ادبی دنیانثر

توصیف احمد کی تحریر محبت نامہ

محبت نامہ
توصیف احمد
میں ایک عام اور بے بس و لاچار انسان ہوں، نہ اپنی مرضی سے اس دنیا میں آیا نہ اپنی مرضی سے اس دنیا سے جاوءں گا، مگر اس آنے جانے کے درمیان والے وقت میں مجھے میری مرضی کی زندگی جینے کا اختیار دے دیا گیا، مجھے اختیار ہے کہ میں اس دنیا میں جس طرح چاہوں جی سکتا ہوں۔ مجھے دو راستے دکھا دئیے گئے ایک اچھائی کا اور ایک برائی کا، مجھے سمجھا دیا گیا کہ برائی کے راستے پہ چلنے کا یہ نقصان ہے اور اچھائی کے راستے پہ چلنے کا یہ فائدہ، مگر مجھے ایک چیز سے منع کر دیا گیا کہ دنیا کی کسی چیز کی محبت میں گرفتار مت ہونا ورنہ دنیا تمہارے لئے سزا بن جائے گی مگر کیا کروں میں ٹھہرا آدم کا بیٹا نافرمانی میرے گھٹی میں ہے، جنت میں آدم کو سب چیزوں کا اختیار دے دیا گیا، کھاو، پیو، جہاں مرضی پھرو مگر خبردار اس درخت کی طرف مت جانا ورنہ رسوا ہو جاؤ گے، ہائے رے قسمت انسان کی فطرت کچھ ایسی بنائی گئی کہ جس کام سے اسکو منع کرو وہی کام وہ لازمی کرتا ہے او ر وہی فطرت بنانے والا آدم کو منع کر رہا تھا اس خاص قسم کے درخت کا پاس جانے سے، مگر فطرت کب بدلتی ہے رہی سہی کسر شیطان نے پوری کر دی اور وہ کام ہو گیا جس کے نتیجے میں یہ زمین آباد ہے، مگر یہاں بھی مجھے منع کیا گیا میں نے وہی کیا، میں محبت کر بیٹھا۔
مگر نہیں اس میں میرا تو قصور نہیں تھا، محبت کی تو نہیں جاتی وہ تو ہو جاتی ہے، پس مجھے بھی ہو گئی۔ مجھے دنیا کے بعد ستر حوریں دینے کا وعدہ کیا گیا مگر ان کے انتظار کا حوصلہ کہاں تھا دنیا کی حور سے پیار کر بیٹھا۔ میں نے کبھی حور دیکھی نہیں مگر اپنی محبت کو ہمیشہ یہی یقین دلاتا ہوں کہ تم حور سے زیادہ خوبصورت ہو۔ اور وہ پگلی میری محبت میں سرشار یہ بھی نہیں پوچھ پاتی کہ تم نے حور دیکھی بھی ہے؟ بات صرف میری محبت کی نہیں ہے، یہ ایک الوہی جذبہ ہے جو سب پہ اپنا جادو چلاتا ہے، یہ محبت کی جادگری ہے انسان اپنا نہیں رہتا اس کا ہو جاتا ہے۔ یہ بہت میٹھا احساس ہے جس کسی کو محبت ہو جاتی ہے وہ بادلوں میں اڑتا ہے، زمیں یہ پاؤں نہیں پڑتے، محبت اپنا اثر لازمی چھوڑتی ہے کبھی تو یہ ایک دم سے ہو جاتی ہے اور کبھی ہلکی مگر مسلسل برستی بارش کی طرح انسان پر اثر انداز ہوکر اس کو اپنے بس میں کر لیتی ہے۔ آپ کو جس کے بغیر اپنی زندگی گزارنی مشکل لگے سمجھو آپ کو اس سے محبت ہے، وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے، مرد کا پریشانی میں اور عورت کا آٹا گوندھتے وقت کسی کو سوچنا اس سے محبت کی نشانی ہے، محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے یہ اسی پہ اپنا اثر چھوڑتا ہے جس کو اس کی حرمت کا خیال ہوتا ہے۔ محبت تو وہ خوشبو ہے جو چھپائے نہیں چھپتی اور اپنی مہک سے ہر اس شخص کو مہکاتی ہے جو اس کے سائے میں اپنی زندگی بسر کرنے آتا ہے۔
فی زمانہ محبت کے معنی بدل چکے ہیں اب محبت صرف خواہشات کی تکمیل کا نام بن چکی ہے، محبت کی باتیں صرف کتابوں میں رہ گئی ہے۔ زمانے کے ساتھ ہر چیز کے رنگ ڈھنگ بدل جاتے ہیں۔ یہی معاملہ محبت کے ساتھ در پیش ہے، آج کی نئی نسل نے اس پاکیزہ جذبے پہ بدنامی کا داغ لگا کر اس کو منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آج کی محبت سب کو بدنام کر دیتی ہے مگر آج کی اکثریت محبت کو بدنام کر رہی ہے۔ جیسے وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے آج کی محبت کے بارے میں،
