ادبی دنیا

توانا اور منفرد لہجے کا شاعر خاور احمد (عنایت عادل کی خصوصی تحریر)

نوجوان جذبوں کی شاعری کو پختگی بخشتا
خاور احمد
کلاچی کا محلہ عثمان خیل، ڈیر اسماعیل خان کاشاہ عالم آباد ،پشاور کا اسلامیہ کالج و یونیورسٹی اور اسلام آباد کا بھارہ کہو۔۔۔ یہ سب بھلا کہاں جانتے تھے کہ پیدائش سے میٹرک اور میٹرک سے بی اے اور پھر سیاسیات کا ماسٹر بننے والا یہ دبلا پتلا نوجوان رومانوی شاعری کے دیوتا احمد فراز کی امیدوں کا محور بن جائے گا؟
کسے معلوم تھا کہ اپنے( شاید) ہم عصر فلمی ہیرو وحید مراد کے ہیر سٹائل والا یہ نوجوان، ببول کو ڈیرہ کی پہچان سمجھنے والوں کو اس شہر کے کھلتے شگوفوں کا تعارف فراہم کر دے گا؟
آج شاعری ، اور خصوصاََ رومانوی شاعری کو سمجھنے والا ہر با ذوق شخص ، بلا تفریقِ عمر و جنس، اس بات کی گواہی دے گا کہ خاور احمد نے اردو شاعری کو جس طرح کا انداز اور جس طرح کی بے ساختگی عطا کی ہے، وہ جہاں ملکی و بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کے جھنڈے گاڑتی چلی جا رہی ہے، وہیں وہ خاور کے اپنے آبائی گاؤں سے لے کر اس آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کو بھی فخر و اعزاز کے کئی مواقع عطا کر چکی ہے۔۔
میری خاوراحمد سے آدھی ملاقات اس وقت ہوئی کہ جب میں گیارہویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ایک دوست نے خاور احمد کے کچھ اشعار زبانی سنائے تو پوری کتاب پڑھنے کی خواہش ، بے قابو ہوتی چلی گئی۔۔ڈیرہ اسماعیل خان کی مختلف لائبریریوں کے دریچے ، مجھے یہ منظر فراہم کرنے سے قاصر نظر آئے۔کسی نے بتایا کہ صاحبِ کتاب اسلام آباد میں جلوہ افروز ہوتے ہیں تومیں نے ایک شناسا کو خاور احمد کی اولین کتاب تلاشنے کا فریضہ سونپا۔۔ انکی طرف سے گھڑوں پانی کا تحفہ موصول ہوا تو کسک۔۔ خاور کے والد اور اپنی طرز کے منفرد شاعر ، کہنہ مشق منتظم اور نا بغہ روزگار مدرس جناب سعید احمد اختر مرحوم کی قدم بوسی کا وسیلہ بن گئی۔
واقفان حال جانتے ہیں کہ مرحوم سے ملاقات کرنا بذات خود ایک مہارت کا متقاضی ہوا کرتا تھا ۔ ملاقاتی چاہے کچھ بھی عزائم لے کر حاضر ہوا ہو، مرحوم۔۔ ملاقات کی تمام تر کمان خود سنبھال لیتے اور یوں، ملاقاتی اپنی غرض و غایت بھول کر نہایت علمی و ادبی نصیحتوں اور کوئی درجن بھر کتابوں کے مطالعے کا گویا حکم لے کر نکلتا ،جن میں نا تو خود ناصح کی اپنی کوئی کتاب مذکور ہوتی اور ناہی اولادِ ناصح کی۔۔۔حق مغرت کرے، مجھے بھی مرحوم نے تعلیمی و تدریسی لحاظ سے اتنی کتابوں کے نام ازبر کروا دئیے کہ میں اس کتاب کا ذکر تک کرنا بھول گیا کہ جس کی تلاش میرے لئے سعید احمد اختر سے ملاقات کے شرف کا موجب بنی تھی۔۔شاید والد صاحب کے انہی اوصاف کا اثر رہا ہو کہ خاور نے ایک جگہ فرما دیا۔۔
پہلے میں دیکھ دیکھ پڑھتا تھا
پھر اسے یاد کر لیا میں نے
یا پھر ان کا یہ شعر بھی کچھ ایسے ہی ماحول کا تراشیدہ نظر آتا ہے۔۔۔
کتاب چہرے کے سارے حوالے پڑھنے دے
جدائیوں کا کڑا امتحان سر پر ہے
خیر۔۔۔میری جیب میں لکھی پرچی ، اپنے اوپر لکھی تحریر کھو چکی تو ایک دن نیشنل سنٹر کی لائبریری میں مجھے’’ منظر میرے دریچوں سے ‘‘کی جھلک نظرآگئی۔۔جھٹ سے اسے اٹھایا، رجسٹر میں اندراج کیا اور سیدھا اپنے گھر کی چھت پر جا پہنچا۔۔
