افسانہ

دہشت گردی… تحریر. ثمرین یعقوب…

دہشت گردی…
تحریر. ثمرین یعقوب…

امی مجھے بھوک لگی ھے، آمنہ جیسے گھر کے دروازے پر پہنچی عبداللہ نے چیخ کر کہا
آمنہ تھکی ھوئی گھر کا تالا کھولنے لگی. جلدی سے کچن میں دیکھا مگر کھانے کے لیے کچھ نہ تھا . اگر دیر کرتی تو عبداللہ کے لئے بھوک برداشت کرنا مشکل تھا. وہ کپڑے تبدیل کرنے کےلئے اندر گیا تو آمنہ جلدی سے ہمسائی کے گھر سالن روٹی مانگنے نکلی ہمسائی نے اسے دیکھتے ہی منہ بنا کر کہا ہم نے آج کچھ نہیں بنایا .وہ اسی لمحے دوڑتی ہوئی کریانے کی دکان پر گئ اور کہا، بھائی تھوڑا سا سودا دے دو جیسے تنخواہ ملے گی لازمی دے جاوگی بہت منت سماجت کے بعد آمنہ پر ساتھ کھڑی خاتون کو ترس آگیا اور اس نے تھوڑے پیسے دئیے. آمنہ کچھ سودا لیکر گھرآئی تو عبداللہ کو بھیگی پلکوں کے ساتھ دروازے کی چھوکٹ پر سویا ھوا پایا.
آمنہ نے جلدی سے کھانا بنایا اور پھر اپنے بیٹے کو جگایا. عبداللہ کھانے سے فارغ ھوکر کھلینے چلا گیا. اسکے بعد آمنہ کی تینوں بیٹیاں بھی آگئیں.
☆☆☆☆
آمنہ کی 5 بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا. اسکا شوہر وفات پا چکا تھا. گھروں میں کام کرتی تھی. دوبیٹاں میڑک ایف اے کرکے ٹیچنگ کر رہی تھی. باقی کی 3 بیٹاں ابھی پڑھ رہی تھی گزربسر جیسے تیسے ھورہی تھی. مگر کبھی کوئی بیٹی بیمار کبھی آمنہ بیمار اور کبھی عبداللہ بیمار جسکی وجہ سے اسے قرض لینا پڑا. میہنے کا آخر ابھی چل رہا تھا. ادھر آمنہ کو اپنی بیٹیوں کی شادی کی بھی بہت فکر تھی مگر جہیز کے بغیر کون شادی کرتا. وقت گزرتا گیا . بڑی دو. بیٹیوں کی شادی بہت مشکل سے ھوئی.عبداللہ میڑک کے بعد ھوٹل میں کام کرنے لگا اور ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھے ہوئے تھا . اسطرح بی.اے کے پیپر دے ڈالے .اب آمنہ بھی بیمار رہنے لگی اس سے کام نہیں ھوتا تھا. عبداللہ نے ماں کو کام کرنے سے منع کردیا اور خود زیادہ محنت کرنے لگا.
کچھ عرصہ میں آمنہ کی دونوں چھوٹی بیٹیوں فوزیہ اور صوبیہ کے رشتے طے ہوگئے آمنہ کو فکر ستانے لگی کہ انہیں زیادہ نہ سہی کچھ جہیز تو دینا ھوگا. آمنہ نے جب پریشانی ظاہر کی تو عبداللہ نے کہا اماں کیوں پریشان ھوتی ہیں میرا بی اے کا رزلٹ آرہا ھے پھر اسکے بعد زیادہ پیسوں والی جاب مل جائے گی. بس تم میرے لیے دعا کرو. پھر میں سب سے پہلے تمھارا علاج کرواں گا. اور اسکے بعد تمھارے اور اپنی بہنوں کے سارے خواب پورے کرونگا. یہ میرا تم سے وعدہ ھے. جیتے رھو میرے بیٹے، میرا خواب ھے کہ تمہارے بچوں کو گود میں کھلاہوں. اللہ میری ماں کا سایہ میرے سر پر سلامت رکھے آمین عبداللہ نے ماں کا ہاتھ چوما تھا.
