تاریخ

میانوالی میں غازی علم دین شہید کا عارضی مدفن . (ظفر خان نیازی )

غازی علم دین شہید
میانوالی میں عارضی مدفن …………………. تحریر . ظفر خان نیازی

کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب غازی علم دین شہید کی میت کو میانوالی جیل کے پھانسی گھاٹ سے اٹھا کر جیل کی ڈیوڑھی سے نکالا گیاتھا تو میانوالی کے عوام نے میت کے حصول کیلۓ ضلعی انتظامیہ پر ہلہ بول دیا تھا ! شہر اور اردگرد کے دیہات سے عوام کی بہت بڑی تعداد نے جیل کو دو تین دن سے گھیرے میں لے رکھا تھا ۔ ان کا پروگرام تو جیل کو توڑنے کا تھا لیکن کسی نے سوال کر دیا کہ اگر وہ اس کوشش میں مارے گۓ تو کیا یہ شہادت کی موت ہوگی ۔ 539583_462913580394812_438810584_n_zpsqrdpyer7فتوے کیلۓ جامع مسجد محلہ زادے خیل کے حضرت مولوی اکبر علی صاحب سے رجوع کیا گیا جو اس وقت میانوالی کی جید ترین اور قابل احترام ، دینی و روحانی شخصیت تھی ۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر اس کوشش کیلۓ غازی کی رضا حاصل ہے تو شہادت ہے ، ورنہ نہیں ۔ اس پرغازی کے وارثوں نے کہا کہ غازی اس بات پر ہرگز راضی نہیں ہیں ۔ اس پر جیل توڑنے کا پروگرام تو رک گیا لیکن جیل کا محاصرہ جاری رہا ۔
میت کے حصول کیلۓ ہنگامے کے نتیجے میں ضلعی انتظامیہ کے ایک انگریز افسر غالبا” ایس پی کی ناک سخت زخمی ہوئ ، مقدمہ ہوا، سات یا نو افراد نے سزا پائ جو مہینوں کی تھی ، کتنے، یہ مجھے معلوم نہیں ۔ سزا یافتہ افراد میں سے چار تو مجھے یاد ہیں ۔ ابراہیم غریب شاعر ، مستری غلام رسول ممک زئ جو محمد اکبر خان خنکی خیل کے پڑوسی تھے،دراز قد فٹ بالر تھے (ان دونوں کو میں نے دیکھا ہوا تھا اور غلام رسول صاحب کو میں نانا کا دوست ہونے کے ناطے سے نانا کہتا تھا) ، شیرن نہاریا اور چوتھے صاحب جمعیت العلماء اسلام کے مولوی محمد رمضان صاحب موتی مسجد والے کے ایک بھائ تھے ، جن کا نام مجھے یاد نہیں ۔ وکلاٴ حضرات اس مقدمے کی فائل نکلوا کر ان کے مکمل نام اور سزا کی تفصیل سامنے لا سکتے ہیں، اور اس سوال کا مسکت جواب دے سکتے ہیں کہ میانوالی کے لوگوں کا کردار کیا تھا – یہ 31 اکتوبر 1929 کے دن کا واقعہ ہے ۔ لیکن شہید کی میت لاہور 15 نومبر کو مسلمانوں کے حوالے کی گئی –
میانوالی میں وہ میت 31 اکتوبر سے 14 نومبر تک کہاں امانتا” دفن رہی اور قبر کشائ پر کیا ہوا ، یہ وضاحت آگے ارہی ہے – اس وقت وہ دعا جو غازی رحمت اللە علیہ نےمیانوالی کے لوگوں کیلۓ اپنی وصیت میں دی تھی ۔ یہ دعا ابوالفتح سرمد کی کتاب غازی علم دین شہید میں درج ہے جو "میری لائبریری لاہور” نے چھاپی تھی ۔ میں نے یہ کتاب ساٹھ کی دہائ میں میونسپل لائبریری میانوالی میں پڑھی تھی ۔ اس کے مطابق ، غازی صاحب نے کہا تھا ، میانوالی شہر کے لوگوں نے میری اور میرے خاندان کی خدمت کی ہے ۔ اے اللە ، اس شہر کو مکھی ، مچھر کی وباوں سے محفوظ رکھنا ۔۔
ایک وصیت رشتےداروں کے نام بھی ہے ۔ وہ یہ کہ میرے رشتےدار میرے تختہ دار پر چڑھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اعمال کی وجہ سے بخشے جائیں گے، وہ نماز ،زکوات اور شرع محمدی صلی الله علیہ وسلم پر عمل کرتے رہیں ۔
شہادت کے وقت غازی صاحب کی عمر 20 سال 10 ماە اور 28 دن تھی
میانوالی جیل کی جنوبی دیوار کے ساتھ جیل کی اپنی زمین پر ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، یہ ان بدنصیب قیدیوں کی آخری آرام گاہ ہے جو لاوارث مر جاتے ہیں ۔ لیکن اسی لاورث قبرستان کو غازی علم دین شہید کا پہلا مدفن ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔31 اکتوبر1929 کو جیل کی ڈیوڑھی سے جب غازی کی میت باہر لائ گئ تو میانوالی کی عوام جو پچھلے کچھ روز سے جیل کا محاصرہ کۓ بیٹھی تھی ، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے جانثار عاشق کی میت کے حصول کیلۓ لپکی ، چھینا جھپٹی میں ہنگامہ ہوگیا ، انگریز افسر زخمی ہوا، لیکن عوام کامیاب نہ ہو سکے، اور انگریز حکومت نےخوفزدہ ہو کر افرا تفری میں میت تدفین کی ضروری رسومات یعنی جنازہ وغیرہ کے بغیر ہی جیل کے کمبل میں لپیٹ کر اسی قبرستان میں دفنا دی ۔ اور اس جگہ کو عاشق رسول کی میت 14 نومبر 1929 تک امانت رکھنے کا اعزاز حاصل ہو گیا ۔ مجھےاس قبرستان اور میت سے تہی قبر کی تفصیل ملک حفیظ الرحمان سے یوں معلوم ہوئ کہ غازی شہید کے کچھ رشتہ دار اس جگہ کی زیارت کیلۓ 1985 میں لاہور سے آۓ تھے اور حاجی اکرام اللە خان پائ خیل شہید کےمہمان ہوۓ تھے اور وہ گائیڈ کے طور پر انہیں اس جگہ پر لے کر آیا تھا ۔ یہ اب ایک خالی قبر کا گڑھا تھا ، اس اداس دل کی طرح جسے بہت بڑاخزانہ مل کر چھن گیا ہو ۔ ملک حفیظ الرحمان کا اس وقت جیل روڈ لاہور پر کاروں کا بہت بڑا شو روم ہے ، میانوالی میں وہ ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی مرحوم کا پڑوسی ہے –
جنازے کے بغیر تدفین پر سارے ہندوستان خاص طور پر لاہور کے مسلمان سراپا احتجاج بن گۓ تھے اور میت کے حصول کا حکومت سے مطالبہ کرنے لگے تھے ۔ علامہ محمد اقبال ، میاں عزیزالدین اور میاں امیرالدین کی سربراہی میں یہ کوشش آخر کامیاب ہو گئ اور علامہ اقبال کی گارنٹی کہ جنازے پر کوئ شورش نہیں ہوگی ، انگریز حکومت ، غازی شہید کی میت دینے پر رضامند ہو گئ ۔ محمد اکبر خان خنکی خیل بتاتے ہیں کہ مجھے ڈی سی میانوالی نے بلایا اور کہا ، کہ قبر کشائ کرنی ہے، آپ خوشبو کا بندوبست کریں ۔ یہ قبر کشائ تدفین کے ٹھیک پندرہ دن بعد ہو رہی تھی ۔ محمد اکبر خان مرحوم بتاتے ہیں ، میں نے اسے کہا ، ہمیں یقین ہے کہ غازی کی میت محفوظ ہوگی ۔ یہ گفتگو اور باقی تفصیل میں نے انہی کی زبانی سنی ہے اور یہ امانت آپ تک پہنچا رہا ہوں ۔ وہ بتاتے ہیں قبر کھولی گئی تو کمبل میں لپٹی پندرہ دن کی میت پھول کی طرح ترو تازہ ملی اور خوشبو استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئ ۔ غازی کے چہرے پر دائیں یا بائیں طرف ، سائیڈ میں بھول رہا ہوں ، لعاب کی ایک چھوٹی سی لکیر تھی جو گال تک گئ تھی ۔ جیل میں آنے کے بعد غازی کے چہرے پر گلابی رنگت آگئی تھی – میت کا یہ رنگ دیکھ کر سب دنگ رہ گۓ ۔ ہمارے ایک ٹیچر ملک اللە یار ریٹائر فوجی تھے ، انہوں نےگورنمنٹ ہائ سکول میانوالی کی مارننگ اسمبلی میں ہمیں بتایا تھا کہ قبر کشائی پر غازی کا ایک گھٹنا ٹیڑھا ہورہا تھا ، ٹانگ کو ذرا کھینچا گیا تو گھٹنا سیدھا ہو گیا ۔( ملک اللہ یار صاحب کا اپنا ایک پیر خراب تھا اور لنگڑا کر چلتے تھے ) –
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ غازی شہید کا پہلا جنازہ یہیں میانوالی میں ہی پڑھا گیا۔ ان چند لوگوں کی امامت مولوی مصطفے خان زادے خیل نے کی تھی ۔ میرا یہی محلہ ہے ، زادے خیل میرے سسرالی عزیز ہیں لیکن میں مولوی مصطفے خان کا سراغ نہیں لگا سکا کہ وہ کون تھے اور کہاں رہتے تھے ۔
ریٹائرڈ ممبر ریونیو بورڈ وسابق سیشن جج پیر مسعود الحسن شاہ ، میرےسکول فیلو اور لڑکپن کے دوست ، میانوالی کی ممتاز شخصیت پیر شاہ عالم شاہ جنت مکانی کے بھتیجے ہیں – ان کی آبائی حویلی ، پیراں والی وانڈھی جیل کے پڑوس میں ہے – ان کا دعوے ہے کہ ان کے بزرگ بتاتے ہیں ، غازی علم دین کی نماز جنازہ پیر شاہ عالم شاہ نے پڑھائی تھی اور اس جنازے کے مختصر حاضرین خوش قسمت افراد میں ان کے والد محترم پیر محمد شاہ اور باقی چچا صاحبان بھی شامل تھے – مجھے ان کے دعوے میں وزن نظر آتا ہے –
اس قبر کشائ کیلۓ انگریز حکومت کی طرف سے لاہور سے میجسٹریٹ مرزامہدی حسن اور سید مراتب علی شاہ 13 نومبر کو آۓ تھے ، 14 کو قبر کشائ ہوئ اور ریلوے نے میانوالی سے لے کر یہ امانت 15 نومبر کو لاہور میں علامہ اقبال کے سپرد کر دی ۔ محمد اکبر خان اس ٹرین کے ساتھ گۓ تھے ، یہ ریلوے ٹرین ، مال گاڑی کے ڈبوں پر مشتمل تھی جو گورکھا فوجیوں سے بھرے ہوۓ تھے۔ محمد اکبر خان کا یہ فقرہ ابھی تک میرےکانوں میں گونجتا ہے کہ اس مال گاڑی میں غازی صاحب کے ساتھ واحد میں ہی سویلین تھا۔۔۔۔۔۔
” ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا ”
علامہ اقبال کا یہ فقرہ تو اکثر لوگوں کو یاد ہے جو انہوں نے غازی علم دین شہید کی تدفین پر کہا تھا لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ لحد تیار ہونے پر اس کی پیمائش اور دیگر امور کا جائزہ لینے اس قبر میں پہلے جناب اقبال خود قبر میں اترے تھے اور عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم کی لحد میں لیٹے تھے –