اسے اس وقت پڑھنے کاارادہ بھلا کس ظالم کا تھا۔۔۔۔۔ دوپہر کے آس پاس جو بیٹھا تو شام کے سائے ڈھلنے تک خاور احمد کی پہلی کتاب ، شروع سے لے کر آخر تک، میری ڈائری میں نقل ہو چکی تھی۔۔
اس چھت کے نیچے بیٹھے لوگ جانتے ہیں کہ شاعری سے والہانہ محبت رکھنے کے باوجود مجھ کند ذہن کو شعر مشکل ہی سے یاد رہتے ہیں، لیکن خاور احمد خاور کی کتاب منظر میرے دریچے کی کتنی ہی غزلیں، کتنی ہی نظمیں، کتنے ہی قطعات اور اشعار مجھے آج بھی اسی طرح یاد ہیں کہ جس طرح 1991کی ایک دوپہر کو انہیں ڈائری پر نقل کرنے کے بعد یاد ہوئے تھے۔
ستمگر ہے کہیں کوئی ایسی بات کر دے گی
کہ ساری بزم کو اک سومنات کر دے گی
اس جیسا عاشقانہ خوف بھلا کالج کے زمانے میں لاحق نہیں ہو گا تو پھرکب ہو گا؟
یا پھر کونسا نوجوان ہو گا کہ جو اس شعر کو اپنے اوپر صادق ہوتا محسوس نہیں کرے گا کہ
اک عمر ہو گئی ہے وہ چہرہ نہیں پڑھا
کاپی بھری پڑی ہے میری جس کے نام سے
بالی عمر میں لکھا جانے والا یہ شعر بھی یقیناََ بالی عمر کے لڑکے لڑکیوں کو کچھ اپنا اپنا سا محسوس ہواہو گا کہ
ساجن کی یادیں بھی خاور، کن لمحوں آ جاتی ہیں
گوری آٹا گوندھ رہی تھی، نمک ملانا بھول گئی
کچی عمر میں صرف غم ہی محبوب سے منسوب نہیں ہوتا، عاشق اپنی خوشیوں میں بھی محبوب کا حصہ نہایت فراخ دلی سے نکالتا رہتا ہے اور شاید اسی سخاوت کا اظہار خاور نے یوں کر دکھایا کہ
جو نیا رنگ دیکھوں سوچتا ہوں
تجھ پہ یہ رنگ جانے کیسے لگے۔
یقین کیجئے ایک مرتبہ تو میں برستی بارش میں چھتری لے کر ، ان کھڑکھیوں کو ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوا کہ جن کا محلے میں وجود ہی نہیں تھا اور اس ناکام کھوج کی وجہ خاور کا یہ شعر بنا۔۔
آپ نے تو بند کر دیں کھڑکیاں بارش کی شام
ہم پھرے سڑکوں پہ لے کر چھتریاں بارش کی شام
ذکر کھڑکی کا ہے تو عاشق کی بے چینی کے ساتھ ساتھ اپنے محبوب کی بے اعتنائی کی وکالت کرتا ذرا یہ شعر بھی دیکھئے
خود پہ رونا آئے تو پوچھوں کھڑکی دیر سے کیوں کھولی تھی
اسکی مجبوری سوچوں تو اپنے سوال پہ دکھ ہوتا ہے
محبوب کی وکالت کرتے کرتے، خاور اسی محبوب کی عدالت میں ایک ایسی اپیل دائر کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جس کے متن پر صرف عاشق و معشوق ہی نہیں ، ہر ذی عقل و ذی شعور عمل کرنا شروع کر دے تو روزمرہ کے کئی تنازعات اپنی موت آپ مر جائیں۔۔غور کیجئے گا
عشق تو یہ ہے میری جاں کہ اک دوسرے کے
ہم ہر اک عیب کی پاکیزگی تسلیم کرلیں
خود پرستی کی کسی آخری حد سے پہلے
آ کہ دستورِ انا میں کوئی ترمیم کر لیں
مجھے یقین ہے کہ میری یہ رومانوی سی گفتگو سننے والے دل ہی دل میں ٹھٹھہ کر رہے ہوں گے تو انکی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ نسل انسانی کے 99فیصد مردو زن عشق کرتے ہیں اور باقی1فیصد اس ضمن میں جھوٹ بولتے ہیں۔۔ اور اگر کسی کو یہ رومان ۔۔۔ میری قدکاٹھ اور شکل شباہت سے میل کھاتا نظر نہ آرہا ہو تو میری یہ گزارش بھی پلو سے باندھ لیجئے کہ خوبصورت، وجیہہ اور دلکش ہونا تو محبوب کے لئے لازمی شرائط ہوا کرتی ہیں، عاشق تو ہر وہ شخص بن سکتا ہے کہ جس کے سینے میں دل نامی عضو دھڑک رہا ہو۔۔
