افسانہ

قائد کا 70 برس پرانا پاکستان لوٹا دو

عابد ایوب اعوان

قوم کو مملکت پاکستان کا 70واں جشن آزادی مبارک ہو۔ وطن عزیز آج 70 برس کا ہو گیا ہے۔ پوری قوم جشن آزادی کی خوشیاں منا رہی ہے مگر آج بحثیت من الحیث القوم ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ اس مملکت خداداد کو حاصل کرنے کا جو خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور محمد علی جناح نے اس خواب کو سچ کر دکھانے کی لگن لگا کر مسلمانان ہند کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور یوں قائد اعظم کی قیادت میں ہمارے آباواجداد کی عظیم قربانیوں کے بعد اسلام کے نام پر مسلمانوں کے لیئے الگ ریاست کے قیام کا جو تصور پیش کیا گیا تھا اور جس مقصد کے لیئے یہ وطن حاصل کیا گیا تھا اس مقصد کا حقیقی معنوں میں حصول کرنے میں ہم کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں ؟
قیام پاکستان کے تقریبا ایک سال اور ایک مہینے بعد اس مملکت کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اس نوزائیدہ مملکت کو یتیم و بے آسرا چھوڑ کر دنیا سے رحلت فرما گئے تھے۔ انکی وفات کے بعد بدقسمتی سے وطن عزیز کو کوئی ایسا رہنما میسر نہیں ہوا جو اس قوم کی حقیقی معنوں میں رہنمائی کرنے کے قابل ہوتا۔ پاکستانی قوم کو ان 70 سالوں میں کوئی رہنما نہیں ملا اور آج تک قوم حقیقی قیادت سے محروم چلی آرہی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہی قیادت کی محرومی ہے۔ آج سے 70 برس پہلے کی طرز حکمرانی پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم کی دنیا سے رخصتی کے ساتھ ہی پاکستان سے بھی رخصت ہو گئی تھی۔ 70 برس پہلے کی طرز حکمرانی اور آج 70 برس بعد کی طرز حکمرانی کا تقابلی جائزہ لینے کے لیئے ہم 70 برس پیچھے کے زمانے میں جاتے ہیں جس کے بعد آج کی موجودہ طرز حکمرانی کا اندازہ لگانا سہل ہو جائے گا۔
کابینہ کا اجلاس تھا۔ اے ٹی سی نے گورنر جنرل قائد اعظم سے پوچھا۔ سر اجلاس میں چائے دی جائے یا کافی ؟ گورنر جنرل نے چونک کر سر اٹھایا اور سخت لہجے میں فرمایا۔ یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے۔ اے ٹی سی گھبرا گیا۔ گورنر جنرل نے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا واپس گھر جا کر پیئے۔ قوم کا پیسہ قوم کے لیئے ہے وزیروں کے لیئے نہیں۔ اس حکم کے بعد جب تک وہ برسراقتدار رہے کابینہ کے اجلاسوں میں سادہ پانی کے سوا کچھ نہیں دیا گیا۔ گورنر جنرل ہاوس کے لیئے ساڑھے اڑتیس روپے کا سامان خریدا گیا۔ گورنر جنرل نے حساب منگوا لیا۔ سامان میں کچھ چیزیں محترمہ فاطمی جناح نے منگوائیں تھیں۔ حکم دیا پیسے فاطمہ جناح کے اکاونٹ سے کاٹے جائیں۔ دو تین چیزیں گورنر جنرل کے ذاتی استعمال کے لیئے تھیں۔ فرما یا یہ پیسے میرے اکاونٹ سے لے لیئے جائیں۔ باقی چیزیں گورنر ہاوس کے لیئے تھیں۔ کہا ٹھیک ہے یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کر دی جائے لیکن آئندہ احتیاط کی جائے۔ برطانوی بادشاہ کے بھائی ڈیوک آف السٹر پاکستان کے دورے پر آرہے تھے برطانوی سفیر نے سفارش کی کہ گورنر جنرل صاحب خود خوش آمدید کے لیئے ائرپورٹ تشریف لے جائیں۔ گورنر جنرل نے ہنس کر کہا کہ میں تیار ہوں لیکن جب میرا بھائی لندن جائے گا تو پھر برطانوی بادشاہ کو بھی اس کے استقبال کے لیئے ائرپورٹ پر آنا پڑے گا۔ ایک روز اے ٹی سے نے وزیٹنگ کارڈ گورنر جنرل کے سامنے رکھا تو گورنر جنرل نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا اور فرما یا اسے کہو آیندہ مجھے شکل نہ دکھائے۔ یہ شخص گورنر جنرل کا بھائی تھا اسکا قصور صرف یہ تھا اس نے اپنے نام کے نیچے برادر آف قائد اعظم گورنر جنرل پاکستان لکھوا دیا تھا۔ زیارت میں سردی پڑ رہی تھی کرنل الہی بخش نے نئے موزے پیش کر دیئے۔ دیکھے تو بہت پسند فرمائے اور ریٹ پوچھا۔ کرنل نے کہا 2 روپے۔ گھبرا کر بولے کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں (حالانکہ پاکستان بننے سے پہلے یہی محمد علی جناح پورے ہندوستان میں خوش لباس کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور انکے پاس تقریبا 200 کے قریب سوٹ تھے)۔ کرنل نے ہنس کر بتایا۔ سر یہ تو آپ کے اکاونٹ سے خریدے گئے ہیں۔ گورنر جنرل نے فرما یا میرا اکاونٹ بھی تو قوم کی امانت ہے۔ ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہیئے۔ موزے لپیٹ اور کرنل الہی بخش کو واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ زیارت میں ہی ایک نرس کی خدمت سے متاثر ہوئے اور اس سے پوچھا بیٹی میں تمہاری کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ نرس نے عرض کی۔ سر میں پنجاب سے ہوں میرا سارا خاندان پنجاب میں رہتا ہے اور میں یہاں کوئٹہ میں اکیلی نوکری کر رہی ہوں آپ میری ٹرانسفر پنجاب کروا دیں۔ اداس لہجے میں جواب دیا سوری بیٹی یہ کام محکمہ صحت کا ہے گورنر جنرل کا نہیں۔ اپنے طیارے میں رائٹنگ ٹیبل لگوانے کا حکم دیا۔ فائل وزارت خزانہ پہنچی تو وزیر خزانہ نے اجازت تو دے دی مگر یہ نوٹ لکھ دیا۔ گورنر جنرل اس قسم کے احکامات سے پہلے وزارت خزانہ سے اجازت کے پابند ہیں۔ آپکو معلوم ہوا تو وزارت خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حکم منسوخ کر دیا۔
اور رہا پھاٹک والا واقعہ تو کون نہیں جانتا ؟ گل حسن نے گورنر جنرل کی گاڑی گزارنے کے لیئے ریلوے پھاٹک کھلوا دیا۔ گورنر جنرل کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا پھاٹک بند کروانے کا حکم دیا اور فرما یا اگر میں ہی قانون کی پاسداری نہیں کروں گا تو کون کرے گا۔
یہ آج سے 70 برس پہلے کا پاکستان تھا۔ وہ پاکستان جس کے سربراہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ لیکن پھر ہم ترقی کرتے کرتے اس پاکستان میں آگئے جس میں پھاٹک تو ایک طرف رہے ، سربراہ مملکت کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے سڑکوں کے تمام سگنل بند کر دیئے جاتے ہیں۔ دونوں اطراف ٹریفک روک دی جاتی ہے۔ اور جب تک شاہی سواری گزر نہیں جاتی ٹریفک نہیں کھلتا۔ جہاں ملک کے وزیراعظم کو ملک کی سب سے بڑی عدالت ان کے آمین اور صادق نہ ہونے پر نااہل قرار دیتی ہے تو سابق ہو جانے والے وزیر اعظم واپس گھر جانے کے لیئے جس شاہراہ کا انتخاب کرکے ریلی کی شکل میں سکیورٹی کے حصار اور گاڑیوں کے قافلوں کے ساتھ روانہ ہوتے ہیں اور 4 گھنٹے کا سفر چار دنوں میں طے ہوتا ہے تو اس شاہراہ کو عام ٹریفک کے لیئے بند رکھا جاتا ہے۔ جس میں سربراہ مملکت وزیر خزانہ کی اجازت کے بغیر جلسوں میں اربوں روپے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ وزیر خزانہ کے انکار کے باوجود پورے پورے جہاز خرید لیئے جاتے ہیں۔ جس میں صدور و وزیراعظم کے احکامات پر سینکڑوں لوگ بھرتی کیئے گئے، اتنے ہی لوگوں کے تبادلے ہوئے، اتنے ہی لوگ نوکریوں سے فارغ کیئے گئے اور اتنے ہی لوگوں کو ضابطے اور قانون توڑ کر ترقی عطا کی گئی۔ جس میں موزے تو ایک طرف بچوں کے پوتڑے تک سرکاری خزانے سے خریدے گئے۔ جس میں آج ایوان صدر اور وزیر اعظم آفس کا بجٹ کروڑوں اور اربوں روپے ہے۔ جس میں ایوان اقتدار میں عملا بھائیوں، بھانجوں، بھتیجوں، بہنوں ، بہنویئوں اور خاوند کا راج رہا۔ جس میں وزیراعظم ہاوس سے سیکریٹریوں کو فون کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ میں صاحب کا بہنوئی بول رہا ہوں۔ جس میں امریکہ کے نائب صدر کے استقبال کے لیے پوری پوری حکومت اور پورٹ پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ اور جس میں چائے کافی تو رہی دور ، کابینہ کے اجلاس میں پورا ظہرانہ اور عشائیہ پیش کیا جاتا ہے۔ جس میں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاوس کے کچن ہر سال کروڑوں روپے دھواں بنا دیتے ہیں۔
یہ پاکستان کی وہ ترقی یافتہ شکل ہے جس میں اس وقت کروڑوں غریب لوگ رہ رہے ہیں۔ جب قائد اعظم گورنر ہاوس سے نکلتے تھے تو انکے ساتھ پولیس کی صرف ایک گاڑی ہوتی تھی ۔ اس گاڑی میں صرف ایک انسپیکٹر ہوتا تھا اور وہ بھی غیر مسلم تھا۔ اور یہ وہ وقت تھا جب گاندھی قتل ہو چکے تھے اور قائد اعظم کی جان کو سخت خطرہ تھا۔ قائد اعظم اس خطرے کے باوجود سکیورٹی کے بغیر روز کھلی ہوا میں سیر کرتے تھے۔ لیکن آج کے پاکستان میں سربراہ مملکت جدید بلٹ پروف گاڑیوں، ماہر سکیورٹی گارڈز اور انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کے بغیر 10 کلو میٹر کا سفر طے نہیں کر سکتے۔ ہم اس ملک میں مساوات رائج کرنے میں ناکام ہو گئے۔ ہم قائد کے وطن کو خود دار، باوقار اور ایماندار قیادت دینے میں بھی ناکام ہو گئے۔ ہم اس وطن عزیز کو جدید ترقی یافتہ اور پر امن ملک بنانے میں بھی ناکام ہو گئے۔
نہ بنائیں لیکن ہم اس ملک کو واپس قائد کے 70 برس پہلے والا پرانا پاکستان تو بنا سکتے ہیں۔ آج ہر آنے والا حکمران اسے نیا پاکستان بنانے کا دعوی کر رہا ہے۔ کوئی ہے جو ہم سے یہ ترقی یہ خوشحالی اور یہ عروج لے لے اور ہمیں ہمارا پسماندہ ہی سہی ، غریب ہی سہی اور غیر ترقی یافتہ ہی سہی بس وہ 70 برس پہلے والا قائد کا پاکستان واپس کر دے کہ وطن عزیز کے لوگوں کو 2017 کا نیا پاکستان نہیں بلکہ وہی 70 برس پہلے والا قائد کا پرانا پاکستان چاہیئے۔

Back to top button