افسانہ

عروہ نیازی کی زیر نگرانی مقابلہ افسانہ نویسی کے سلسلے کا پہلا افسانہ

محترمہ عروہ نیا زی کی زیر نگرانی فیس بک پر منعقد ہونے والے افسانہ نویسی کے مقابلے کے تمام افسانے ہما ری ویب پہ پو سٹ کئے جا ئینگے۔ مقابلے کا مو ضوع ہے "دہشت گردی” اس مقابلہ کا پہلا افسانہ حا ضر خدمت ہے۔”
دہشت گردی "………………….( ارم فاطمہ )
وہ متوسط گھرانے کا اکلوتا چشم و چراغ تھا۔ بیوہ ماں اور دو بہنوں کا واحد سہارا۔۔۔ وہ بی-کام سیکنڈ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ۔زندگی اپنی مخصوص دھیمی رفتار سے پر سکون انداز میں رواں دواں تھی۔۔ جمیل صاحب فیکٹری میں سپروائزر تھے۔اچانک انہیں سانس کی تکلیف شروع ہو گئی ٹیسٹ کروانے پر پتا چلا انہیں پھیپھڑوں کا کینسر ہے۔ بیماری اورفیکٹری سے مسلسل غیرحاضری پر پہلے انہیں نوتس ملا اور پھر ایک دن انہیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔گھر میں پریشانیوں نے ڈیرے ڈال دیے۔ جمع پونجی جمیل صاحب کے علاج پر خرچ ہونے لگی۔ ایک دن وہ انہیں تنہا روتا چھوڑ کر اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔
منصور بہت پریشان تھا۔اپنی ادھوری تعلیم کے ساتھ اس نے کئی جگہ کام حاصل کرنے کی کوشش کی مگر بغیر سفارش اور رشوت کے اس ملک میں کوئی کام ملنا مشکل تھا۔مجبور ہو کر دیہاڑی پہ کام کرنے لگا۔ٹھیکیدار کی بے ایمانی پر تلخ کلامی کے بعد اسے اس کام سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ اب گھر میں فاقوں کا راج تھا۔اپنے کئی دوستوں سے اس نے بات کہ کہ اپنے والد سے کہہ کر کہیں دفتر میں جاب دلوادیں مگر جب قسمت ساتھ نہ دے تو سبھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔
حالات سے اکیلے لڑنا بھوک اور ماں بہنوں کی فکر نے اسے بیمار کرڈالا۔
اس دن دوپہر کو شہر کی مصروف شاہراہ پر سڑک کنارے سر جھکائے بیٹھے وہ اپی ہی سوچوں میں گم تھا۔ تبھی اس نے سوچا کیوں نہ وہ سگنل پر اخبار بیچنا شروع کردے۔یہی سوچ کر وہ کسی اخبار کے دفتر جانے کے لئے اٹھا۔اچانک ایک گاڑی اس کے نزدیک آ کر رکی۔
دروازہ کھول کر ایک آدمی اترا اور اس سے کہنے لگا ” بیٹا یہ پتا سمجھا دینا ایک ضروری پیکٹ اس پتے پر پہنچانا ہے "۔ منصور نے کاغذ پر نظریں دوڑائیں اور پتا سمجھانے لگا۔وہ آدمی کہنے لگا "وقت بہت کم ہے اگر تم یہ پیکٹ پہنچادو تو میں تمہیں اس کے عوض کچھ روپے دوں گا۔ بہت ضروری ہے۔”
منصور نے کچھ دیر سوچ کر حامی بھر لی۔ وہ پیکٹ دے کر آیا تو اس آدمی نے اسے ہزار ہزار کے کئی نوٹ دیے۔ وہ حیران ہوا اتنے سے کام کے اتنے پیسے۔ گھر آ کر ماں کے ہاتھ پر روپے رکھے۔ماں بہنوں کے چہروں پر رونق دیکھ کر اسے اطمینان ہوا۔اب اسے یہی انتظار رہتا کہ کب وہ صاحب اسے ملیں ۔ وہ اکثر اسے ملتے اور اسے اس کام کے عوض بھاری رقم دیتے۔زندگی بہت آسان ہوگئی تھی۔گھر سے فاقوں کے ڈیرے ختم ہو گئے تھے۔اس دن وہ پیکٹ پہچا کر مارکیٹ سے ضروری سامان لے کر گھر آیا ہی تھا کہ ٹی-وی پر چلنے والی بریکنگ نیوز نے اسے چونکنے پر مجبور کر دیا۔
