افسانہ

افسانہ ……..از کشف بلوچ

افسانہ……… از کشف بلوچ
موضوع……دہشت گردی
چاچو ہمارے سکول میں ایک "فنکشن” ہے اور میں ایک ڑرامے میں حصہ لے رہی ہوں .پتہ ہے !چاچو میں اس میں کیا بن رہی ہوں؟. اس لمحے اریبہ کے معصوم چہرے پہ اتنے رنگ تھے کہ فرقان کے لئے نظریں ہٹانا مشکل ہوگیا. "میں اک پری بن رہی ہوں” اریبہ نے خوشی سے مسکراتے ہوۓ اسے بتایا "اچھا مگر پری تو تم پہلے سے ہو” فرقان نے پیار سے کہا. اچھا یہ لو پنسل اور اب تم سکول جاؤ .فرقان کے کہنے پہ اریبہ نے پنسل تھامی اور اسکی دکان سے نکل کر سامنے اپنے سکول کی جانب چلی گئی. اریبہ کو سکول جاتے دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آگیا.فرقان کو بھی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا مگر امی کی بیماری اور ابو کی نوکری ختم ہونے پہ اسکو سکول چھوڑ کر مجبورا کام کرنا پڑا. جونہی اسکے حالات ٹھیک ہوۓ ، فرقان نے بچوں کے سکول کے سامنے دکان کھول لی.حالات اچھے ہوگئے مگر اسے پڑھائی مکمل نا ہونے کا بہت افسوس تھا .اس نے سکول جاتے بچوں کو حسرت سے دیکھا. ……..
” اف اتنا وقت ہوگیا” فرقان صبح دکان کے لئے نئی چیزیں لایا تھا سو ان کو سیٹ کرتے کرتے رات کے بارہ بج گئے.جلدی دکان بند کی ،باہر نکلا تو چونک سا گیا. سامنے سکول کے پاس اسے کچھ سائے نظر آئے.چونکہ فرقان ایک گاؤں میں رہتا تھا اور گاؤں کے لوگ عموما نو بجے کے بعد سوجاتے تھے . اس لیے اس کے دل میں یہ کھٹکا ہوا” یہ کون ہوسکتے ہیں ؟ فرقان نے سوچا.ہاں یاد آیا ! صبح سکول میں ایک تقریب ہے "سانحہ پشاور” کے شہداء کے لئے ،جس میں گاؤں کے چند معزز حضرات اور کچھ مشہور "شخصیات” بھی مدعو تھے. گیٹ کیپر نے اسے صبح بتایا تھا .”شاید سکول کی انتظامیہ کوئی کام کروارہی ہو” فرقان یہ سوچ کر گھر چلا گیا …………
صبح فرقان نے دکان کا تالا کھولا ہی تھا کہ اسے کچھ شور سنائی دیا .اس نے دیکھا سکول کے گیٹ پہ ایک مشکوک آدمی ،جس نے خود کو چادر میں چھپا رکھا تھا . گن مین سے الجھ رہا تھا .فرقان بھاگا،جب تک وہ ان تک پہنچا ،وہ آدمی بوڑھے گن مین کو گرا کر اندر کی طرف بھاگا…….
فرقان نے جونہی اسے پیچھے سے پکڑا ،اسے یقین ہوگیا کہ اس آدمی نے خودکش جیکٹ پہن رکھی تھی . اسے ایک لمحہ لگا ساری کہانی سمجھنے میں . سکول کے اندر اریبہ جیسی معصوم ننھی "کلیاں” جنہیں پھول بن کر اس "گلشن” کو مہکانا تھا، یہ دہشت گرد ان کلیوں کو خون میں نہلانا چاہتے تھا. فرقان نے پوری طاقت لگا کر اسے سکول کے گیٹ دور گھسیٹا .اسے ان ننھی "پریوں” کو بچانا تھا چاہے اس کی جان چلی جاتی .فرقان اس سے لڑتے لڑتے بہت دور تک دھکیلتے ہوئے لے گیا. اسی کشمکش میں اس دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا …………..
اس نے اپنی جان کی قربانی دے کر اپنے گاؤں کے ننھے پھولوں کو مرجھانے سے بچا لیا تھا …
وہ اپنے گاؤں کا ہیرو اور فخر بن گیا ..ہمیشہ ہمیشہ کے لیے …

Back to top button