یادیں اور یادگاریں

شہباز تاثیر نے طالبان کے "حسنِ سلوک ” کی کہانی بی بی سی کو بیان کر دی

شہباز تاثیر نے طالبان کے "حسنِ سلوک ” کی کہانی بی بی سی کو بیان کر دی
سلمان تاثیر کے صاحب زادے شہباز تاثیر نے اپنی بازیابی کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی نوشین عباس کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے اغوا کاروں نے ان پر بہیمانہ ظلم کیے اور اذیتیں دیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی رہائی ازبک اور افغان طالبان میں گروہی اختلاف کے بعد ممکن ہو سکی۔
شہباز تاثیر نے بتایا ہے کہ “انھوں نے مجھے شروع میں کوڑے مارنے شروع کیے۔ تین چار دنوں میں انھوں نے مجھے پانچ سو سے زیادہ کوڑے مارے۔ اس کے بعد میری کمر بلیڈوں سے کاٹی۔ پلاس (زمبور) لے کے میری کمر سے گوشت نکالا۔ پھر میرے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن نکالے۔ مجھے زمین میں دبا دیا، ایک دفعہ سات دن کے لیےاور ایک دفعہ تین دن کے لیے۔ پھر مزید تین دن کے لیے۔ جب انھوں نے میرا گوشت جسم سے کاٹا تھا تو ایک ہفتہ خون بہتا رہا اور زخم بند نہیں ہو رہا تھا۔ وہ مجھ سے بینک اکاؤنٹ مانگتے رہتے تھے۔ ان میں رحم نہیں تھا۔
’وہ مجھے بھوکا رکھتے تھے۔ میرے پہرے داروں کا رویہ بہت برا تھا۔ انھوں نے میرا منہ سوئی دھاگے سے سی دیا۔ انھوں نے مجھے سات دن یا شاید دس دن کھانا نہیں دیا۔ مجھے صحیح طرح یاد نہیں کہ کتنے دن۔ مجھے ٹانگ پر گولی ماری گئی۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ وہ میری ہڈی کو نہیں لگی اور نکل گئی۔
’میرے منہ پر شہد کی مکھیاں بٹھائیں تاکہ میرے خاندان والوں کو دکھا سکیں کہ میری شکل بگڑ گئی ہے۔ مجھے ملیریا ہو گیا لیکن مجھے دوائی نہیں دی گئی۔ مجھے کہتے تھے کہ ہمیں بینک اکاؤنٹ دو۔ وہ فلم بنانے کے لیے اذیت دیتے تھے۔ مجھے ایک دن پہلے ہی کہتے تھے کہ تیاری کرو کل یہ ہو گا۔ میں ان سے کہتا کہ کون سی تیاری کروں، کیسے تیاری کرتے ہیں۔ مجھے کہتے کہ کل تمہارے ناخن نکالیں گے۔
شہباز تاثیر کہتے ہیں کہ ’میں صرف ایک گروپ کے ساتھ تھا اور وہ تھا اسلامک وومنٹ آف ازبکستان۔ میں صرف ایک گروپ کے پاس ہی رہا اس وقت تک جب افغانی طالبان اور ازبک گروپ کی بیعت کے اوپر لڑائی نہ ہوئی۔ اور وہ اس لیے کہ ازبکوں نے فیصلہ کیا کہ وہ داعش کے ساتھ جائیں گے کیونکہ ان کی نظر میں وہ صحیح خلافت تھی اور افغان طالبان کی صحیح نہیں تھی۔ تب میں افغان طالبان کے ہاتھوں میں آ گیا۔ مگر وہ خود بھی نہیں جانتے تھے کہ میں کون ہوں۔ میں نے انھیں کتنی بار کہا کہ میں ازبکی نہیں ہوں۔ وہ کہتے کہ میں ازبکی ہوں، میں نے ان کے ساتھ جنگ کی تھی اور اس لیے پکڑا گیا تھا۔ اس لیے مجھے جیل میں پھینکو۔ تو گروپ تو ان کے درمیان جنگ سے پہلے ایک ہی تھا۔ دوسرا تو اس وقت تبدیل ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے میں الحمد اللہ آزاد بھی ہوا۔