یہ بات جناب کامران رشید نے مجھے دس جولائ سن چودہ کو فون پر بتائ ۔ کامران رشید ، غازی علم دین شہید کے بھائ محمد دین کے پوتے ہیں ۔ غازی کے والد طالع مند کے ہاں محمد دین کے بعد معراج بیگم پیدا ہوئ تھیں ۔ اور ان کے بعد غازی علم دین کی ولادت ہوئی تھی ۔ شاتم رسول ، راج پال کے قتل کے وقت محد دین شادی شدہ تھے اور ان کیے ہاں بچی بھی پیدا ہو چکی تھی جس کانام انور ہے۔ انور اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے غاذی شہید کا پیار بھی نصیب ہوا اور وہ غازی کی گود میں کھیلی تھی – محترمہ انور سعید اور ان کے میاں سعید احمد غوری اس وقت نوے سال سے اوپر کے ہیں ، دین محمد کے بیٹے اور کامران رشید کے والد کا نام رشید احمد تھا ۔کامران رشید کے پاس اپنے دادا محمد دین کی باتیں محفوظ ہیں جو اس گھرانے کا مشترکہ اثاثہ ہے اور انور سعید صاحبہ کے پاس 150دانوں والی غازی علم دین شہید کی اس تسبیح کے کچھ دانے بھی محفوظ ہیں جس کا ذکر غازی شہید نے اپنی وصیت میں کیا ہے۔ چند اس لۓ کہ وہ یہ سوغات دانہ دانہ ان افراد میں بانٹتی رہی ہیں جو تبرک کے طور پر مانگ لیتے تھے ۔
میرے ایک سوال کے جواب میں کامران رشید صاحب نے بتایا کہ اپنی پھپھی محترمہ انور سعید کے ساتھ وہ 1985 میں نہیں بلکہ 1982 میں جب وہ آٹھویں کے طالب علم تھے ، میانوالی آکر اس جگہ کو دیکھنے گۓ تھے ، جہاں غازی شہید 31 اکتوبر 1929 سے 14 نومبر 1929 تک یعنی پندرہ دن امانتا” دفن رہے ۔ یہ میانوالی کیلۓ ایک اعزاز ہے۔ میانوالی شہر عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم کی اس خوشبو سے آج بھی مہکتا ہے ۔ اس خوشبو کی وضاحت آگے آئے گی –
غازی شہید کا مزار میانی صاحب لاہور میں ہے اور اس کی تفصیل گوگل میں ملتی ہے – اسی مزار کے احاطے میں غازی کی وصیت بھی تفصیل سے لکھ کر آویزاں کر دی گئی ہے – اس طویل وصیت میں ایک دو باتیں ایسی ہیں جو اہل نظر کو روحانی حوالےسے دعوت دیتی ہیں ۔
غازی علم دین کی سرکاری طور پر ریکارڈڈ وصیت جو شہید کے مزار کے احاطے میں آویزاں ہے ، پیش ہے تاکہ اسے پڑھ کر آپ غازی شہید کی سوچ سے براہ راست آگاہی حاصل کر سکیں ۔ یوں تو اس بیان کا ہر لفظ محترم ہے لیکن دو ایک باتیں ذرا زیادہ توجہ طلب ہیں کہ وہ غیر معمولی محسوس ہوتی ہیں مثلا” دو بھائیوں کو پیش آنے والی مصیت کا پیشگی یقین سے کہنا اور اس کےازالے کیلۓ وظیفے کا بتانا۔ دوسرے بعد از مرگ اپنے ساتھ ملاقات کیلۓ خاص وظیفہ کا مخصوص شب پر اپنی 150 دانوں والی تسبیح کا کہنا ۔ ۔ غازی شہید کی وصیت یہ ہے :۔
” گزارش ہے کہ میرے سب رشتہ داروں کو یہ تاکید کر دی جاۓ ، کہ میرے پھانسی مل جانے سے ان کے سب گناہ نہیں بخشے جائیں گے بلکہ ہر ایک کے اپنے اپنے عمل ہی اس کو دوزخ سے بچا سکتے ہیں ۔ پس ان کیلۓ عمل ، نماز قائم کرنا اور زکوات اور جملہ احکام شرعی کی پابندی لازم ہے۔ بھائ محمد دین اور بھائ غلام محمد( یہ تایازادتھے ) تم پر کسی نہ کسی وقت مصیبت ضرور نازل ہوگی،اس لۓ تم ہر نماز کے بعد "یا مزمل” کا ورد ضرور کرنا۔ میری قبر کا فرش دو فٹ اونچا اور تیس مربع فٹ ہو۔ میری قبر کا کٹہرہ جو سب تھڑے کے گرد ہو ، وہ سوا فٹ اونچا ہو ، تمام سنگ مرمر کا بنایا جاۓ ۔ ایک جانب سے اڑھائ فٹ یا ساڑھے تین فٹ کی جگہ کچی رکھی جاۓ جس کے ارد گردجنگلہ میرے والد بزرگوارکے اپنے ہاتھ کا بنایا ہوا لگایا جاۓ۔ قبر اندر سے کچی رکھی جاۓ، صندوق میں دفن کرنے کی ضرورت نہیں ، نیچے صرف ریت بچھائ جاۓ ۔ جو آدمی میرے بعد میرے خاندان سے وفات پاۓ ، اس کی قبر میرے دائیں ہاتھ بنائ جاۓ ۔ بڑے تھڑے کے چاروں کونوں پر گلاب کے پودے لگاۓ جائیں ، باہر کی طرف دو کوٹھڑیاں بنائ جائیں اور کنواں بھی تعمیر کیا جاۓ اور مسجد وہاں بنائ جاۓ، اس کا فرش میری قبر کے فرش سے کسی حالت میں کم نہ ہو۔ اور مجھے ملنے کے واسطے جو وظیفہ آپ کو بتایا گیا ہے، ہفتہ اتوار کی درمیانی شب کو پڑھنا چاہیۓ اور اس روز حقہ ، کھٹی چیز یا بدبودار مثلا”پیاز وغیرہ استعمال نہیں کرنا چاہیۓ ۔
جب مجھے دفن کر چکو تو دو نفل نماز شکرانہ اور دو نفل مغفرت کےادا کرنا ہیں ۔ لاش کے ہمراہ فساد بالکل نہ کیا جاۓ اور امن و امان کی تلقین کی جاۓ ۔ میری لاش کے ساتھ ذکر اللە ضرور ہو مگر سر سے پگڑی کوئ نہ اتارے۔