لیکن یہ فقرہ خاور پر صادق نہیں آتا، مطلب یہ نہیں کہ ان کے سینے کا چوکھٹا خالی ہے بلکہ کہنا یہ مقصود ہے کہ خاور بیک وقت عاشق اور محبوب، دونوں کے کوائف پر پورا اترتے ہیں ۔محبوبانہ نخرے کے الزام کا میں ناں تو متحمل ہوں اور ناں ہی مجھے اس کا تجربہ ہے کہ اس پر روشنی، خاور کے قریبی دوست یا پھر ان کی شخصیت کے عاشق ہی ڈال سکتے ہیں، البتہ گزشتہ دنوں ان سے ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو اس تھیوری پر کامل ایمان کا موجب ضرور بن گئی کہ خاور۔۔ کسی محبوب کی طرح شرمیلے اور کسی عاشق کی طرح عجز سے۔۔ خوفزدگی کی حد تک مالا مال ہیں۔
خاور کی شاعری میں عاشقی و معشوقی کی ہر دو منازل سے پہلے کا الہڑ سا سنگ میل بھی خوب ملتا ہے۔۔۔ فرماتے ہیں۔۔
اسی امید پہ آنکھوں میں جھانکتا ہوں میں
کہیں ملے وہ سمندر جو مجھ کو لے ڈوبے
کارزارِ محبت میں جذباتی خودکشی کی جستجو کا یہ انداز بھلا خاور جیسے رومانوی شاعر کا نہ ہو تو کس کا ہو۔۔
کسی نے کہا کہ خاور ایک شاعر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرا خیال البتہ یہ ہے کہ خاور کا خاندان شاعرانہ نہ بھی ہوتا تو پھر وہ اس دور کے احمد فراز ہی کہلاتے۔
خاور احمد نے اپنا موضوع محبت کو بنایا لیکن محبت کے باب میں ا نہوں نے ایسی نئی جہتوں کو پیش کیا کہ ان کے اشعار کبھی پرانے نہیں لگتے ۔ محبت کے نفسیاتی حوالے، روزمرہ محبت کی کہانی اور گھریلو قسم کی گفتگو کی سی شاعری، خاور کو ہر قاری کے ہمراز کا مرتبہ بخشتی محسوس ہوتی ہے۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خاور نفسیاتی اور نئی جہتوں کا شاعر ہے۔
فیض سے متاثر ہونے کے باوجود ان کے شہرہ آفاق شعر کو چیلنج کرنا بھی بس خاور ہی کا خاصہ دکھائی دیتا ہے
کون سے دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں کون سی ہیں وصل کی راحت کے سوا
شاعر حضرات اپنی شاعری میں جس منظر کشی پر واہ واہ سمیٹتے ہیں، اگر اس قسم کی منظر کشی کوئی نثر نگار کر بیٹھے تو اسکا مقام سٹیج کی نمایاں کرسی کے بجائے ، بجلی والی کرسی ہو جائے۔کوئی شک ہو تو ذرا کوئی نثر نگار خاور احمد کے اس شہر کو ہی اپنی نثری قید میں لے کر دکھائے، شعر کے ساتھ ساتھ نثر نگار کے قید ہونے کی ضمانت میں دینے کو تیار ہوں۔
وہ مجھے ٹوٹ کے بھی ملتی تھی
مجھ سے پیار ا نہ تھا بد ن اس کو
اس نشست کے ہیڈ ماسٹر جناب سید ارشاد حسین شاہ صاحب کا حکم تھا کہ گفتگو کو مختصر رکھنا ہے۔۔ لہٰذا، اپنی طرز کے اس بے ربط مکالے کو اختتام کی جانب لے جاتے ہوئے یہی کہوں گا کہ آ ج کی اس تقریب کے دوران میری حالت کچھ ایسی ہی ہے کہ جس کے لئے مجھے ایک بار پھر خاور ہی کا وہ قطعہ یاد آ رہا ہے کہ جس میں انہوں نے کہا تھا۔۔
میں نے جب پہلی بار دیکھا اسے
اور پھر وہ بھی یوں اکیلے میں
مجھ کو بچپن کی شام یاد آئی
جب میں گم گیا تھا میلے میں
۔۔
نوٹ: یہ مضمون خاور احمد کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے دوران پڑھا گیا۔

Back to top button