عالمی اُفق

کیا برطانیہ خوش رہ پائے گا۔۔۔۔۔؟؟؟ تحریر : جویریہ خان

کیا برطانیہ خوش رہ پائے گا۔۔۔۔۔؟؟؟
تحریر : جویریہ خان
اب جبکہ ماہ جون اپنے اختتامیے کی جانب رواں دواں ہے،،،ایسے میں برطانیہ کی عوام ایک انتہائی تاریخ ساز فیصلہ کر چکی ہے۔۔۔گزشتہ ہفتے برطانیہ میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں عوام نے یورپین یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں ۔۔
مزید بات کرنے سے پہلے میرا خیال ہے اس سوال کا مفصل جواب دینا ناگزیر ہوگا کہ یورپی یونین ہے کیا؟؟
یہ دوسری جنگ عظیم کے پانچ سال بعد کا ذکر ہے جب جرمنی اور فرانس نے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک معاہدہ کیا کہ یہ دونوں ممالک کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہیں چھیڑیں گے۔۔ظالمانہ جنگ کے خوفناک تجربے سے دنیا بری طرح دوچار ہو چکی تھی۔۔ سو دیکھتے ہے دیکھتے یورپ کے دوسرے ممالک بھی اس معاہدے کا تیزی سے حصہ بننے لگے۔۔
اس تنظیم کا مقبول ہونا ہی تھا کہ پھر اس نے اپنے مقاصد بھی وسیع کرنے شروع کر دیئے۔۔ یہاں تک کے سنہ ۱۹۵۰میں چھے ممالک نے یہ معاہدہ کیا کہ وہ اپنے اسٹیل اور کوئلے کے ذخائر کو مشترکہ مقاصد کے لیئے استعمال کریں گے۔۔سات سال بعد روم میں ایک معاہدے کے تحت ای ای سی (یورپین اکنامک کمیو نٹی) کی تخلیق ہوئی۔۔جو آج کی یورپین یونین کہلاتی ہے۔۔۱۹۷۳ میں برطانیہ اس یونین کا حصہ بننے والا تیسرا نیا ملک تھا۔۔اور آج اس تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد ۲۸ ہے۔۔جن کی مجموعی آبادی ۵۰۰ سے ذیادہ ہے۔۔۔
زیل میں ان ممالک کے نام ہیں جو مختلف اوقات میں اس یونین میں آن شامل ہوئے۔۔
جرمنی،فرانس ،لکسمبورگ، اٹلی،بیلجئم،نیدرلینڈ ۱۹۵۷
برطانیہ، آئرلینڈ، ڈنمارک۔۔ ۱۹۷۳
یونان ۱۹۸۱
پرتگال، اسپین ۱۹۸۶
آسٹریا،فن لینڈ،سویڈن ۱۹۹۵
ایسٹونیا،لاٹویا،لتھونیا،پولینڈ،چیک ریپبلک،سلواکیا،، ۲۰۰۴
ہنگری،سلوینیا،سائپرس،مالٹا ۲۰۰۴
رومانیہ، بلگیریا ۲۰۰۷
کروٹیا ۲۰۱۳
سب سے بڑی تعداد ۲۰۰۳میں دیکھنے میں آئی جب دس ممالک نے یونین کو سائن کیا۔۔یونین چلانے کے لےئے چار ادارے کام کرتے ہیں،، یورپین کمیشن، یورپین پارلیمنٹ، یورپین کونسل اور کورٹ آف جسٹس۔۔ہر رکن ملک یونین کو سالانہ مختص رقم دیتا ہے بدلے میں یونین انکے کام کرتی ہے۔۔
ہم اپنے موضوع کی طرف دوبارہ آتے ہیں۔۔برطانیہ سالانہ ساڑھے آٹھ بلین روپے ادا کرتا ہے۔۔ریفرینڈم کی بنیاد یہی بات تھی کی عوام یونین سے آزادی چاہتی ہے۔۔اسکے علاوہ یونین کی طرف سے پیٹرول پر پانچ پاؤنڈ اضافی ٹیکس سے بھی۔۔ووٹ دینے والوں میں ۵۲ فیصد علیحدگی کے جبکہ ۴۸ فیصد یونین میں ہے رہنا چاہتے تھے۔۔بہرحال ووٹوں کی برتری کی وجہ سے علیحدگی کی بات چل پڑی ہے۔۔جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔۔کیونکہ برطانیہ یونین کا اہم رکن تھا۔۔اور الگ ہونے کا نام لینے والا بھی پہلا ملک ہے۔۔عوام کے یس فیصلے کو بعض جگہ سراہا گیا جبکہ بعض جگہ دکھ کے ساتھ سنا گیا۔۔فن لینڈ کے سابق وزیر اعظم الیگزینڈر اسٹوب نے کہا۔۔
’’کوئی انہیں نیند سے جگا کریہ کہے کہ یہ ایک
ڈراؤنا خواب تھا۔۔۔۔!!!‘‘
دوسری جانب ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے اس فیصلے کو سراہا اور کہاکہ۔۔
’’اب وقت آگیا ہے کہ یونین اپنی عادتیں ٹھیک کرے
ورنہ باقی ملکوں کے لیئے بھی اسے چھوڑنا ناگزیر ہو جائے گا۔۔‘‘
میرے سامنے ایک تصویر رکھی ہے جس میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور یورپی یونین کے صدر ایک دوسرے کی طرف پشت کر کے اپنی ا پنی راہوں کو جا رہے ہیں۔۔اگرچہ ڈیوڈ کیمرون یونین میں رہنے کے حق میں تھے مگر نتائج کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے برطانوی عوام کا احترام کیا ہے اسکے ساتھ ہی انہوں نے اپنا عہدہ بھی چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔۔تا دم تحریر یہ خبر بھی سرخیوں میں ہے کہ لندن کی عوام ریفرنڈم دوبارہ کروانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ذاتی طور پر یوں لگتا ہے جیسے برطانیہ اب پھنس چکا ہے۔۔۔مبصریں کے مطابق یونین سے علیحدگی بہت چیلنجز بھی لے کر آئے گی۔۔عوام کو بہت سے اضافی ٹیکسز بھی برداشت کرنے ہونگے۔۔تو کیا اس صورت برطانیہ خوش رہ پائے گا؟؟میرا خیال ہے یورپی یونین کے ساتھ ہی برطانیہ کی بہاریں تھیں۔۔

Back to top button