جو میری قمیض عدالت میں پڑی ہے ، وہ میرے ماموں سراج الدین کو دی جاۓ اور میری شلوار میرے بھائ محمد دین کو دی جاۓ ۔ جو میرے یہاں چار کپڑے ہیں ان میں سے میری پگڑی میرے تایا کو دی جاۓ اورمیرے ململ کی ، میرے چھوٹے تایا کو نور دین کو اور کرتی جھنڈو برادر پجھے کو دی جاۓ ۔ چادر میرے والد کو دی جاۓ اور سلیپر میرے بھائ غلام محمد کو دیۓ جائیں اور سب بھائیوں کو السلام علیکم ۔
میرا سارا حال اخبار میں ضرور لگوایا جاۓاور نماز کی سب مسلمانوں کو تلقین کی جاۓ۔ فرض اللە کا قرض ہے اور سنت ، رسول کریم کا۔
جو وظیفہ میں نے تم کو بتایا ہے وہ صرف میری تسنیح پر ہوگا اور کسی تسبیح پر نہیں ہوگا وہ محمد خلیل سے لے لینا، ڈیڑھ سو دانوں کی ہوگی ۔ یہ میری وصیت پوری کی جاۓ ۔ میں نے قتل اس کیا تھا کہ اس نے میرے آقا کی ( نعوذ باللە ) شان میں گستاخی کی تھی”
میں نے غازی شہید کی خواب میں بعد از ملاقات کے بارے میں ان کے بھائ محمد دین کے پوتے کامران رشید سے ،جن کا نام مزار کے احاطے میں آویزاں مختلف بورڈوں پر رفیق احمد کے بعد درج ہے اور جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں ، پوچھا تو انہوں نے یا تو میرے سوال کو سنا ہی نہیں یا پھر جواب دینے سے گریز کیا ۔ اور یہ بھی واضح نہیں کیا کہ کیا وہ وظیفہ یا مزمل سے الگ ہے – میں نے روحانی تجربات کی طرف اشارہ کیا تو وہ بار بار اپنی پھپھی محترمہ انور سعید کا بہت احترام سےنام لینے لگے اور تسبیح کی تفصیل بتانے لگے ۔ یہ تو میں پہلے بتا چکا ہوں کہ وہ اس وقت نوے سال سے اوپر کی ہیں ، وہ غازی شہید کی حیات فانی میں ہی پیدا ہوئی تھیں ۔ ویسے بھی روحانی تجربات اتنی آسانی سے کوئ شئیر بھی نہیں کرتا اس لیۓ میں اصرار بھی نہیں کر سکتا تھا ۔
ایک بات جو اس وصیت میں میری نظر میں نہیں آرہی تھی ، میں نے پوچھ لی اور وہ یہ تھی کہ ابوالفتح سرمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ غازی شہید نے شہر میانوالی کے لوگوں کی میزبانی پر خوش ہو کر انہیں مکھی مچھر کی وباوں سے اللە کی پناہ میں رہنے کی دعا دی تھی لیکن یہ بات اس وصیت میں کہیں نظر نہیں آئی ، کامران دشید نے مجھے بتایا کہ مزار میں آویزاں وصیت وہ ہے جو غازی صاحب نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو سرکاری طور پر لکھوائ تھی ، اس کے علاوہ بھی وہ مختلف لوگوں کو وصیت کرتے رہے اور میانوالی کے لوگوں نے تو غازی شہید کو بچانے کیلۓ جیل کا گھیراو کر لیا تھا ، میرے دادا محمد دین کہتے تھے ہمارے روکنے پر وہ مشکل سے جیل توڑنے سے باز آۓ – بقول ان کے دادا محمد دین یعنی غازی کے بڑے بھائی ، میانوالی کے لوگوں کی محبت اور مہمان نوازی کو ہمیشہ پیار سے یاد کرتے تھے –
میں نے جب محمد اکبر خان خنکی خیل کا پوچھا تو کہنے لگے ، یہ نام تو ہم نے اپنے گھر میں اتنی بار سنا ہے کہ ہمیں کبھی نہیں بھولے گا۔ محمد اکبر خان کے صاحبزادے ماما اقبال خان خنکی خیل نے مجھے بتایا تھا کہ بہت عرصہ تک دونوں خاندانوں میں آنا جانا رہا – سچی بات یہ ہے کہ میں نے فون پر کامران رشید صاحب کو محمد اکبر خان مرحوم کا حوالہ دیا تھا تو کامران رشید کی آواز میں اپنائیت کی مٹھاس چھلکنے لگی تھی اور وہ بہت خوش ہو کر میرے ساتھ اس وقت تک محو گفتگو رہے جب تک میری ضرورت تھی ۔ میں نے چند ایسی باتیں وہ بهی پوچھیں جو میں نے سنی تو تھیں لیکن میرے پاس اس کا کوئ ثبوت یا حوالہ نہیں تھا – نوید ظفر مرحوم نےمیرے ریڈیو پروگرام سوغات کے سلسلے ماضی کے نقوش میں بتایا تھا کہ ایک بہت بڑے گدی نشین پیر بزرگ ملاقات کیلۓ آۓ تھے ( نام میں احتیاطا” نہیں دے رہا ) انہوں نے غازی صاحب کو سورت یوسف کی تلاوت سنائی ، تو کچھ مقامات پر غازی شہید نے انہیں ٹوک کر خود صحیح الفاظ ادا کۓ ۔ کیا اس کی تصدیق کر سکتے ہیں – یہ بات سن کر وہ بولے ، جی ہاں ، یہ واقعہ دادا محمد دین نے ہمیں اسی طرح بتایا تھا ۔ غازی شہید کو جاننے والے اس پر حیران تھے کہ بیس سال کا ایک ان پڑھ نوجوان چند ماہ میں کیسے اتنا عالم ہو گیا ۔ دوسری بات یہ کہ مشہور پنجابی شاعر عشق لہر نے ایک ملاقات میں انہیں اپنا کلام سنایا تو غازی شہید نے کہا میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی کچھ سناوں اور پھر اپنا پنجابی کلام سنایا – کامران رشید صاحب نے کہا جی ہاں، ان کی وصیت میں ان کا پنجابی کلام بھی درج ہے ۔ کامران رشید کا رابطہ نمبر 03228742242 ہے ، آپ چاہیں تو ان سے خود بات کر سکتے ہیں