’مجھے لاہور سے میر علی لے کر گئے جو وزیرستان میں ہے اور میر علی سے مجھے ہر مہینے منتقل کرتے رہتے تھے۔ میں میر علی میں 2014 کی جون تک تھا جب انھی ازبکیوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا۔ انھیں پہلے سے پتہ تھا کہ حکومت اور فوج کی طرف کیا ردِ عمل آئے گا اس لیے انھوں نے مجھے شوال منتقل کر دیا جس کا راستہ شاید دتہ خیل سے جاتا ہے۔ ادھر میں فروری 2015 تک تھا۔ اس کے بعد مجھے گومل کے راستے افغانستان کے علاقے زابل لے جایا گیا۔ وہ جگہیں بدلتے رہتے تھے۔ کہیں ایک مہینہ کہیں دو مہینے۔ ایک مرتبہ ڈرون حملوں کی وجہ سے میں ڈیڑھ سال تک ایک خاندان کے ساتھ رہا۔ کسی کو پتہ نہیں کہ میں کون ہوں اور شاید افواہ بھی اڑی تھی کہ شہباز تاثیر ڈرون حملے میں مر چکا ہے۔ لیکن الحمد اللہ میں بچ گیا تھا۔
میں ایک ڈرون حملے کی زد میں موجود تھا، اس وقت القاعدہ کے ایک سینیئر کمانڈر ابو یحییٰ اللبی کو ڈرون حملے میں مارا گیا۔ مجھے تو بہت بعد میں پتہ چلا۔ میں اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے کمرے میں تھا۔ جب ڈرون حملہ ہوا تو چھت اور دیوارمیرے اوپر گری، لوگ آئے انھوں نے مجھے دیکھا۔ میں ملبے میں دبا تھا، مٹی میں اٹا ہوا تھا لیکن میرا دم گھٹا اور مجھے کھانسی آ گئی۔ ایک ازبکی نے مجھے دیکھا اور کہا کہ ان لاشوں کو ایک گاڑی میں ڈال دو۔ اس طرح اس نے مجھے دنیا سے بھی چھپا دیا۔ میں اتنا زیادہ زخمی تھا کہ دو مہینے تک چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے مجھے سب بتایا کہ تمہارے ساتھ ابو یحییٰ اللبی تھا، وہ جب مرا تو وہ زیرِ زمین کمرے میں تھا
اپنی آزادی کے بارے میں شہباز تاثیر نے بتایا کہ “ازبکیوں کی بیعت تھی افغان طالبان کے ساتھ۔ جب یہ اعلان ہو گیا کہ ملا محمد عمر کی وفات ہو چکی ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ افغانی طالبان کی کوئی جائز حیثیت نہیں رہی۔ خلافت کا اعلان شام اور عراق میں ہو چکا ہے، ابو بکر البغدادی خلیفہ ہے، امیر ہے ہم اس کی بیعت لیں گے۔ اس پر ان میں تنازع ہوا۔ افغان طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ امیر المومنین صرف افغان طالبان میں سے ہو سکتا ہے اور اسے پٹھان ہونا چاہیے، پشتون۔ اس کے علاوہ ان کے لیے سب کچھ ناقابلِ قبول ہے۔ جب ازبکیوں نے ان کی قانونی حیثیت پر اعتراض کیا تو انھوں نے انھیں ختم کیا، پورے گروپ کو ختم کیا، پوری قیادت کو ختم کیا۔ تین دن وہاں صرف موت تھی۔ مجھے وہاں سے بھاگنے کا موقع ملا اور میں بھاگ گیا۔ مجھے پہاڑ پر چڑھتے ہوئے افغان طالبان نے پکڑ لیا، وہ سمجھے کہ میں ازبک ہوں۔ وہ مجھے مارتے ہوئے نیچے لے آئے۔ مجھے دوسرے ازبکوں کے ساتھ قیدی بنا کر ساتھ بٹھایا۔ پھر ایک گاؤں میں بھیجا گیا جہاں قاضی آئے اور انھوں نے سزائیں سنائیں۔ اور ہمیں چھ مہینے سے دو سال تک کی سزائیں سنائی گئیں اور ایک افغان جیل میں بھیجا گیا۔ ادھر مجھے ایک افغانی طالبان ملا۔ اس نے میری مدد کی۔ اس میں تھوڑا وقت لگا۔ دو تین مہینے۔ لیکن اس نے میرے لیے ایک راستہ کھولا، جس کی وجہ سے میں اس جیل سے نکلا۔ اور افغانستان سے کچلاک موٹر سائیکل پر آیا۔ اس میں مجھے آٹھ دن لگے۔ مجھے 29 فروری کو رہا کیا گیا اور آٹھ مارچ کو میں نے گھر فون کر کے کہا تھا کہ میں آ گیا ہوں۔ مجھے یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ کوئی چال ہے یا انھیں پتہ نہیں ہے کہ میں کون ہوں اور اپنی آزادی کی طرف جا رہا ہوں۔ بہت کشمکمش تھی۔‘
واضح رہے کہ سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو 26 اگست 2011 کو لاہور سے اغوا کیا گیا تھا اور تقریباً ساڑھے چار سال بعد آٹھ مارچ 2016 کو ان کی رہائی عمل میں آئی۔

Back to top button