میانوالی

یو نیورسٹی سب کیمپس میانوالی۔۔خواب سے تعبیر تک۔ عروہ نیازی کا سچ

سر گو دھا یو نیورسٹی سب کیمپس میانوالی۔۔خواب سے تعبیر تک۔
عروہ نیازی ۔ڈیپارٹمنٹ آف سی ایس اینڈ آ ئی ٹی۔۔
کسی قوم کی ترقی میں درسگاہیں اہم کر دار ادا کرتی ہیں۔ان درسگا ہوں میں ہو نے والے سیمینار،ورک شاپس جہاں ایک طرف طلبہ و طا لبات کو سیکھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں وہیں ان کی اخلا قی تربیت میں بھی اہم کلیدی کر دار ادا کرتے ہیں۔کسی بھی قوم کو آگے بڑھتا دیکھنے کے لئے اس کے طلبا ء و طالبات کا تعلیم کے زیور کے ساتھ ساتھ اخلا قی اقدار سے آ راستہ ہو نا از حد ضروری ہو تا ہے۔جامعہ سرگو دھا پا کستان کی در سگا ہوں میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔اس کے فا رغ التحصیل طلبہ و طا لبات زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سابقہ وا ئس چانسلر ڈاکٹر اکرم چو دھری صاحب وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے اس جا معہ کے تعلیمی فیض میں سرگو دھا کے ساتھ میا نوالی اور بھکرجیسے نا خواندہ اضلا ع کو نہ صرف شامل کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ اپنے اس فیصلہ پر عمل کر کے دیکھا یا ۔اس کی عملی مثال میانوالی میں سرگو دھا یونیورسٹی سب کیمپس میا نوالی ہے جو اپنی پو ری آ ب و تا ب سے میا نوالی کو علم کی روشنی سے منور کر رہی ہے۔
سوچ سے عمل تک کا یہ سفر کتنا کھٹن ہے یہ تو فیصلہ کرنے والی شخصیت اور انتظا میہ ہی بہتر طور جانتی ہے۔کیونکہ ہمارے سیاست دانوں سے لے کر وڈیروں تک سب نے اس کی بھر پور مخالفت کی ،یہ ڈاکٹر صا حب کی ہمت تھی کہ ان کے قدم ڈگمگا ئے نہیں بلکہ وہ دلیری سے آ گے بڑھتے گئے،رکے نہیں ،بکے نہیں،جھکے نہیں بلکہ دیدہ دلیری سے لڑتے رہے۔حکومت نے فنڈز بند کر دئے تو اسا تذہ آ گے بڑہے انہوں نے اپنی پینشنوں کا پیسا دیا اور یوں بلڈنگ بغیر فنڈز کے مکمل ہو تی چلی گئی،کلا سز کا آ غاز پہلے ہی ہو چکا تھا،جب مخا لفین کی دال نہیں گلی تو انہوں نے اور حربے آ زمائے،ایک وقت ایسا آ یا کہ حکومت وقت نے ظلم کی انتہا کر دی،ٹیچرز کی تنخواہیں رو ک لی گئیں،تین ماہ تک اساتذہ بغیر تنخواہوں کے کام کرتے رہے۔افواہیں پھیلنا شروع ہو گئیں کہ یو نیورسٹی اب بند ہو جا ئے گی۔لیکن انتظا میہ ڈٹی رہی ،ہما رے اساتذہ نے میدان نہیں چھوڑا،ایسے ہی نہیں کہتے کہ اساتذہ کسی قوم کا فخر ہو تے ہیں۔یہ تو خدا ہی جانتا ہے یا پھر وہ خودکہ ان تین یا چار ماہ میں ان کے گھر میں کیا حالا ت گزرے،کیسی کیسی مشکلات آئیں،ضروریات کیسے پو ری ہو ئیں،لیکن اس کے با وجود وہ ڈٹے رہے اور پھر آ خر کار حکومت کو ان کے جذ بے اور قربانی کے آ گے ہا ر نا پڑی۔ تنخواہیں بحال کر نیں پڑیں۔
جس دن تین،چار ماہ کی اکٹھی تنخواہیں اساتذہ کے اکا ؤنٹس میں پہنچیں اس دن مخا لفین ہا ر گئے ،اور جیت صرف اساتذہ کی نہیں تھی۔جیت میں پو را میا نوالی شامل تھا،اس دن میانوالی کی فضا ئیں ان کو سلام پیش کر رہیں تھیں جن کی جیت ہمارے اس پسماندہ ضلع کو عروج بخشنے والی تھی،علم کی رو شنی سے منور کر نے والی تھی،بہت جلد عدم بر داشت کی فضا ختم ہو تی دکھا ئی دے رہی تھی،یہ جیت میا نوالی کے طلباو طا لبات کی جیت تھی ،یہ جیت ان غریب والدین کی جیت تھی جو اپنی غر بت کے سبب اپنے بچوں کو میا نوالی سے با ہر کسی جامعہ میں نہیں بھیج سکتے تھے اور سب سے بڑھ کے یہ جیت میا نوالی کی ان بیٹیوں کی تھی جنہیں شہر سے با ہر تعلیم کے لیے جا نے کی اجازت نہیں تھی۔یہ خواب سے جیت تک کا سفر سا لوں تک محیط تھا۔یہ سارے سال قر با نیوں ،جذبوں اور ولولوں سے عبا رت ہیں۔