میں کچھ مزید باتیں آگے چل کر آپ سے شئیر کروں گا ، اس وقت میں غازی کے وارث گھرانےکو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں جو غازی کے مزار کو عشق رسول صلی الله علیہ وسلم کی علامت سمجھتے ہیں ۔ اس عشق میں کوئ گدی نشین نہیں ہے ، عشق کے اس میدان میں غازی علم دین شہید کا مزار ، پیسے بنانے والی کوئ ٹکسال بهی نہیں ۔ مزار کے احاطے میں ایک سے زیادہ جگہ پر درج ہے کہ
مزار علم دین شہید کا کوئ گدی نشیں نہیں ، مزار کیلۓ کسی فرد یا ادارے کو چندہ نہ دیا جاۓ ۔۔
غازی کی شہادت ہجری اعتبار سے 1348 میں ہوئ تھی اور کسی نے کیا خوب تاریخ نکالی ہے ” یا غازی شہید "۔
مجھے یہ بتائیے کہ 4 اکتوبر کے بعد بھی کیا تازہ جامن ہوتے ہیں ۔
یہ سوال اس لیۓ پوچھ رہا ہوں کہ میانوالی میں غازی صاحب کے لواحقین کے میزبان محمد اکبر خان مرحوم خنکی خیل نے بتایا تھا کہ وہ اکتوبر کے دنوں میں جب ایک دفعہ ملاقات پر جیل گۓ تو غازی صاحب کے ہاتھ پر جامنی رنگ لگا دیکھا تھا ، پوچھا یہ کیا ہے تو انہیں غازی صاحب نے بتایا کہ جامن کھاۓ تھے –
اسی حوالے سے ایک واقعہ اور ۔۔
یہ 1972/3 کی بات ہے ۔ سردیوں کے دن تھے ، دوپہر کا وقت تھا ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم ملک گھنجیرہ ، پروفیسر شمیم احمد خان ، پروفیسر سلیم احسن اور میں میانوالی کچہری کے سامنے نیازی ہوٹل کے لان میں بیٹھے تھے ، گفتگو غازی صاحب کے حوالے سے ہو رہا تھی کہ اچانک ایک معمر شخص جو ساتھ ہی سڑک پر کھڑا جانے کب سے ہماری باتیں سن رہا تھا ، کہنے لگا ، جوانو ، میں بات کر سکتا ہوں ۔ تہبند میں ایک دیہاتی پٹھان کو دیکھ کر ہمیں اچھا نہ لگا لیکن کہنا پڑا ، دسو کہیہ گل اے ۔ وہ کہنے لگا ۔ جب غازی کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے کر جا رہے تھے تو وہ اس بیرک کے سارے قیدیوں سے ہاتھ ملاتے ہوۓ گۓ ۔ میں چھدرو کا ہوں ، میں اس وقت سزاۓ موت کا قیدی تھا ، میں نے بھی ہاتھ ملایا تو میرے ہاتھ میں دو کھجوریں آ گئیں – ایسا لذیذ ذائقہ میں نے پھر کسی کھجور میں نہیں دیکھا ۔ میرے پچاس سال کے رفیق ، صوفی شاعر و پرو فیسر سلیم احسن اس واقعے کی تصدیق کر سکتے ہیں ۔ ولیوں کو بے موسم پھل کے خالق کائنات کی طرف سے تحفے کی حقیقت آپ کسی عالم سے ضرور پوچھیئے گا ۔۔۔واللە اعلم بالصواب ۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ غازی علم دین شہید کی ولایت کے آثار اور کرامات ان کی زندگی میں ظاہر ہونے لگی تھیں –
میری خوش قسمتی کہ غازی علم دین شہید کے لواحقین 1929 میں میانوالی میں جن محترم شخصیت ،محمد اکبر خان خنکی خیل کے مہمان رہے تهے ،غازی علم دین شہید کی میانوالی میں قیام اور بعد کے واقعات کی زیادہ تر تفصیلات ان سے ہی ملی تهیں ، اس وقت میں بی ایس سی کا طالب علم تھا – یعنی 1965/66 میں اور محمد اکبر خان نیازی خنکی خیل کا انتقال 1972/3 میں ہوا تھا – اس ضمن میں میں اپنے شہر کے لوگوں کے کردار پر ناز کرتا ہوں اور جو علامہ صاحب میانوالی کے لوگوں کو گالی دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے شہر میں ان کو تختہ دار چڑهنے سے نہیں بچایا ، ان کو کہیئے کہ آپ نے ممتاز قادری کو بچا لیا ہوتا وہ تو راولپنڈی میں تھا – زیادہ دور کی بات نہیں ، سکها شاہی میں بادشاہی مسجد لاہور سکهوں کے گهوڑوں کا اصطبل تها – سکھ 50 سال تک حکمران رہے – اس کے علاوہ اس وقت پنجاب میں سکهوں کے ہاتهوں جو کچه اس وقت ہوا ، وہ ناگفتنی ہے ، لیکن اس کا طعنہ تو لاہور کو یا پنجاب کو کوئی نہیں دیتا ، دینا بهی نہیں چاہیئے – ان دنوں کیا حال تها اور غلام قوموں کی کیا مجبوری ہوتی ہے ، یہ بڑی درد ناک داستان ہے – اور یہی علامے ہی ہمارے بیشتر مسائل اور دکهوں کی جڑ ہیں جو تحقیق کئے بغیر علم جهاڑتے ہیں اور لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں –
کیا آپ کو معلوم ہے جس کتاب کی اشاعت پر راج پال قتل ہوا ، اس کا مواد کیا تها – یہ مواد ہمارے ان علما کی جمع کردہ تحریروں کے اقتباسات تهے ، جو تحقیق سے عاری ہیں – میری غیرت ایمانی مجهے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مزید اس مواد کی تفصیل میں جاوں – مجھے تو اس کتاب کا نام لکهنا بهی سوئے ادب محسوس ہوتا ہے جس کی اشاعت پر اس کے ناشر راج پال کو غازی علم دین نے قتل کیا تھا –
غازی علم دین شہید کے بارے میں پہلی پوسٹ کے موقع پر میرا خیال تھا ایک دو پوسٹ میں بات ختم ہو جاۓ گی ، اور میں غازی صاحب کے میانوالی کے قیام کے حوالے سےباتیں آپ سے شئیر کر کے فارغ ہو جاوں گا لیکن جب اس موضوع کے حوالے سے آگے بڑھا تو نۓ نۓ نکات سامنے آنے لگے ۔ روسرے یہ کہ میرا خیال تھا عام آدمی اس واقعے کا کچھ نہ کچھ بیک گراونڈ جانتا ہوگا جو غازی صاحب کی شہادت کا باعث بنا، لیکن چند نوجوانوں نے بڑی دیانت داری سے بتا دیا کہ یہ سارا قصہ ان کے لۓ نیا ہے ، سو یہ بات بھی کی جاۓ کہ کون ، کیوں قتل ہوا ،۔
غازی علم دین نے 1929 میں رسول اکرم صلے اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کلمات پر مبنی کتاب کے ہندو ناشر راج پال کو قتل کیا تھا جس کی انارکلی کاہور میں دکان تھی – راج پال کے بارے میں مسلم علماء کا متفقہ فیصلہ تھا کہ وہ واجب القتل ہے –
مقتول راج پال نے جس ماحول میں مسلم کمیونٹی کی خصوصی دلآزاری کی خاطر شان رسالت مآب کو نشانہ بنانے کیلۓ پنڈت شمو پتی Pt chamupati کے فرضی نام سے بنگلور کے کمار پرشاد پریت کی کتاب چھاپی ، وہ ہندوستان کے طول و عرض میں بین المذاہب مباحثوں سے اٹھنے والی گرد سے اٹ چکا تھا۔ کئ دہائیوں سے انگریز حکومت کی شہہ پر ہونے والے مباحثوں کیلۓ عیسائ ، ہندو، مسلمان ، جین ، سکھ کم و بیش سبھی ہزاروں کی تعداد میں وقت مقررہ پر اعلان کردہ مقام پر جمع ہو جاتے تھے جہاں ان کے مذہبی رہنما اپنے مذہب کی تعریف اور دوسرے کو سوال جواب سے لاجواب کرنے اور غلط ثابت کرنے میں اپنے جوہر دکھاتے۔ یہ سارا سلسلہ اب کج بحثی اور توتکار میں ڈھل چکا تھا ۔ قادیان کا مرزا غلام احمد ایسے ہی مذہبی اکھاڑوں میں مسلم کمیونٹی کی طرف سے کامیاب مباحث کے طور پر ابھرتے ہوۓ مجدد ، مسیح ثانی ، مسیح موعود اور آخرکار نبوت کے دعوے تک جاپہنچا تھا ۔سناتن دھرم کی ہندو کمیونٹی ، سوامی ووک آنند کی 1895 میں شکاگو میں بین المذاہب کانفرنس میں ان کی کامیاب شرکت کی تشہیر سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ انہیں راس کماری سے پشاور تک ان کو بھرپور دورے کرا کے خاصہ جارحانہ انداز اختیار کر چکی تھی ۔ دوسری طرف مہا رشی دیانند سرسوتی 19ویں صدی میں ستیارتھ پرکاش لکھ کر وحدانیت پر مبنی ، بت پرستی سے پاک ، آریہ سماج دھرم کی بنیاد رکھ چکے تھے مسلم ، خالق مطلق کو ننانوے ناموں سے پکارتے ہیں ستیارتھ پرکاش میں خالق مطلق کے سو نام ہیں ۔ آریہ سماج کے مندروں میں بت بالکل نہیں ہوتے – ویدوں کی تعلیمات کا دعویدار آریہ سماج دھرم ، شمالی ہند میں کھتری برادری کو پرکشش محسوس ہو رہا تھا اور لاہور کو اپنا مضبوط گڑھ بنا چکا تھا ۔ سیاسی میدان میں گاندھی جی انگریز دشمنی میں مضبوط ترین ، حکومت مخالف کے طورپر اپنا جھنڈا گاڑ چکے تھے ۔ منتشر مسلم سیاسی قیادت یا تو انگریز حکومت کا دم چھلا یا گاندھی جی کا چیلا بنی ہوئ تھی ۔ قائداعظم کامیاب وکیل اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر طور نمایاں مقام حاصل کر چکے تھے۔ حالات کو اپنے لۓ سازگار سمجھ کر آزاد ہندوستان میں ہندو دھرم کی بالا دستی کے خواب کے ساتھ مسلم کمیونٹی کو زیر دست رکھنے کے لۓسچا ہندو بننے کے کشٹ سے گزر رہے تھے۔ اس پس منظر میں 1885 میں امرتسر میں ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہونے والا راج پال منشی نویسی سے آغاز کر کےآریہ سماج دھرم کی کتب کےکم قیمت نسخےمشنری بنیادوں پر چھاپ کر کامیاب ناشر کے طور پر آریہ سماج وچھوالی اور آریہ سماج انار کلی کا بھرپور سیوک بن چکا تھا ۔ مذہبی پمفلٹ بازی کی جنگ میں اس کا کردار متحرک تھا ۔ انار کلی میں اس کا تجارتی مرکز آریہ سماج سرگرمیوں کا بھی مرکز تھا ۔ اور اب 1923 میں وہ مسلمانوں کو بہت کڑا جواب دینا چاہتا تھا ۔ بریگیڈیئر چترنجان ساونت کے مطابق مسلم دنیا کیلۓ دل آ زار ترین کتاب ان پمفلٹوں کے جواب میں چھاپی گئ جن کے ٹائٹیل تھے ؛کرشنا تیری گیتا جلانی پڑے گی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ شروع میں اس متنازعہ کتاب کا کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا ، کسی کو خبر ہی نہ ہوئی اور پھر اچانک ہفت روزہ ینگ انڈیا میں گاندھی جی کا مذمتی بیان چھپا جس میں اس کتاب کے مصنف اور ناشر کو سزا دینے کے مطالبے کے ساتھ کانگرس کے لوکل لیڈروں کو کہا گیا تھا کہ وہ اس کتاب کی شدید مذمت کریں ۔ یہ بیان آتے ہی احتجاج کی ایک لہر اٹھی جس نے سارے ہندوستان خصوصا” لاہورکو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ وشواناتھ کے بقول جو کہ راج پال کی چھ اولادوں میں سب سے بڑا ہے، راج پال کی زندگی کانٹوں کی سیج بن گئ ۔ 1924 میں اس پر مقدمہ قائم ہوا، جس پر اسے ڈیڑھ سال قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائ گئ – اس سزا کے خلاف اس نے اپیل کی – پانچ سال کے عرصے میں ڈسٹرکٹ کورٹ ، سیشن کورٹ اور آخر ہائ کورٹ جا کر جسٹس دلیپ سنگھ (عیسائ) کے قلم سے 1929 میں سزا تو منسوخ ہوگئ لیکن راج پال مسلم غیض و غضب سے بچ نہ سکا اور 1929 میں ہی عشق رسول صلی الله علیہ وسلم کی ضرب کاری کا نشانہ بن گیا ۔ بد بخت راج پال اپنےاس انجام کو پہنچا جس کا وہ مستحق تھا ۔ غازی علم دین نے جس چھری سے 6 اپریل 1929 کو بعد از دوپہر اس کی دکان میں اسے آرام کے وقت قتل کیا ، وہ ایک روپے میں خریدی گئ تھی ۔
وشواناتھ جو خود بھی ناشر ہونے کے ساتھ شاعر اور مصنف تھا ، لکھتا ہے میرے پتا راج پال نے وہ پانچ سال اس طرح گزارے کہ ساری دنیا نے اس سے منہ موڑ لیاتھا ۔ وشواناتھ کے بعد اس کی بیٹی میرا جوہری دہلی میں راج پال اینڈ سنز کا ادارہ چلاتی ہے، بھارتی صدر ابوالکلام کی کتاب کے علاوہ جسونت سنگھ کی قائداعظم پر کتاب بھی اسی ادارے نے چھاپی تھی –
قائد اعظم کے حوالے ایک غلط فہمی غازی علم دین شہید کے بارے میں عموما” بہت دہرائی جاتی ہے کہ قائداعظم نے غازی کو اس واردات سے منکرنے کا تھا – حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم سیشن کورٹ میں نہیں اپیل کورٹ میں غازی کے وکیل تھے – ملزم کا بیان سیشن کورٹ میں ہوجاتا ہے ، اپیل کورٹ میں ملزم کو دوبارا صفائی کا موقع نہیں دیا جاتا بلکہ پہلے سے دستیاب اور پیش کردہ شہادتوں پر ہی مقدمے کا انحصار ہوتا ہے – اس لئے یہ کہنا کہ قائداعظم نے غازی کو جھوٹا پیان دینے کو کہا تھا ، خارج از امکان ہے – یہ ضرور صحیح ہے کہ شروع میں ایک بار غازی نے یہ جرم تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا لیکن اس کے فورا” بعد انہوں نے اپنا یہ جرم خوشی سے قبول کیا – غازی شہید اپنے پہلے انکار کو یاد کر کے تاسف کا اظہار کیا کرتے تھے –
غازی علم دین شہید کو حرمت رسول پر مرنے کا اعزاز ملا اور اس سعید فعل کی اللہ سے قبولیت کی نشانیاں غازی کی مختصر سی فانی زندگی میں ہی کھل کر سامنے آگئی تهیں – جیل میں اس کی کوٹھڑی کی غیر معمولی روشنی ، اس کے پاس بے موسم کے پھل ، ان پڑهه هونے کے باوجود اس کی گفتگو کا انداز اور پھانسی کی سزا سننے اور موت کے انتظار میں چہرے کا رنگ زرد پڑنے کی بجائے سرخ ہونا اور وزن بڑھنے کا جیل کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ، دیگر ایسی کئی علامات اس کے ولی ہونے کی واضح نشانیاں تهیں – اس لحاظ سے میں یہ سمجهتا ہوں کہ یہ اعزاز میانوالی کی مٹی کو نصیب ہونا تها کہ شہید کا نورانی جسد چند دن ، امانتآ ہی سہی ، اس کی آغوش میں رہتا – اس عارضی مدفن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے پوتا ھے کہ خالی قبر کی وہ جگہ جو میانوالی جیل کے جنوب میں لاوارث قیدیوں کے قبرستان میں ہے ، وہ عارضی مدفن دیکهنے کیلئے ان کی بهتیجی انور سعید جس کو غازی شہید نے گود میں کهلایا تها اور اس وقت نوے سال سے اوپر کی ہیں ، غازی علم دین شہید کے بھائی کے پوتے کے ساتھ غازی کی شہادت اور میانوالی میں عارضی تدفین کے 53 سال کے بعد اسی کی دہائی میں میانوالی تشریف لائی تهیں – وہ اکرام اللە خان شہید پائی خیل کی مہمان ٹھہری تهیں اور اس جگہ پر انہیں میرا ایک دوست ، میانوالی کا حفیظ الرحمان ولد عبدالرحمان جس کا ان دنوں جیل روڈ لاہور پر کار شو روم ھے لے کر گیا تھا – اس کی تصدیق و تفصیل غاذی علم دین شہید کے بهائی کے پوتے نے میرے ساتهه ایک گفتگو میں بهی کی تھی –
