوں کے آج میں خاموش ہوں۔ میرا نام ۔ میرا نام قاتل ہے اور میں آئینےمیں رہتا ہوں۔