2007سے شروع ہو نے والے اس سفر میں حکومتی دلچسپی اب دیکھنے میں آ ئی ہے ۔علم کا نور بکھیرنے والی اس درسگاہ کا فیض لیتے ہو ئے مجھے تین سال کا عرصہ ہو نے والا ہے۔اس عرصہ میں تین سالانہ سیمینارز میں بطورطالبہ شرکت کا مو قع ملا،کسی سیمینار میں حکومت کے ’’تگڑے‘‘ نما ئندے نے شرکت نہیں کی،28مئی کو ہونے والے تیسرے سیمینار میں صوبا ئی وزیر برائے بہبود آ با دی اورہا ئر ایجوکیشن بیگم ذکیہ شاہنواز ،چوہدری جعفر اقبال ایم این اے پا رلیمانی سیکیرٹری برا ئے دفاع کی شر کت اس بات کا ثبوت تھی کہ 9سال بعد آخر کار ہماری یو نیورسٹی کو ایک سر کا ری یو نیورسٹی ہو نے کا درجہ مل گیا ہے۔(ورنہ آ ج سے پہلے تو یوں لگتا تھا جیسے ہما را سرکار سے کو ئی تعلق ہی نہ ہو) ۔ان کا سیمینار میں تشریف لانا اس بات کا ثبوت تھا کہ پرو فیسر ڈاکٹر اکرم چودھری صاحب کا خوا ب جیت گیا،وہ جو اپنا کا م کر کے جا چکے ہیں مگر میا نوالی کی عوام پر بہت بڑا احسان کر گئے ہیں۔ (کچھ ماہ پہلے ہی ان کا ٹراسفر ہو چکا ہے)۔
لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ سیاست دان آتے بھی وہاں ہیں جہاں ان کا مفاد ہو،اس بات کا ادراک مجھے بیگم ذکیہ شاہ نواز کی تقریر سن کر ہوا،جس میں وہ نواز شریف صا حب کی تعلیم سے محبت کے گیت گا تی نظر آ ئیں،اور اس قوم نے بھی خود کو کتنا مجبور کیا ہوا ہے،یا پھر یہ اس نظام کی کا رستا نی ہے کہ ہم اسی وزیر اعلیٰ کا تعلیم دوست ہو نے کا دعوی سن کر بھی بے حسی سے تا لیاں بجا رہے تھے جس کے اقتدار میں ہو نے پر ،ہما ری یو نیورسٹی کی بلڈنگز اسا تذہ کی پنشنز سے بنا ئی گئیں،فنڈز روک لئے گئے،تنخواہیں روک لی گئیں۔ہم اسی وزیر اعلیٰ کی تعلیم دوستی کے دعوے سننے پر مجبور تھے جس کی علم دوستی کا یہ حال ہے اردو میڈیم سکولز کی کتابیں ایک سال انگلش میں آ تی ہیں تو دوسرے سال پھر اردو میں چھپوا دی جا تی ہیں،یہ کئی سال سے متواتر چل رہا ہے،ہا ئی سکولز کے اساتزہ اتنے تنگ ہیں کہ اگر ان سے وجہ پو چھی جا ئے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے تو ان کا جواب ہو تا ہے کہ سوا ئے اس کے اور کو ئی وجہ نہیں ہے کہ بچوں کا رزلٹ اچھا نہ آئے اور اس کو بنیاد بنا کر ان سکولز کو پروئیوٹا ئز کر کے پیسا بٹو را جا ئے۔ جب ان کی زبان مبا رک پر شہباز شریف صا حب کے قصیدے تھے،اس وقت پو رے پنڈال میں بغیر نظر دوڑا ئے بھی میں محسوس کر سکتی تھی کہ زیا دہ تر سٹو ڈنٹس کا بس بھی نہیں چل رہا تھا کہ گو نواز گو کے نعرے شروع کر دیں کیونکہ پا نا مہ لیک س کی باز گشت ابھی ختم نہیں ہو پائی تھی،لیکن ایسا ہو نا نا ممکن تھا کیونکہ ایک طرف تو یو نیورسٹی سے نام خا رج ہو جا نے کا ڈر تھا دوسرا زیا دہ تر سٹوڈنٹس کا تعلق تحریک انصا ف سے تھا۔سیمینار علامہ اقبال کے یوم وفات کے حوالے سے آ رگنائز کیا گیا تھا یہی وجہ تھی کہ سیمینار بہت زبر دست رہا، حکومتی نما ئندوں کی طرف سے بہت سارے وعدوں کے ساتھ سیمینار کا اختتام ہوا اورپنڈال سے نکلتے ہو ئے شائد سب یہ جان چکے تھے کہ بے شک اس یو نیورسٹی کو خواب سے تعبیر کی شکل دینے میں ہما رے سابقہ وی سی کا سا را ہاتھ تھا لیکن اب نون لیگ کی حکو مت اس میں یو نہی برابر کی شریک ہو چکی تھی جیسے ایٹم بم بنا یا ڈاکٹر عبد القریر خان صا حب نے ہے ،حکومت نے بہت مخا لفت کی لیکن جب بن گیا تو اب شراکت دار بن بیٹھی ہے۔

Back to top button