جناب عنایت عادل کی تجزیاتی رپورٹ … کہاں تک سُنو گے ؟؟؟؟؟؟
کہاں تک سنو گے۔۔۔؟؟؟
عنایت عادل
میرے نزدیک یہ اعلان ہی مضحکہ خیز تھا کہ جب پانامہ لیکس کی بدولت پڑنے والے دباؤ کے جواب میں وفاقی حکومت پر براجمان جماعت کی جانب سے ’’عوامی رابطوں‘‘ کے نام سے جلسے جلوسوں کے انعقاد کا فیصلہ سنایا گیا۔پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سرکاری ٹی وی پر پے درپے خطابات اور اس کے بعد اعلان کردہ عوامی اجتماعات کو ’’خود کو عوام کے سامنے احتساب ‘‘ کے لئے پیش کرنے کا نام بھی دے دیا گیا۔گویا اربوں کھربوں کے معاملات کی گتھیاں سلجھانے کے لئے کسی فرانزک آڈیٹر، کسی ماہر معاشیات، کسی بنکار یا کسی تحقیقاتی ادارے کا بوجھ پالنے کی چنداں ضرورت نہیں، بس چند ہزارکا نعرہ باز ہجوم اور دائیں بائیں اپنے ہی قبیل کے کچھ جذباتی تقاریر کے ماہر دفاعی سے زیادہ الزام کے جواب میں الزام لگانے کی مہارت میں یکتا مقررین ہونے چاہئیں، لگتے الزامات کا صفایا اور عوامی عدالت میں سرخرو ہونے کا پرچار۔۔کہانی ختم۔
وزیراعظم نوازشریف نے ایک ماہ کے دوران 28 مارچ سے 22 اپریل 2016 تک تین بار قوم سے خطاب کرکے اپنے خطابوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی۔وزیر اعظم صاحب اپنے ان خطابات میں اپنی اور اپنے بچوں کی صفائیاں پیش کرتے رہے ور کہا کہ انہیں پاکستان کے باشعور عوام نے منتخب کیا ہے وہ اللہ کے بعد صرف اور صرف پاکستان کے عوام کو جوابدہ ہیں۔درست فرمایالیکن اگر کسی الزام کی صفائی اسی طرح ہی دی جانی مقصود ہے تو پھر ملک میں عدالتیں کیوں لگتی ہیں؟ تھانوں میں ایف آئی آرز کیوں درج ہوتی ہیں؟ ملزم سے سچ اگلوانے کی خاطر تھرڈ ڈگری کیوں کر لاگو کی جاتی ہے؟ صوبائی اور وفاقی تحقیقاتی اداروں کا بوجھ اس قوم پر کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ اس کا جواب یہی دیا جا سکتا ہے کہ یہ سب صرف چھوٹے ملزمان کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ یہاں لفظ ملزم استعمال کیا جا رہا ہے اور ملزم کی تشریح وہی ہے کہ جس الزام ہو۔۔ ملزم سے مجرم تک کا سفر اس وقت مکمل ہوتا ہے کہ جب لگائے جانے والے الزام ثابت ہو جائیں ، وگرنہ باعزت برائت کا اعزاز سامنے آ جاتا ہے۔لیکن، ہمارے ہاں بڑے ملزم، اس قسم کے جھمیلوں میں پڑنے کے بجائے ، سیدھا عوام سے رجوع کرنے کے عادی ہیں ، لہٰذا، سرے محل کی کہانی ہو، ترکی کے ہار کے تحفے کی داستاں ہو، سوئس بنکوں میں اربوں روپے کے اکاؤنٹس کا معاملہ ہو، وکی لیکس یا پانامہ لیکس کے انکشافات ہوں ، شوکت خانم کے فنڈز پر اٹھتے سوالات ہوں، بینکوں کے قرض ہڑپ کرنے کے الزامات ہوں یا کہ قبضہ مافیا کی سرپرستی کی تہمت ہو، ہمارے ہاں کے دراز قد ملزمان کو یا تو آئینی استثنیٰ حاصل ہوتا ہے اور یا پھر ان الزامات کو دھونے کا فریضہ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔البتہ اس مرتبہ خود پر لگتے الزامات کو پس منظر سے غائب کرنے کی کوشش دو طرح سے کرنے کا نیا انداز سامنے آ چکا ہے۔ ایک طرف تو الزامات کے جواب کے بجائے جوابی الزامات کی بارش کا روائتی طریقہ زوروں پر ہے تو دوسری جانب ایک دم سے حکومتی’’ نوازشات ‘‘کا’’فضل‘‘ بھی خوب جوشیلے انداز میں برستا محسوس ہو رہا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی بحث کو مضمون کے آخری حصے میں سمونے کی کوشش کی جائے گی ذرا پہلے ایک منتخب وزیراعظم کے ٹیلی وژن خطابات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔جیسا کہ عرض ہو چکا کہ محترم وزیر اعظم نے محض ایک ماہ میں قوم کو تین مرتبہ مخاطب کرنے کا اقدام اٹھایا لیکن ہم انہی وزیر اعظم کوحالیہ تین سالہ دور اقتدار میں اسمبلی فورم پر کتنی مرتبہ جلوہ افروز ہوتے دیکھ چکے ہیں اس کا جواب شاید ہی کسی حکومتی نمائندے کے پاس موجود ہو۔ اس ملک میں اے پی ایس پشاور جیسا سانحہ سامنے آیا، کراچی میں کئی ہزار افراد گرمی سے لقمہ اجل بن گئے،قصور میں درجنوں بچوں کو جنسی درندوں نے بھنبھوڑ کر رکھ دیا، ملک کے مختلف شہروں، جس میں خود نون لیگ کا قلعہ لاہور بھی شامل ہے، میں دہشت گردی کے کئی ایک واقعات ہوئے،بھارتی خفیہ ایجنسی کا حاضر سروس آفیسر پکڑا گیا، تھر میں بھوک کی بدولت ہزاروں بچے ایڑیا ں رگڑ رگڑ کر اللہ کو پیارے ہو گئے لیکن ان تمام واقعات میں کسی حسین نواز، مریم نواز، حسین نواز ، حمزہ شہباز کا ذکر نہیں تھا لہٰذا، میاں نواز شریف صاحب نے قوم کے ان دکھوں پر اظہار یکجہتی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔خود میاں نواز شریف کی جماعت کے اکابرین پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا الزام ہے لیکن اس پر بھی میاں صاحب نے خود کو اس انداز میں معصوم ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کہ جس کا نظارہ ہم ان کے گزشتہ تین خطابات میں کر چکے ہیں۔
پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے کی جانب سے افشا ہونے والی ایک کروڑ دس لاکھ دستاویزات میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی فیملی بھی شامل ہے۔ان دستاویزات میں وزیر اعظم نواز شریف کے تین بچوں مریم نواز،حسین نواز اورحسن نواز کے نام شامل ہیں۔ بدعنوانی کے الزامات تو 1980 سے میاں نواز شریف کا پیچھا کررہے ہیں اور پاناما پیپرز میں افشا ہونے والے الزامات میں سے زیادہ ترالزامات 1990 کی دہائی کے شروع میں ان کے خلاف ہونے والی وفاقی سطح پر تفتیش میں شامل تھے۔ نواز شریف نے 1997 میں جب دوسری بار اقتدار حاصل کیا تو انھوں نے اس انکوائری کو سیاسی خواہش قرار دیتے ہوئے بند کرنے کا حکم دے دیا۔ افشا ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ نواز شریف کے تین بچوں کی آف شور کمپنیاں اور اثاثے ہیں جو ان کے خاندانی اثاثوں میں ظاہر نہیں کیے گئے تھے۔ ان کمپنیوں کو غیر ملکی اثاثے حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا جن میں لندن کے مے فیئر علاقے میں پارک لین کے قریب اپارٹمنٹس کی خریداری شامل ہیں۔ان الزامات نے نواز شریف کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ان الزامات کے بعد پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت رد عمل کے باعث وزیراعظم نواز شریف نے دوسری بار 5اپریل کو قوم سے خطاب کیا۔ نواز شریف نے پانامہ لیکس کے حوالے سے اپنے خاندان پرلگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گھسے پٹے الزامات دہرانے اور روز تماشہ لگانے والے کمیشن کے پاس جاکرالزامات ثابت کریں، میرے خاندان کے کسی فرد نے قومی امانت میں رتی بھر خیانت نہیں کی، ہمارے بچے ملک میں کمائیں تو تنقید اور باہر کاروبار چلائیں تو الزامات لگتے ہیں۔ پانچ اپریل کو وزیراعظم کا خطاب 13 منٹ 46 سیکنڈکا تھا جس میں انہوں سرکاری ٹی وی پرصرف اور صرف اپنے خاندان کی بات کی تھی۔ اپنے خاندان کی صفائی دینے کے علاوہ انہوں ایک جوڈیشنل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا جس کو تمام حزب اختلاف کی جماعتوں نے مسترد کردیا۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے نواز شریف کے جوڈیشنل کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ کہ وہ کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھیں ، حزب اختلاف کی جماعتیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے پر متفق ہیں۔ دو ہفتے بعد 22 اپریل کو تیسری مرتبہ وزیراعظم نواز شریف نے پھر سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا، ان کے اس خطاب کا دورانیہ 23 منٹ تھا۔اس خطاب کے تین حصے تھے ، پہلا وہ جس میں حزب اختلاف کے مطالبے کو مانتے ہوئے اس بات کو مان لیا کہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط تحریر کریں گے کہ وہ پانامہ پیپرز کے معاملہ کی تحقیقات کے لئے کمیشن تشکیل دیں اور وہ اس کمیشن کی سفارشات کوقبول کریں گے۔ خطاب کا دوسرا حصہ وہ تھا جس میں وہ پوری قوم کو اپنی دکھ بھری کہانی سناتے رہے کہ ان پرکون کون سے ظلم ہوئے، اور خطاب کا تیسرا حصہ وہ تھا جس میں وہ اپنے مخالفوں پر الزامات کی بارش کرتے رہے۔ وزیر اعظم کی اس تقریر میں واضع طور پرتلخی محسوس کی گئی ۔اب وزیر اعظم چیف جسٹس کو خط لکھ چکے ہیں لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کمیشن کے اختیارات پر کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے بتا یا کہ چیف جسٹس کیسے اور کتنے عرصے میں تحقیقات کرپائیں گے۔ حزب اختلاف نے پاناما لیکس پر جوڈیشل کمیشن کے کیلئے ٹرمز آف ریفرنس کو مسترد کردیا۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ یہ وہ کمیشن نہیں جو ہم مانگ رہے تھے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ وزیر اعظم کے احتساب کا مطالبہ کرنے والے اور وزیر اعظم کے پہلو سے لگ کر ان کا دفاع کرنے والے سیاسی زعماء خود بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں اور ان میں سے اکثر نے بقدر جثہ اور بعض نے تو اپنے جثے سے بھی زیادہ اس قوم کی دولت کو لوٹنے کا ریکارڈ قائم کر رکھا ہے۔لیکن حزب مخالف کا حکومتی ایوانوں پر الزامات لگانا تو سمجھ میں آتا ہے، یہ حکومتی ایواان اپنے مخالفین پر الزامات کن اخلاقیات کے تحت لگاتے پھر رہے ہیں، یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔اسکی وضاحت کچھ اس طرح کی جا سکتی ہے کہ جناب وزیر اعظم صاحب، حکومت آپ کی، کابینہ آپ کی، سینٹ آپ کی ، تحقیقاتی ادارے آپ کے، بقول آپ کے اہم ترین رفقاء کے مخالفین کی پوری کی پوری فائلیں آپ کی بغل میں، پولیس آپ کی تمام اہم اداروں کے آپ سرپرست اعلیٰ تو پھر یہ زبانی کلامی الزامات کی بارش بھلا کس خوشی میں؟ کھولئے یہ فائلیں، سامنے لے آئیے وہ ثبوت اور دکھا دیجئے ان زبان دراز مخالفین کا چہرہ ان عوام کو کہ جن سے خطاب کرتے ہوئے آپ الفاظ سے زیادہ تاثرات کے ذریعے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی تین مرتبہ کوشش کر چکے ہیں۔
اگر ہم وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ یا انکے ساتھ جو لوگ کام کررہے ہیں ان پرنظر ڈالیں توان میں پہلے وہ ہیں جو نواز شریف کے رشتہ دار ہیں پھر وہ ہیں جو نواز شریف کے دوستوں میں سے ہیں، اور آخر میں وہ ہیں جو انکے بدترین مخالف پرویز مشرف کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ان میں سے ایک ہیں، جن کے ایک ساتھی اکرم خان درانی جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں صوبہ سرحد( موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا) کے وزیر اعلی تھے اور اب نواز شریف کی کابینہ کا حصہ ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو اپنی حکمرانی کو جائز بنانا تھا، مولانا فضل الرحمن دل و جان سے حاضر، 28دسمبر 2003مولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل یعنی لیگل فریم ورک آرڈر منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا۔ابھی تازہ ترین دورہ بنوں کے موقع پر وزیر اعظم کا خطاب بھی ایک عجیب ہڑبونگ سا تھا۔ فرماتے ہیں کہ انہیں بنوں میں نیا خیبر پختونخواہ کہیں نظر نہیں آیا۔۔ درست کہا، نئے پاکستان کے دعویدار پرانے چہروں کے عشق میں نئے تو کیا اسی پرانے خیبر پختونخواہ کی حالت کو ہی برقرار نہیں رکھ سکے۔لیکن جب وزیراعظم بنوں میں یہ خطاب فرما رہے تھے تو انہیں شاید یہ بھول گیا کہ سٹیج پراکرم خان درانی اور مہتاب عباسی کی صورت میں اس صوبے کے دو ایسے سابقہ وزرائے اعلیٰ بھی موجود تھے کہ جو میاں نواز شریف کی جانب سے سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ہسپتالوں کی حالت زار کے طعنوں کی زد میں براہ راست آ رہے تھے۔ جبکہ ثانی الذکر ابھی حال ہی میں اس مبینہ پرانے خیبر پختونخواہ کی گورنری سے سبکدوش کروائے گئے ہیں۔وزیر اعظم صاحب کو شاید یہ بھی یاد نہیں رہا تھاکہ جس شخصیت کے کندھوں پر بیٹھ کر وہ بنوں جیسے علاقے میں ہزاروں افراد کو مخاطب ہونے کے قابل ہوئے ہیں، مولانا فضل الرحمان کی صورت میں وہ شخصیت ، میاں صاحب کے سخت مخالف قرار دئیے جانے والے پرویز مشرف کو بھی اسی طرح کندھے پر بٹھائے اقتدار میں حصہ وصول کرتے رہے تھے۔یہی نہیں، اس کے بعد یہی مولانا فضل الرحمن 2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے اتحادی بن گے، کشمیر سے متعلق خصوصی کمیٹی کی چیئرمین شِپ حاصل کی، مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تو وہ کچھ نہ کرسکے لیکن اس چیئرمین شپ کے زریعے اپنے معاشی معاملات بہتر کرتے رہے۔ 2010 میں اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ کے حصول کیلئے مولانا نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا ڈرامہ رچاکر کامیابی سے مولانا شیرانی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کرلی۔نواز شریف کے موجودہ دور میں مولانا کو ذرا صبر سے کام لینا پڑا، اپنی وفاداری کے ثبوت بغیر کسی شرط کے دیے تو سات ماہ کے طویل انتظار کے بعد نواز شریف نے بالآخر وفاقی کابینہ میں توسیع کی اور جے یو آئی(ف)کو کابینہ میں نمائندگی دی، اکرم خان درانی اور سینیٹر عبدالغفور حیدری وفاقی کابینہ میں شامل ہوئے، جبکہ مولانا فضل الرحمن ایک مرتبہ پھرکشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن گے، جو ایک وفاقی وزیر کے برابر کا عہدہ ہے۔ بعد میں مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ منتخب کروایا جبکہ آخر وقت کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ مولانا عبدالغفورحیدری ڈپٹی چیرمین منتخب ہوجائیں گے۔ابھی مولانا کی خواہشات باقی تھیں کہ پاناما لیکس نے پورئے ملک میں سیاسی طوفان کھڑا کردیا۔ پاناما لیکس نے بہت ساروں کو متاثر کیا ہے، ان متاثرین میں وزیر اعظم نواز شریف اور انکے گھر والے ہیں، تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور علیم خان بھی شامل ہیں، کل دو سو افراد ہیں جن کو پانامالیکس کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے یا پہنچے گا، لیکن مولانا فضل الرحمان جن کا نام تو پاناما لیکس میں شامل نہیں ہے لیکن پاناما لیکس سے انہوں نے فاہدہ اٹھانے میں دیر نہیں کی۔ 6 اپریل کو مولانا فضل الرحمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وکی لیکس ہو یا پاناما لیکس،ایسے لیکس آتے رہتے ہیں، اسے نارمل لینا چاہیے،مال جائز بھی ہو تو ملک میں ہونا چاہیے تاکہ خوش حالی آئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کمیشن بنادیا ہے اس کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن شاید نواز شریف ان کے 6 اپریل کے بیان سے مطمئن نہیں ہوئے لہذاانہوں نے قومی اسمبلی کے باہر کھڑے ہوکر 8 اپریل کو ایک اوربیان میں کہا کہ پاناما لیکس ایک عالمی سازش ہے اور جے یو آئی پوری طرح وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تنقید کرنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم نوازشریف کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ اس بیان کے فورا بعدمولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا ضیا الرحمن کو گریڈ 18سے گریڈ 20 میں ترقی دے کر کمشنر افغان مہاجرین تعینات کر دیا گیا۔ مولانا ضیا الرحمن اس سے پہلے بطور ڈی سی او خوشاب پنجاب حکومت کے لئے خدمات انجام دے تھے۔ کمشنر افغان مہاجرین کی آمدن گریڈ بیس کے سو افسروں کی جائز اور ناجائز آمدن سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ پاناما لیکس نے مولانا کے بھائی کی قسمت چمکا دی۔
مولانا فضل الرحمان اب بھی مزید دو خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ نواز شریف ان کے صابزادئے کو کوئی سرکاری عہدہ دیدیں، دوسرئے خیبر پختونخواہ میں قائم تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرکے وہاں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کی اتحادی حکومت قائم کی جائے، اس کیلیے ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے بڑھتے ہوئے اختلافات کو مزید بڑھانے کی کوشش کررہی ہے، جیساکہ نواز شریف کے بنوں کے جلسے میں جمیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ہاؤسنگ اکرم خان درانی نے کہا ہے کہ اگروزیراعظم حکم دیں توخیبرپختونخوا کی حکومت کو گرادیں گے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد سے ہی خیبر پختونخوا میں اتحادی حکومت بنانے کے لئے مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ(ن) کے دروازے تک بھی دستک دی مگر شنوائی نہیں ہوئی۔ نواز شریف جن پر پہلے ہی کرپشن کے الزامات ہیں ، پاناما لیکس کی وجہ سے جس میں ان کے بچے شامل ہیں ان سے استعفی کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور وہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا ضیا الرحمن کو گریڈ 18سے گریڈ 20 میں ترقی دے کر مزید کرپشن کرچکے ہیں، جبکہ مولانا فضل الرحمان اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاں اپنے عزیز و اقارب کو فوائد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خود اپنی جماعت کی سیاسی ساکھ کو بھی بحال کرنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان چونکہ بنوں، لکی مروت اور ٹانک کے اضلاع کو اپنے انتخابی حلقہ جات کے طور پر ہمیشہ سے فوقیت دیتے رہے ہیں تو آئندہ انتخابات کی تیاری کے طور پر وہ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع کو انکی مذکورہ حلقہ جات میں مرکزی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم کے دورہ جات کے لئے انتخاب کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ بنوں اور ممکنہ دورہ ڈیرہ اسماعیل خان کے دوران کئے جانے والے مختلف اعلانات کس قدر اہم ہیں ، اعلانات نئے ہیں یا کہ باسی کڑی میں ابال کہلائے جا سکتے ہیں ، اس پر بحث قبل از وقت ہیں۔ تاہم یہاں پر دو باتیں کہنا وقت کا تقاضا ہیں۔اول یہ کہ پاناما لیکس اور اس کی بنیاد پر حزب اختلاف کے غل غپاڑے نے جہاں وزیر اعظم کو قوم کی یاد دلا دی ہے وہیں مولانا فضل الرحمان بھی اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں قدم فرمانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ اور بات کہ ان دونوں قومی راہنماؤں کا یہ گٹھ جوڑ، اپنی جغرافیائی اہمیت کے باوجود ڈیرہ اسماعیل خان کا ضلع ایک بار پھر بین الاقوامی ہوائی اڈے سے محروم کر دیا گیا ہے۔
*********