حزبِ اعتدالمیانوالی

عمران خان کا دستِ راست سلیم گل خان

عمران خان کا دستِ راست سلیم گل خان

پاکستانی کی سابقہ ’’ پارلیمانی تاریخ ‘‘ کی طرح ے2002 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلمنٹ کی تاریخ بھی کوئی قابلِ ذکر یا قابلِ فخر تاریخ نہیں ہے۔ ایک منتخب وزیر اعظم سے جبری استعفےٰ ، ایک غیر منتخب رکنِ قومی اسمبلی کو وزیر اعظم نامزد کرنے اور ایک رکنِ قومی اسمبلی کو عارضی وزیر اعظم بنانے بنانے کا واقعہ بھی اسی پارلمنٹ کی تاریخ کا حصہ ہے۔ایسے ہی بہت سے دوسرے واقعات کی وجہ سے پاکستان کی آئینی تاریخ شرمندگی کی تاریخ بن گئی ہے۔۔۔لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اسی پار لیمان کے پلیٹ فارم پر چھائی دھند کے نتیجے میں عمران خان کی صورت میں ایک ایسی قیادت منظرعام پر آئی ہے۔ جس کے اندازِ سیاست سے عوام خاصے متائثر ہوئے ہیں۔عمران خان نے اپنی سیاست سے اپنے آپ کو’’ مسٹر کلین ‘‘ثابت کیا ہے۔ اکتوبر 2002 ء کے عام انتخابات میں عمران خان انتہائی مشکل اور دشوار گذار پہاڑی علاقوں پر مشتمل این اے 71 سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ق کو اقتدار و اختیار کے مرکز و محور پرویز مشرف کی جرنیلی چھتری،کالاباغ کے نوابوں اور روکھڑی جیسے منجھے ہوئے سیاستدانوں کے ایک ہجوم کی مدد حاصل تھی۔لیکن دنیاوی جاہ حشمت سے بے نیاز ا س حلقے کے سچے سُچے اور بے نیاز لوگوں نے اپنی محبتیں عمران خان پر نچھاور کر دیں۔یہی وہ حلقہ ہے جو ماضی میں ہمیشہ نواب آف کالاباغ اور روکھڑی خاندان کے مقابلے میں ہمیشہ مولانا نیازی مرحوم کا پشتیبان ہوا کرتا تھا۔
اس حلقے نے جہاں عمران خان پر بہت کچھ نچھاور کیا وہاں اسے سلیم گل خان کی طرح ایک جانثار اور مخلص ساتھی بھی میسر آیا۔ سلیم گل خان نے جب پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھا کہ آج کا یہ نوخیز سیاسی کارکن بہت جلد اپنے قائد کے اعتماد کا حامل اور جانثار ساتھی بن جائے گا۔سلیم گل خان سے پہلے بھی تحریک انصاف میں بہت سے لوگوں اور شخصیات کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا ۔ان آنے اور جانے والوں میں بہت سے ایسے بھی شامل تھے جو تحریک انصاف کے قائد کے بہت قریبی تھے۔ لیکن تحریک کے لئے وہ کچھ نہ کیا جا سکا جو ہو چاہئے تھا یہی وجہ ہے 1997 ء کے عام انتخابات میں عمران خان اس نشست سے اٹھارہ ہزار سے زائد ووٹ حاصل نہ کر سکے۔
ایک شکست خوردہ جماعت کو قبائلی طرز معاشرت والے علاقے میں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا بہت مشکل کام تھا۔لیکن قومی سیاست میں عمران خان کی استقامت ، پامردی اور جرائت کے ساتھ ساتھ سیلم گل خان کی ان تھک محنت اور جد و جہد نے میانوالی کے حلقہ این اے 71 کو قومی ہیرو سے بے مثال محبت کا مظہر بنا دیا۔ سلیم گل خان نے عمران خان سے محبت اور تحریک انصاف سے اپنی کمٹمنٹ کو کبھی بے ثمر نہیں ہونے دیا۔