"زندگی اے زندگی ” جویریہ خان کی تحریر
’’زندگی اے زندگی!‘‘
تحریر: جویریہ خان
گھر بھر میں خوشیوں کا سماں تھا۔بات ہی کچھ ایسی تھی۔آج حیدر کا انٹری ٹیسٹ کلیئر ہو گیا تھا۔۔کمرۂ امتحان میں ہزاروں طلباء و طالبات کے چہرے یقینی اور بے یقینی کی سی کیفیت میں تھے۔۔ہر زبان پر بس ایک ہی سوالیہ نشان تھا۔۔کون یہ ٹیسٹ پاس کرے گا؟۔۔پھر قسمت اور محنت دونوں رنگ لے آئیں۔۔یہی بات تھی کہ حیدر آج سب کی نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا۔۔۔
بھئی حیدر سناؤ آگے ڈاکٹریٹ کے کس شعبے میں جانے کا ارادہ ہے؟۔یہ چچا تھے جو ابھی ڈرائنگ روم سے باہر نکل رہے تھے۔۔
انکل !سرجن ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں،،آگے آپ دعا کریں۔۔حیدر خوشی سے بولا۔۔
ہاں بالکل ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔۔
ہاں دانش میرا بیٹا سرجن بنے گا۔۔باپ نے بیٹے کو فرط جذبات میں گلے سے لگا لیا۔
اور پھر نجانے کیا ہوا اگلی صبح حیدر اٹھ نہ سکا۔۔ڈاکٹرز غم کے مارے خاندان اور نڈھال والدین کو کوئی بھی وجہ بتانے سے قاصر تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
شہرکے مرکزی بینک کی عمارت میں آج خلاف معمول کچھ زیادہ ہی رش تھاشائد کوئی تقریب تھی۔۔مگر نہیں بینک کا عملہ کسی ہوٹل کی جانب رواں دواں تھا جہاں آج کی اس تقریب کی بکنگ تھی۔۔پل بھر میں انتظامات مکمل تھے۔۔آج بینک کے سینئیر مینیجر تمام کاروبار اپنی چہیتی بیٹی میڈم روزینہ بخاری کو بخشنے والے تھے ۔کیونکہ بقول انکے وہ اب عمر کے اس حصے میں آرام کرنا چاہتے تھے۔۔مینیجر صاحب کی تقریر کے بعد میڈم روزینہ بخاری چمکتے چہرے کے ساتھ ڈائس پر آئیں تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔۔یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک منفرد تقریب تھی۔۔جس میں جنریشن گیپ نہیں بلکہ بدلتے وقت کے ساتھ جنریشنز کو تعاون کرتے ہوئے دکھایا جا رہا تھا۔۔ کچھ اہم کاغذات پر دستخط بھی ہوئے۔۔تقریب کے بعد میڈم نے بہتر جانا کہ نئی ذمہ داریوں سے پہلے ایک بار فیملی ڈاکٹر کو چیک اپ کروا دیں۔۔ڈاکٹر کے ہاتھ میں موجود میڈم روزینہ کی پرانی رپورٹس اب نیا ہونے کی چغلی کھارہی تھیں۔۔میڈم کا چہرہ تاریک تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
منظور آج پھر گھر خالی ہاتھ لوٹا تھا۔۔اب دکان سے بھی کوئی آمدنی نہ رہی تھی اور مزدوری بھی نہ ملنے کے برابر تھی۔۔یوں لگتا تھا جیسے پورا شہر تمام تعمیرات مکمل کر کے بیٹھا ہے اور اب کسی عمارت کے بننے کے چانسز نہیں ہیں۔۔گھر میں بچوں کو اپنا انتظار کرتے پایا تو دل کٹ کہ رہ گیا۔۔وہ تو ان سے نظر بھی نہ ملا پایا تھا۔۔اسکے گرد و نواح میں اگرچہ بہت سے مخیر حضرات کے گھر تھے مگر ان میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اسکا حال دریافت کرتا۔۔۔ آخر وہ اپنے بچوں کو کسی امید پر گھر سے باہر لے آیا۔۔ایک جانب ہجوم دیکھ کر وہ بھی اس طرف بڑھا۔۔ وہاں پر کسی اللہ والے نے لنگرکا انتظام کیاہوا تھا۔۔منظور اور اسکے بچوں کی آنکھیں بھی روشن ہو گئیں۔۔ انہوں نے پہلی بار سیر ہو کر کھانا کھایا۔۔عین اسی وقت کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا۔۔اور انکے بے جان لاشے آنکھوں میں سوال لےئے بکھرے پڑے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
انصر کو آج امریکہ کی شہریت مل گئی تھی۔۔اسنے اس خوشی میں سب دوست احباب کی دعوت کی تھی۔۔۔۔دعوت میں انصر ملازمین اور ویٹرز کے ہوتے ہوئے بھی خود ہی انتظامی معاملات میں آگے رہا۔۔اسکی خوشی دیدنی تھی۔۔۔ایک ایک مہمان کے پاس جا کر کھانے پینے کا خود ہی پوچھنے والا انصر اس دن حد سے بھی زیادہ مصروف رہا۔۔۔ اسکے ساتھ ہی اہم بات یہ تھی کہ اسنے اپنا ایک چھوٹا مگر خوبصورت سا گھر بھی بنا لیا تھا۔۔۔دعوت کے بعد وہ امریکہ چلا گیا۔۔۔۔مگر یہ کیا صرف ایک ہفتے کے بعد انصر کی اچانک موت کی خبر پاکستان میں موجود رشتے داروں نے سنی۔۔ہر ایک کی زبان گنگ تھی۔۔تفصیلات میں صرف اتنا پتہ چلا کہ اس دن انصر اپنے گھر میں بنائی گئی جھیل میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا۔۔۔حالانکہ وہ جھیل اتنی گہری بھی نہیں تھی۔۔۔مگر شائد اسکی موت اسی طرح سے لکھی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
شہر بھر میں جدید دور سرگرمیاں اپنی تمام تر جولانیوں اور رونقوں کے ساتھ جاری تھیں۔۔۔ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والاانسان اپنے اپنے انداز سے اور کوشش سے ان میں حصہ لے رہا تھا۔۔۔۔مگر موت بھی اپنی خوفناکیوں کے ساتھ اپنا صدیوں سے چلتا ہوا پرانا کام اک نئے انداز میں جاری رکھے ہوئے تھی۔۔ ۔مگرازل سے پڑا غافل انسان اس سے آج بھی بے خبر تھا۔۔۔موت کسی عفریت کی طرح چپکے سے آتی اور اپنی مرضی کے انسان پہ ہاتھ ڈال کے تاریکی میں گم ہو جاتی۔۔۔ظالم اور بے نیاز دنیا اچانک سے چلے جانے والوں کو ایک رات سے بھی زیادہ نہ روتی اور ۔۔۔۔۔۔
روز و شب کے میلے میں
غفلتوں کے مارے ہم
شائد یہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔
ہم نے جس کو دفنایا تھا
بس۔۔۔اسی کو مرنا تھا۔۔!