افسانہ

راضیہ سید کی خاص تحریر :.منٹو لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں تھا

منٹو لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں تھا….. تحریر :. راضیہ سید
منٹو نے بہت بڑی بات کہی تھی کہ ’’افسانہ مجھے لکھتا ہے‘‘، اگرچہ اردو ادب میں بہت سے افسانہ نگار گذرے ہیں لیکن منٹو کو جداگانہ حثییت اس لئے حاصل ہے کہ انھوں نے معاشرے کی تلخیوں کو اتنی خوب صورتی سے بیان کیا کہ حقائق خود ہی لوگوں کے سامنے آتے گئے۔
منٹو سچے کہانی گو تھے کیونکہ انھوں نے اس زمانے کی بدصوریتوں کی نشان دہی کرتے ہوئے کسی قسم کی غلط بیانی اور بناوٹ سے کام نہیں لیا۔ بلکہ انھیں اس طرح من و عن پیش کر دیا کہ لوگوں کے لئے اچھے اور برے میں تمیز ازخود آسان ہو گئی۔
یوں تو سب صدیاں ہی منٹو کی ہیں لیکن مئی کا مہینہ خاص طور پر منٹو سے منسوب ہے کہ 11 مئی منٹو کا یوم پیدائش ہے۔ سعادت حسن منٹو کے قریبی دوست اور سوانح نگار ابو سعید قریشی کے مطابق وہ بچپن میں کھلنڈرے اور کافی شرارتی تھے۔ گذشتہ دنوں منٹو کے بارے میں امریکی میگزین ’’ نیو یارکر ‘‘ میں ایک آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کا عنوان
The Seer of Pakistan
تھا اور اسے علی سیٹھی نے تحریر کیا تھا انھوں نے لکھا کہ منٹو پاکستان تو کیا پورے جنوبی ایشیا کی مکمل پہچان کروانے والا مصنف تھا۔ وہ روشن پہلو دیکھنے والا کہانی نویس تھا اور اس نے ہمیشہ تلخ حقائق کو مثبت انداز میں اصلاح کے لئے پیش کیا۔
منٹو کے افسانوں کے مخاطب اچھے اور برے تمام افراد ہیں، انھوں نے اچھے لوگوں کی خوبیوں کو نمایاں کیا اور برے کرداروں کو بھی براہ راست تو نہیں لیکن بلا واسطہ نیکی کی ترغیب ضرور دی اور یہ افسانہ نگاری میں ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔
شروع میں منٹو نے اپنے سخت گیر والد اور اپنی سوتیلی لیکن نرم دل ماں کے جذبات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا جبکہ امرتسر میں ان کی ملاقات ایک صحافی باری علیگ سے ہوئی جنہوں نے منٹو کی کہانیوں کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی۔ اس زمانے میں منٹو وکٹر ہیوگو، گورکی، آسکر وائلڈ اور لارڈ لے لون جیسے بلند پائے کے مصنفین سے متاثر ہوئے لیکن پھر بھی ان کا انداز جدا ہی رہا۔ وکٹر ہوگیو کا مشہور ناول
The Last Days of Condemned
کا ترجمہ منٹو نے محض دو ہفتوں میں ’’ سر گزشت اسیر ‘‘ کے نام سے کیا جسے اردو بک سٹال نے پبلش کیا۔ منٹو نے ریڈیو میں بھی کام کیا۔ 1941 میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو دہلی اردو سروس میں کام کیا ان کی زیادہ تر کتابیں بھی دہلی میں ہی پبلش ہوئیں۔ لہذا دہلی میں ان کے قیام کو ان کے ادبی سفر کے لحاظ سے سنہری دور کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ محض اٹھارہ ماہ میں ان کے چار ریڈیو ڈرامے جن میں ’’ آئو ‘‘، ’’ منٹو کے ڈرامے‘‘ ’’ جنازے ‘‘، اور ’’ تین عورتیں ‘‘ شامل ہیں شائع ہوئے۔
منٹو پلے رائٹ بھی تھے، افسانہ نگار، مضمون نویس، مختصر کہانی نویس لیکن وہ ترقی پسند تھے تاہم وہ کسی ایک زمانے تک ہی محدود نہیں رہے۔ پروفیسر ابوالکلام قاسمی اپنے مضمون میں جو رسالہ ’’ادیب ‘‘ میں شائع ہوا لکھتے ہیں
’’منٹو کا زمانہ وہی ہے جو ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ ہے مگر زندہ رہنے والے فنکار تحریکوں کا شکار کبھی نہیں ہوتے۔ سو منٹو نہ ترقی پسند رہا اور نہ غیر ترقی پسند، وہ ایک افسانہ نگا ر تھا اور صرف افسانہ نگار ‘‘
منٹو کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے ہر جملے میں ایک الگ کہانی پوشیدہ معلوم ہوتی ہے، ہر لفظ ایک نئی داستان کو جنم دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کہانی کا تسلسل منٹو اتنا قائم رکھتے ہیں کہ قاری کبھی بوریت اور الجھن کا شکار نہیں ہوتا، مختلف واقعات کو ایک طرح سے مربوط کر دینے کا نام ہی منٹو ہے۔ منٹو ایک کیفیت کا نام ہے جو ہر انسان پر اس طرح طاری ہوتی ہے کہ ہم خود کو وہیں اسی زمانے میں منٹو کے ہمراہ پاتے ہیں، اس کہانی کا کردار خود کو تصور کرنے لگتے ہیں۔
۔ منٹو خود اپنے افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں
’’اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے، میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ ۔ میں اسے کپڑے پہننانے کی کوشش بھی نہیں کرتا کیونکہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ ‘‘
منٹو کی کہانیوں کا زمانہ ہمیں اب بھی آج کا زمانہ کیوں لگتا ہے کیونکہ اس میں سیاست کی چالبازیوں کا ذکر بھی ملتا ہے تو معاشرے کی محکوم طبقے کی ترجمانی بھی ہوتی ہے، اصل میں منٹو انسانی جذبات کا حقیقی عکاس ہے، وہ اخلاقیات کا ترجمان ہے۔ وہ مظلوموں کے نوحے لکھنے والا ہے خواہ وہ طبقہ منگھو ٹانگے والا ہو یا ہجرت کرنے والے بے کس افراد اور ان کی بیٹیاں۔۔۔
منٹو کی مختصر کہانیوں کی 22 کتابیں ہیں، ایک ناول، پانچ ریڈیو ڈرامے، تین مضامین اور سوانح نگاری کے دو خاکے ہیں، 14 اگست 2012 کو انھیں حکومت پاکستان نے نشان امتیاز سے بھی نوازا جبکہ ۱۸ جنوری 2005 کو ان کی برسی پر ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔ منٹو کی قبر کے کتبے پر لکھا ہے کہ
’’یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں‘‘
لیکن کیا معاشرے کے اس سچے عکاس کو ہم نے اس کا اصل درجہ دیا ؟ تو اس کا جواب ہے کہ نہیں کیونکہ ہم اس کی سچی مگر تلخ کہانیوں کو برادشت نہیں کر سکے، ہم اس کے لہجے کی سچائی اور کردار کے خالص پن کو محسوس ہی نہیں کر سکے
شاید منٹو یہ بات جانتے تھے اسی لئے اپنی کتاب ’’ آتش پارے ‘‘ کا دیباچہ جو انھوں نے خود 5 جنوری 1936 کو لکھا تھا میں انھوں نے لکھا تھا کہ
’’ یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں۔ ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے ‘

Back to top button