اپنی سپر سونک زندگی کو سکون کے چند لمحات دیں…. ڈاکٹر ارم حفیظ
” کیا آپ کے پاس کچھ وقت ہے؟ “
” ارے توبہ کیجیئے میرے پاس تو دم لینے تک کی فرصت نہیں۔” یہ جواب تقریباَ آج کل کے ہرشخص کا ہے۔ چھببیس سالہ عامر جو ایم بی اے کرنے کے ساتھ جز وقتی ملازمت بھی کرتے ہیں کہتے ہیں ” یوں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی زندگی تیز رفتار بلٹ ٹرین کی طرح بھاگی جا رہی ہے اور ہم اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔” ملازمت پیشہ نوجوان ہوں یا تعلیم سے فارغ رزلٹ کا انتظار کرنے والے لڑکے ، لڑکیاں ہر ایک کے لئے نیا ہفتا مصروفیات کا گرداب لے کر آتا ہے ہے جو ہفتے کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ان کو نڈھال کر دیتا ہے۔ چھٹی کا دن لاتعدا د ٹالے ہوئے کام نمٹاتے گزرجاتا ہے اور پھر آپ سانس بھی نہیں لے پاتے کہ ایک نئے طوفانی ہفتے کا آغاز ہوجاتا ہے۔جیسے جیسے زمانہ ترقی کر رہا ہے ویسے ویسے زندگی ایسی تھکا دینے والی دوڑمیں تبدیل ہوتی جا رہی ہے جس کا کوی اختتام نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج ہم بہت تیز رفتار اور وقت بچانے والی ایجادات و آلات کثرت سے استعمال کر رہے ہیں۔ موبائل فون، کمپیوٹر، ورلڈ وائڈ ویب (انٹرنیٹ)، فیکس، فون، تیز رفتار گاڑیاں، جہاز، ریل گاڑیاں، لفٹ اور گھروں اور دفاتر میں استعمال ہونے والی لاتعداد چیزیں، تمام مشینوں کا ایک ہی مقصد ہے برق رفتاری سے کام انجام دینا۔ اس کے باوجود اِی میل (دورانیہ چار سیکنڈ) اور فیکس (دورانیہ 1.2سیکنڈ) کا استعمال قیمتی وقت کا ضیاع لگتا ہے۔
لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آج روز مرہّ اور دفتری کام چٹکی بجاتے ہو جاتے ہیں؟ ہر گز نہیں! ماہرین معاشیات کے مطابق متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی شہری، گھریلو خواتین جو درجنوں مشینوں اور برقیاتی آلات کا استعمال کرتی ہیں اوسطَ چالیس سے پچاس گھنٹے ہفتہ وار گھریلو کام کاج پر صرف کرتی ہیں جب کے دفاتر میں کام کرنے والے لوگ جن کا آدھا سے زیادہ کام فیکس اور کمپیوٹر وغیرہ کے ذریعے ہوتا ہے اتنا ہی وقت اپنے دفاتر میں لگاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس رفتار سے ہم بھاگ رہے ییں اسی قدر خوشیوں اور اطمینان سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور اکژ اس مستقبل بے سکونی کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ محسوس بھی نہیں کر پاتے۔ ہم میں سے ہر کوئی وقت کی کمی کا شکار اور اس کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ ماہرین نفسیات اسے Time Sicknessیا وقت کی بیماری کا نام دیتے ہیں۔
اس بیماری میں مبتلا نوجوان مختلف نفسیاتی الجھنوں اور شدید دباؤ کا شکار رہتے ہیں جس کی واضح علامت مستقل سر درد، بد ہضمی، ڈپریشن، بے سکونی اور بے خوابی ہے۔
اکژ افراد شدید جسمانی و اعصابی تھکن محسوس کرتے ہیں جو السر، امراض قلب اور دیگر چھوٹی بڑی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔Time Sickness کے مریض کے لئے انتظار نا قابل برداشت ہوتا ہے ، خواہ وہ لائن میں کھڑا ہو یا ٹریفک سگنل پر، َ وہ خود کو گھڑی دیکھنے ، انگلیوں سے ڈرم بجانے اور زور زور سے بڑبڑانے سے باز نہیں رکھ سکتا ۔ ایسے افراد میں اچانک دل کے دورے، خوفناک حادثات اور طلاقیں عام ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کی ذاتی اور سماجی زندگی میں جلد بازی اکژ ان خود ان کی تباہی کا باٰعث ہوتی ہے۔ ایسے نوجوانوں کا علاج دواؤں اور تھراپی سے زیادہ اپنی سوچ اور اقدار بدلنے میں پوشیدہ ہے انہیں ضرورت ہوتی ہے خود کو اور زندگی کو ایک نئے رخ سے دیکھنے کی، بغیر کسی مادّی اور معاشرتی صلے یا فائدے کی ہوس کے۔