محبت ہو چکی پوری
چلو کپڑے پہنتے ہیں
یہ شعر ترجمانی ہے آج کی نسل کی محبت کی، ہمیں ضرورت ہے اپنی نئی نسل کو اس کی حقیقت بتانے کی ورنہ یہ معاشرہ تباہی کے اس دہانے پر پہنچ جائے گا جہاں خون کے رشتے ایک دوسرے سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہتے، مغرب سے آئی ثقافتی لہر نے ہمارے ذہنوں کو اس راستے پر ڈال دیا ہے جو صرف اور صرف تباہی کا راستہ ہے،۔
بات صرف لڑکے اور لڑکی کی محبت کی ہی نہیں ہے، دنیا کی کسی چیز کی محبت میں بھی جب انسان گرفتار ہوتا ہے تو وہ اپنے حقیقی مقصد سے بھٹک جاتا ہے، محبت کا مقصد یہ نہیں کہ جو چاہا اسکو ہر حال میں اپنا بنانا ہی بنانا ہے بلکہ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو نفی کر کے اس کی رضا میں خوش رہا جائے۔ ہر شخص کو اختیار حاصل ہے کہ وہ محبت کرے مگر محبت کی شرائط کے مطابق اور محبت کی سب سے پہلی شرط ہے عزت دینا۔ آپ چاہے جس سے بھی محبت کرتے ہوں جب تک آپ اس کو عزت نہیں دیں گے آپ محبت کی پہلی سیڑھی پر بھی نہیں چڑھ پائیں گے۔ اگر کسی کے دل میں اپنے لئے محبت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اسے عزت دینا سیکھنا پڑے گا۔ ہمارے معاشرے کی یہی سب سے بڑی خرابی ہے کہ آپ سب سے محبت کا دعوی تو کرتے ہیں مگر جب عزت دینے کی بات آتی ہے تو آپ خود کو دوسروں سے افضل قرار دے کر اسے عزت دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس دنیا میں محبت اتنی ضروری نہیں جتنا دوسرے کو عزت دینا ضروری ہے اگر آپ محبت کر کہ خود کو کامیاب انسان سمجھتے ہیں اور عزت دینا نہیں جانتے تو آپ دنیا کے ناکام ترین انسان ہیں۔
ایک اچھا مرد ہمیشہ عورت کو محبت سے زیادہ عزت دیتا ہے اور واقعی عورت کو محبت سے زیادہ عزت کی ضرورت ہوتی ہے، محبت کا اظہار ہر وقت نہیں کیا جاتا، یہ تو خاص خاص موقعوں پر کیا جاتا ہے جبکہ عزت تو ہر وقت دی جاتی ہے، عزت کی ضرورت تو وہ ہر وقت محسوس کی جاتی ہے۔ محبت کے بغیر عورت آدھی ضرور ہوتی ہے مگر عزت کے بغیر عورت عورت نہیں رہتی، اسی طرح عورت کو بھی مرد کی عزت کا پاسدار ہنا چاہیے تب ہی محبت اپنی حقیقی منزل کو پہنچتی ہے۔ یہاں ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ اگر اپنی سچی محبت کو اس کے حقیقی انجام تک پہچانا چاہتے ہو تو اس ذات سے لازمی محبت کرو جس نے تمہیں اپنی محبت سے روشناس کروایا ہے۔ اگر تم دنیا وی محبت میں گم ہو کر اپنے رب سے محبت بھول جاؤگے تو تمہیں کبھی دنیا کی محبت میں سکون نہیں ملے گا، دنیا کی محبت سے رب نہیں ملتا مگر رب کی محبت سے دنیااور آخرت دونوں مل جاتی ہیں۔
اگر اس معاشرے کو ایک مہکتا ہوا معاشرہ بنانا ہے تو ہمیں اس معاشرے میں پاکیزہ محبت کے بیج بونا ہوں گے، ہمیں دوسروں کو ماننا ہوگا، ان کو سننا ہوگا، سراہنا ہو گاان کو تسلیم کرنا ہوگا یہ اصل محبت ہوگی۔ یہ والی محبت وہ محبت نہیں جو ایک لڑکا اور لڑکی کے درمیان ہوتی ہے، اس محبت کو انسانیت کہتے ہیں ۔ ہمیں انسانیت کی بیل کو پروان چڑھانا ہے محبت کے پھول خود بخود کھل جائیں گے۔ اور اگر میری رائے محبت کے بارے میں جاننی ہے تو میں اتنا کہوں گا کہ،
محبت کا سفر کر کے، بہت دل پہ جبر کر کے،
بس اتنا جان پائے ہیں ، محبت مار دیتی ہے۔

Back to top button