عالمی اُفق

کشمیر اور ’’فضلیات ‘‘

حدِ ادب
انوار حسین حقی

کشمیر اور ’’فضلیات ‘‘
________________
ایسے وقت میں جب کشمیریوں کی جد وجہد آزادی ایک حساس دور میں داخل ہو رہی ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جنگ کی سرحدوں کو چھو رہی ہے ۔ قوم کی جانب سے اتحاد و یک جہتی اور آزادی کے لیئے بے مثال قربانیوں کی داستانِِ خونچکاں رقم کرنے والوں کی پشتیبانی جرات مندانہ انداز میں کرنے کا تقاضا درپیش ہے ۔ اس موقع پر قومی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن کی جانب سے کشمیریوں اور فاٹا کے بارے میں متازعہ بیان نے قوم کے سنجیدہ و فہمیدہ حلقوں کو چکر ا کر رکھ دیا ہے ۔ اس صورتحال نے قوم کے ایک جہاندیدہ طبقے کے اُن خدشات کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے جن کی بنیاد پر وہ مولانا فضل الرحمٰن کو کشمیر کمیٹی کا چیئر مین بنائے جانے پر دل گرفتہ اور پریشان نظر آئے تھے ۔
مولانا فضل الرحمن پاکستان کی روایتی سیاست کا سمبل ہیں۔ ان کے چاہنے والے انہیں عالمِ دین ہی نہیں بلکہ متاعِ عظیم بھی سمجھتے ہیں اور ان کے ذریعے اسلامی انقلاب کی آمد کی اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔ ڈاکٹر شیر افگن نیازی مرحوم کی تعزیت کے موقع پرمیانوالی میں اپنے ساتھ ہونے والی گفتگو کے دوران اِس بطلِ جلیل کی یہ بات سن کر میں تھوڑی دیر کے لیئے حیران ہوا تھا کہ ’’ میں ایک سیاست دان ہوں اور سیاست کرتا ہوں۔ اگر مجھے دینی خدمت کرنا ہوتی تو میں تبلیغی جماعت میں شامل ہو جاتا یاکوئی مسجد سنبھال لیتا۔ ‘‘
جلالِ بادشاہی ہو یا جمہوری تماشا
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبالؒ کا یہ شعر ممجھے بر وقت یاد آیا مگر میں دوہرانے سے اس لیئے باز رہا کہ مولانا کے مذکورہ الفاظ کو اگر ان کے عمل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو تفاوت یا تضاد باالکل نظر نہیں آتا۔دینِ متین کے نام پر انہوں نے جس قسم کی سیاست کی وہ سب کے سامنے ہے۔ تھوڑی سی حیرانگی اسلیئے ہوئی تھی کہ چاہنے والے ان کے نام کے ساتھ مولانا لکھتے ہیں اور لباس اور قطع وضع سے وہ دکھائی بھی دیتے ہیں تو پھر یہ سیاست اور دین کے درمیاں حد بندی کیوں کر رہے ہیں ۔
کشمیر کے بارے میں مولانا فضل الرحمن نے جو تازہ ترین ارشاداتِ عالیہ قوم کو مرحمت فرمائے ہیں وہ نئے نہیں ہیں ۔ کچھ سال پہلے مولانا فضل الرحمن اور حافظ حسین احمد نے اپنے دورہ بھارت کے دوران ایسے ہی بھاشن دیئے تھے ۔
ماضی کے جھرونکوں سے سولہ سال پہلے کی ایک یاد شہادت بن کر سامنے آئی اور مجھے پشاور کے واپڈا ٹاؤن کے پہلو میں ’’تاروجبہ‘‘ کے مقام پر عالمی دیوبند کانفرنس کے مناظر یاد آنے لگے۔ لاکھوں کے اجتماع میں سب سے چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ ہرں طرف مولانا مفتی محمود ؒ کے حوالے سے بینر آویزاں تھے جن پر لکھا ہوا تھا کہ ’’ہم بچے بچے کے ذہن میں امریکہ دشمنی بھر دیں گے ‘‘ یہاں امریکی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کی ایک طویل فہرست بھی تقسیم کی جاتی رہی جن کے بائیکاٹ کی عوام الناس کو ہدایت کی گئی تھی۔ عالمی دیوبند کانفرنس ( منعقدہ 2001ء ) کے ڈیڑھ سے دو لاکھ کے قریب شرکاء جو درس یا پیغام لے کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹے تھے ۔اس نے ہمارے سماج کو جن مشکلات سے دوچار کیا وہ کہانی پھر سہی لیکن اس پیغام کے داعی اور امریکہ دشمنی کو اپنی سیاست کا دیباچہ قرار دینے والے مولانا فضل الرحمن کا عمل اس حوالے سے کیا کہتا ہے اس کے لئے ’’وکی لیکس‘‘ کے مندرجات کا مطالعہ بہت کافی ہے۔
اس اجتماع کی بہت سی تلخ یادوں میں جمیعت العلمائے ہند کے رہنماؤں کی طرف سے کشمیر کے جہاد کی مخالفت اب بھی یادداشت کے شہر کواضطراب سے دوچار کرتی ہے۔ یہاں پر مولانا سید اسعد مدنی ( امیر جمیعت علمائے ہند ) ، مولانا مرغوب الرحمن ( مہتمم دارلعلوم دیوبند ) ، مولانا عبد الحق اعظمی ( شیخ الحدیث دارلعلوم دیوبند ) ، مولانا قمر الدین ( مدیر ماہنامہ دارلعلوم دیو بند )سمیت دارلعلوم کے جید علماء جن میں مولانا حبیب الرحمن ، سید سلیمان ، مولانا امین پالنپوری ، مولانا محمد یوسف ، مفتی شبیر احمد ، مولانا شاہ عالم ، قاری محمد عثمان ، عبد الحق اعظمی اور دارلعلوم کے ترجمان اعجاز ارشد کاظمی شامل تھے ۔ ان سب سے ملاقات اور گفتگو میں کشمیر ہمارا موضوع رہا ۔ ان زعماء میں سے اکثریت کشمیر کے حوالے سے سوال پر یہی کہتی تھی کہ کشمیر میں تحریک چل رہی ہے وقت آئے گا تو ان کا نقطہ نظر دیکھیں گے ۔ ان سب کا اس پر بھی اتفاق تھا کہ ’’ ہندوستان میں مسلمان برابر کے شہری ہیں ، وہاں مسلمانوں کو کسی خاص قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں ، ہندوستان میں مسلما

Back to top button