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اماں میں سوچ رہا ھوں کہ ثوبیہ فوزیہ کی شادی سے پہلے یہ دو کمرے پلستر کروا لوں. مہمان آئیں گئے. عبداللہ کیاری میں گوڈی کرتے ھوئے بولا. میرے بیٹے خود پر اتنا بوجھ نہ ڈالو لوگ ہمارے حالات سے واقف ہیں.
مگر اماں پہلے تو میری نوکری نہیں تھی اب تو میں اچھا کما رہا ہوں سچ میرا صاحب بہت مہربان ہے مجھ پر
اور یہ سب آپ لوگوں کی دعاؤں کے طفیل ھے جو میں آج کامیاب ھوں. اسی وقت فاطمہ اپنے شوہر اور ایک بیٹی سمیت گھر میں داخل ھوئی.
اماں آپکو پتا ھے زاہد کو اسکی کمپنی باہر بھیج رہی ھے. اب تنخواہ بھی ڈبل ھو گی. اللہ تیرا شکر ھے. آمنہ نے خوشی سے کہا. بھائی یہ تو کنجوسی ھوئی آپ مٹھائی بھی نہیں لائے . سب سے چھوٹی مریم نے کہا.
میری پیاری بہن میں اور عبداللہ دونوں ابھی لے آتے ہیں. زاہد نے خوش ھوکر کہا.
آمنہ نے منع کرنا چاہا مگر زاہد عبد اللہ کو لیکر بازار چلا گیا. مٹھائی لینے کے بعد عبداللہ کو یاد آیا کہ مریم کےنئے جوتے نہیں آئے اماں اسکو پرانے جوتے کا کہہ رہی تھی مگر وہ بضد تھی.
زاہد بھائی یہ سامنے والی دکان سے مریم کے جوتے لے لوں. مریم کو جوتے بہت پسند آئے وہ بہت خوش تھی.
اسی وقت جمعہ کی اذان ھوئی زاہد اور عبداللہ نماز ادا کرنے چلے گئے.
آمنہ نماز سے فارغ ھو کر دعا مانگنے لگی مگر اچانک بہت گبھراہٹ ھونے لگی کوئی دعا یاد نہیں آرہی تھی. فاطمہ مجھے پانی دو. میرادل بہت گبھرا رہا ھے. فاطمہ جلدی سے پانی لائی. اسی وقت آمنہ کی پڑوسن پریشان سی اندر آئی، آمنہ تمھیں معلوم ہے مسجد میں دھماکا ھوا ھے.
کیا؟فاطمہ نے پوچھا. آمنہ سے تو بولا بھی نہیں جارہا تھا.
ھاں عبداللہ اور زاہد دونوں مر گئے ہیں. آمنہ بے ھوش ھوگئی. جب آمنہ کو ھوش آیا تو صحن میں عبداللہ . زاہد کی میت تھی. ان کی نعش خراب ھونے کیوجہ سے جلدی نماز جنازہ پڑھانا تھی
آمنہ چارپائی کے قریب بیٹھ گئی
عبداللہ میرا بیٹا میری جان آنکھیں کھولو، ظالموں میری کوکھ اجاڑ کر رک دی. مجھے بے آسرا کر دیا.میں کس کا دکھ کروں. اپنے بیٹے کو مجھ سے چیھننے کا یا میری بیٹی کے گھر اجڑنے کا. میری طرح تم لوگوں کو کسی ماں کی آہ ضرور لگے گی. میرے گھر کو ماتم کدہ بنانے والوں تم لوگ کس جنت کے طلبگار ھو. اک بیوہ ماں کا بیٹا بہنوں کا اکلوتا بھائی تم نے مار ڈالا.میں نے کیا خواب نہیں دیکھے تھے تمہارے لیے عبداللہ.تم نے کہا تھا کہ اماں آپکا سایہ میرے سر پر ہمیشہ قائم رھے پھر کیوں مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے تم ہی تو میرا اس دنیا میں واحد سہارا تھے آمنہ رو رو کر بین کرنے لگی…………

Back to top button