اس کے علاوہ غازی شہید کی خواہش تهی کہ میرا پہلا جنازہ میانوالی کے لوگ پڑهیں کہ میرے میزبان ہونے اور میرے ساتھ محبت بھرے رویے کی بنا پر یہ ان کا پہلا حق ہے – ابوالفتح سرمد کی کتاب’ غازی علم دین شہید’ میں آپ یہ وصیت دیکهه سکتے ہیں – اور اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری بهی کر دی تهی ، ان کا پہلا جنازہ میانوالی کے لوگوں نے ہی پڑها تها – پہلے میں یہ بات بھول رہا تھا ، پروفیسر سلیم احسن نے اسی کتاب کے حوالے سے مجھے یہ بات یاد دلائی ہے – یہ کتاب انہوں نے میرے کہنے پر پڑھی تھی –
یہ پک میانوالی جیل کی اس کوٹھڑی کی ہے جسے غازی علم دین شہید کی آخری دنیاوی رہائش گا ہ ہونے کا اعزاز ملا – اب تک میانوالی میں سزائے موت کے جتنے قیدی پھانسی گھاٹ گئے ہیں ، ان کی یہی خواہش رہی ہے کہ ان کی زندگی کی آخری رات اس کوٹھڑی میں گزرے – اس کوٹھڑی پر غازی کی آمد اور آخری دن کی تفصیل لکھ دی ہے –
اور اتفاق سے میانوالی جیل کی اس کوٹھڑی کے بورڈ پر نظر پڑی ہے تو آپ سے تین سال پہلے کی خبر شیئر کرنے کو جی چاہا ہے جس سے آپ کو میانوالی کی فضا میں غازی کی خوشبو مہکنے والی بات سمجھ میں آجائے گی –
لاہور کے ایک شہری امتیاز رشید قریشی نے غازی علم دین شہید رحمتہ اللە علیہ کے کیس کو ری اوپن کرنے کی درخواست دی تو روزنامہ امت کراچی کے مرزا عبداقدوس نے ان سے پوچھا ، 84 سال بعد آپ کو یہ خیال کیوں آیا کہ غازی کا کیس ری اوپن کیا جائے ۔ قریشی صاحب نے بتایا کہ ان کے والد عبدالرشید قریشی ، جو کہ سابق جج اور عدلیہ اصلاحات کمیٹی کے چئیرمین رہ چکے ہیں ، ان کو سن 1985 میں ایک سیاسی قیدی کے طور پر میانوالی جیل میں اس کوٹھڑی میں بند ہونا پڑا تھا ۔ اس کوٹھڑی سے ان کو اتنے عرصے کے بعد بھی خوشبو آتی تھی ۔ ہم نے اس خوشبو کو پیغام سمجھا ۔ پہلےہمارے حالات سازگار نہیں تھے ۔ 2011 میں کوشش کی ، اب عدلیہ آزاد ہے ، اب دوبارہ درخواست دے رہے ہیں ۔۔۔۔
اس ضمن میں اہالیان میانوالی سے میری درخوست هے کہ میانوالی جیل کے جنوب میں واقع لاوارث قیدیوں کے اس قبرستان کی تاریخی جگہ اور روحانی مقام کو مناسب اہمیت دیں جہاں غازی کی میت 14 نومبر 1929 تک امانتا” دفن رہی – وہاں قبرستان کے اس گیٹ پر ایک بورڈ پر یہ تفصیل اور خالی قبر کی جگہ پر عارضی مدفن کی تختی لگا دیں تاکہ آتی نسلوں کی رہنمائی ہو سکے –
وما علینا البلاغ
( یہ مختلف چھ سات پوسٹیں میں نے تقریبا” پچھلے دو سال میں لکھی تھیں جو میں نے یکجا کر دی ہیں – میرے پاس یہ باتیں امانت تھیں جو میں نے پوری دیانت سے آپ تک پہنچا دی ہیں اور سنسنی خیزی اور مبالغے سے اجتناب کرتے ہوئے ممکن حد تک صحیح روایت کیا ہے پھر بھی آپ کو کہیں کوئی فرق یا تضاد محسوس ہو تو وضاحت کیلئے حاضر ہوں –
مجھے خوشی ہے کہ آپ دوستوں کو میری یہ کوشش پسند آئ ۔ غازی علم دین شہید کا کردار دنیا کیلۓ یہ پیغام ہے کہ کسی کو بھی حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جرآت نہیں کرنا چاہیے ۔ جیسے چور گھر والوں کی چھت پر پتھر پھینک کر اندازہ کرتا ہے کہ وہ سو رہے ہیں یا جاگ رہے ہیں ، دشنمنان اسلام اسی طرح کی اوچھی حرکتوں سے ہمارے ایمانوں کا اندازہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم سے ہماری محبت کے پیمانے سے لگاتے رہتے ہیں ۔ اس لئے عشق رسول کی نگرانی ہمارے ایمان کی بقا کے علاوہ ہمارے ملی وجود کیلئے بھی بہت ضروری ہے –
دوسری بات بہت اہم یہ کہ نبی سے عشق کرنے والوں پر اللە کی جو خصوصی رحمت ہوتی ہے ، غاذی علم دین شہید اس کی ایک روشن مثال ہیں ۔اپنے ایمان کو تازہ رکھنے کیلۓ ہمیں ان کا ذکر ہمیشہ تازہ رکھنا ہوگا ۔ ابھی یہ بحث باقی ہے کہ اس واقعے نے پاکستان کے قیام کیلۓ کتنی راہ ہموار کی……………

Back to top button