دوردراز اور پہاڑی علاقوں میں اپنی جد وجہد کا آغاز اس نے اپنے پیدل سفر سے کیا۔آبلہ پائی اور راہ کی مشکلات کو کبھی اپنے مقصد کے آڑے نہیں آنے دیا۔عمران خان جب بھی نمل جھیل کے کنارے اپنے حسین اور سرمدی خواب کی تعبیر کا ’’ نمل شہر علم ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں تو وہ سلیم گل خان کی خدمات کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں ۔پاکستانی قوم کے لئے سرشاری اور فخر و انبساط کا باعث بننے والے عمران خان کی زبان سے ادا ہونے والے ان الفاظ کا میں خود گواہ ہوں کہ ’’ نمل کالج کی زمین کے معاملات سلیم گل نہ سنبھالتا تو شاید ابھی منزل ’’ دلی دور است ‘‘ والی بات ہو تی۔
جنرل پرویز مشرف کی فسطایت کے دور میں جب ’’ نمل کالج ‘‘ اور عمران خان کے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز کے لئے پاکستانی ایجنسیوں کے ’’ شرلک ہومز ‘‘ خاک چھانتے چھانتے نڈھال اور بے حال ہوئے۔تو ان کی رپورٹ میں جہاں عمران خان کو ’’ مسٹر کلین ‘‘ تحریر کیا گیا وہاں جن لوگوں کے بارے میں یہ کہا کہ ان پر کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے ان میں سلیم گل خان بھی شامل تھے۔
عمران خان اپنی قومی او ر بین الاقوامی مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے حلقہ انتخاب میں جاتا ہے۔ دور دراز کے پہاڑی علاقوں کا سفر کرتا ہے۔ لوگوں کی غمی خوشی میں شریک ہوتا ہے۔ اس کی ہمنوائی میں سلیم گل پیش پیش ہوتا ہے۔ عمران خان جب بھی میانوالی آتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا تھا پورا ضلع میانوالی اس کے استقبال کے لئے اُمڈ آیا ہو۔ یہ سب لوگ سلیم گل خان کی ہی تحریک پر جمع ہوتے ہیں اور اپنے بے مثل قائد کو ’’ جی آیا نوں ‘‘ کہنے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں۔ 2010 ء میں جب بپھرے شیر دریا کی خونی لہروں نے تباہی و بربادی کا ناقوس بجایا تو عمران خان وہ پہلا لیڈر تھا جو 29 جولائی کو سلیم گل خان کی معیت میں جناح بیراج پر موجود تھے۔ یہ عمران خان ہی کی تحریک کا نتیجہ تھا کہ دوسرے دن پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو سرکاری وسائل اور لاؤ لشکر کے ساتھ سیلاب زدہ علاقوں کا رخ کرنا پڑا۔اس کے بعد عمران خان نے جب سیلاب سے متائژہ علاقوں کے لئے امدادی سرگرمیوں کا کام شروع کیا تو سلیم گل خان نے انتہائی شفاف طریقے سے امدادی سامان کی تقسیم کو یقینی بنایا۔
آج حلقہ این اے 71 کے دوردراز علاقوں میں جائیں تو ویرانوں بیابانوں اور پہاڑی گھاٹیوں میں تحریک انصاف کا پرچم لہراتا نظر آتا ہے عمران خان کی جماعت کی اس پسماندہ علاقے میں مقبولیت کا عالم عمران خان کی شخصیت و کردار کے لئے اس عوامی گواہی کا مظہر ہے جسے دانا و بینا ’’ نقارہ خدا ‘‘ کہتے ہیں۔اس جد و جہد میں عمران خان کی شخصیت کے سحر کی طرح سلیم گل خان جیسے ساتھیوں کی جہدِ مسلسل بھی شامل ہے۔

Back to top button