ماہر نفسیات آصف جمال کا کہنا ہے کہ ” آج کاا نسنان پہلے سے کہیں زیادہ مادّہ پرست اور نام و منصب کا خواہش مند ہوگیا ہے اس کی نظر اختتام پر ہوتی ہے خواہ وہ پیسے کی صورت میں ہو یا شہرت و طاقت کی شکل میں، نوجوانوں کو فکر ہوتی ہے تو بس سفر شروع کرنے اورمنزلوں تک پہنچنے کی، راستے کیسا گزرا اور سفر کیونکر کٹا ، اس کے بارے میں وہ نہیں سوچتے۔ یہ انداز فکر روز بروز عام ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے دنوں شہر میں آباد، ہمارے کچھ عزیز تفریح پر ایک پر’سکون پہاڑی مقام پر گئے واپسی پر ان میں سے ہر ایک خوشی سے پھولا نہیں سما ںرہا تھا کہ شکر ہے زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ اس بور جگہ پر تو زندگی کے کچھوے کی رفتار سے گزررھی تھی، وقت گزرتا ہی نہیں تھا ۔نہ ٹی وی تھا نہ ریڈیو فقظ پہاڑ تھے اور ایک جیسے نظارے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے جسم میں موجود قدرتی طبعی گھڑیوں اور نظام کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ آج کا انسان اپنے مقاصد کے حصول اور خود کو زیادہ سے زیادہ اہل ثابت کرنے کی جستجو میں گھڑی کی سوئیوں کا غلام بن کر رہ گیا ہے ۔ وہ زیادہ سے زیادہ کام اور انعام، کم سے کم وقت میں حاصل کرنا چاہتا ہے نتیجہ یہ کہ اپنی جسمانی و روحانی ضروریات پوری کرنے کے بجائے دنیا اور خود کے بنائے ٹائم ٹیبل اور اوقات کار کا شکار ہوجاتا ہے اور آخر میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
سچ تو یہ ہے کہ جدید دور کا انسان حال میں زندہ ہی نہیں کیونکہ اس کی تمام تر توجہ ماضی میں کئے گئے افعال اور مستقبل کے چیلنج اور فائدوں پر ہوتی ہے نتیجتاَ وہ اپنے حال کو کھوتا جا رہا ہے۔ ہمیں زندگی لمحوں کی صورت ملی ہے لیکن ہم لمحہ لمحہ امرت رس کا مزا لینے کے بجائے ماضی کے پچھتاوں اور مستقبل کی خواہش میں گھلتے رہتے ہیں جب کہ زندگی ایسے ہی گزرتی ہے جیسے ہمارے روزو شب گزرتے ہیں۔ تجربہ اور جذباتی پختگی کے لئے وقت درکار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں واقعی اپنی زندگیوں کی رفتار متعین کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ ماہر فلسفی اسٹیفن کہتے ہیں” زندگی کا بیشتر حصہ بڑے واقعات اور جذبات کے بجائے بہت چھوٹی چھوٹی اور معمولی چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ آپ محسوس کریں ۔ اگر آپ اپنے محسوسات اور جذبات کا آسانی سے ا ظہار کرنے سے معذور ہیں تو بہت ممکن ہے کہ زندگی کے ان انمول لمحوں کی دلکشی اور رنگوں سے محروم رہ جائیں جو آپ کو اس کے صحیح لطف سے آشنا کرتی ہے۔ “در حقیقت ہم میں سے ہر ایک اس بات کا اہل ہے کہ بھاگتی دوڑتی دنیا میں رہتے ہوئے بھی اپنی زندگیوں کو خوبصورت طرز پر ڈھال لے، ایسی طرز جس میں روز و شب پرسکون اور زندگی زیادہ مکمل اور آسودہ ہو۔ بات سادہ ہے۔ اپنی برق رفتار، سپر سونک پر شور زندگی کو سکون کے چند لمحات دیں اور اپنی سوچ اور عمل میں ٹھہراؤ پیدا کریں تاکہ زندگی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکیں۔