"ایمپریس مارکیٹ میں بم دھماکہ۔ دھماکہ خیز مواد ایک پیکٹ مین تھا جو ایک نامعلوم شخص جنرل سٹور میں چھوڑ گیا تھا۔” سی-سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج۔
وہ ابھی ابھی تو ایمپریس مارکیٹ سے آیا تھا۔اس کی ماں ہاتھ اٹھائے شکر ادا کر رہی تھی۔150 افراد کی ہلاکت اور زخمیوں کی تعداد سن کر اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ وہ سر سے پاؤں تک پسینے میں بھیگ گیا ۔اس سے کھانا نہیں کھایا جا رہا تھا۔ٹی-وی پہ نیوز چل رہیں تھیں َ
"دہشت گردوں نے دہشت گردی کی انتہا کر دی ہے۔عوام سے اپیل ہے ہوشیار رہیں اور اپنے اطراف پر نظر رکھیں۔ کہیں بھی کوئی پیکٹ یا تھیلا دیکھیں تو فوری طور پر سپیشل فورس والوں کو اطلاع دیں۔ نیچے نمبر بھی جاری کئے جا رہے تھے” مگر وہ کچھ دیکھ یا سن نہیں پا رہا تھا۔ ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا۔۔
"وہ بے خبری میں دہشت گردوں کا آلہ کار بن گیا ہے ۔۔۔۔۔ وہ دہشت گرد ہے ۔۔۔۔ کئی معصوم بے گناۃ لوگوں کی موت اس کے سر پر ہے ۔۔۔ وہ دہشت گرد ہے ۔۔۔۔ ” نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔ وہ چلایا۔ اس کے سر میں دھماکے ہو رہے تھے۔ وہ کیا کرے ؟ چند لمحوں کے لئے ضمیر نے سر اٹھایا۔ اس نے فیصلہ کیا اب وہ یہ کام نہیں کرے گا۔ پھر وہ کیا کرے گا؟ ماں بہنیں مطمئن تھیں۔ انہیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑ رہے تھے۔ایک بار تعلیم مکمل کر لوں پھر یہ کام نہیں کرون گا۔ اس نے فیصلہ کیا اور ضمیر کو تھپک تھپک کر سلا دیا۔
وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی گھر پہنچا تھا ۔ماں بہنیں گھر پر نہیں تھیں۔ساتھ والی آنتی نے چابی دیتے ہوئے کہا پاس ہی بازار گئیں ہیں ابھی آ جائیں گی ۔وہ انتظار کرنے لگا ۔ٹی-وی آن کردیا۔ چینل چینج کرتے ایک نیوز چینل پر خبر آ رہی تھی ” چاندنی بازار میں معمولی نوعیت کا دھماکہ زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔”
چاندنی بازار وہ تو انہی کے علاقے کا بازار تھا۔ اس کے زہن میں دھماکے ہونے لگے۔وہ دھندلی آنکھوں سے دیکھنے لگا ۔دونوں ہاتھ اٹھائے ماں بہنوں کی سلامتی کی رو رو کر دعا کرنے لگا۔دھماکہ معمولی نوعیت کا تھا مگر جو لوگ قریب تھے وہ شدید زخمی ہوئے تھے اور کئی زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہو چکے تھے۔ وہ بد حواسی سے ہسپتال بھاگا۔سرد خانے میں لاشوں کی شناخت کرتے ہوئے وہ زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔
جس بے حسی سے وہ دہشت گردوں کا آلہ کار بنا دہشت گردی کرتا رہا تھا آج اسی دہشت گردی نے اسے بھری دنیا میں تنہا کر دیا تھا۔ اور یہ وہ خسارہ تھا جس کا انتخاب اس نے خود کیا تھا
ارم فاطمہ

Back to top button