تاریخمیانوالییادیں اور یادگاریں

’جامنو کالے کالے را۔ تے ٹھنڈ دیں گے پا‘‘ ….. ہریش چند نکڑہ کا وچھڑا وطن میانوالی

’جامنو کالے کالے را۔ تے ٹھنڈ دیں گے پا‘‘ چابی دا لٹھا چار آنے گز ….اے پنڈ سولاں‘‘ ’توں آکھیں تا میں تولاں‘ …………ساتویں قسط
میانولی معیشت
میانوالی کی آبادی کی اکثریت کا پیشہ اور ذریعہ معاش زراعت تھا وہاں کئی ایسے زمیندار تھے جن کی بیسیوں ایکڑ زمین تھی۔وہ خود کاشتکاری نہیں کرتے تھے بلکہ عموماً اپنی زمین کے چھوٹے چھوٹے حصے کردیتے تھے اورزمین کی کاشت کیلئے مزارع رکھتے۔زمیندار کنوئیں کھودنے اور ہٹ لگانے کیلئے پیسہ فراہم کرتا جبکہ مزارع مزدوروی اور بیج کے ذریعے اپان حصہ ڈالتا۔فصل کی کٹائی کے بعد جو پیداوار حاصل ہوتی وہ دونوں کے درمیان ایک طے شدہ شرح میں تقسیم ہوجاتی۔
زمین میں حل چلانے کیلئے بیل،بھینسا یا اونٹ استعمال کیا جاتا۔یہی جانور رہٹ کے ذریعے کنوئیں سے پانی نکلانے کیلئے بھی استعمال ہوتے۔کاشتکاری کیلئے زیادہ تر پانی کنوئیں سے ہی حاصل ہوتا تھا۔کیونکہ میانوالی میں بہت کم بارشیں ہوتیں اور وہاں کوئی نہر بھی نہ تھی۔حالانکہ دریائے سندھ میانوالی کے بالکل ساتھ سے گزرتا تھا۔تیل والے انجن سے چلنے والے ٹیوب ویل بہت کم تھے۔چونکہ پانی کیلئے پائپ استعمال نہیں ہوتے تھے۔زیادہ تر پانی کچے کھالوں سے بہتا تھا اور بہت سا ضائع ہوجاتا۔
سبزیاں زیادہ تر کنوؤں کے ساتھ اگائی جاتیں ۔میانوالی میں ہمیں ہر قسم کی سبزیاں مل جاتیں لیکن وہاں لال مرچ یا بھین نہیں ملتے تھے کالاباغ کی مولی نہات نرم اور میٹھی ہونے کی وجہ سے بیحد مشہور تھی۔بعض اوقات ایک مولی دس کلو کی بھی ہوتی۔میانوالی میں سوائے مسور کے تمام دالیں اگائی جاتی تھیں
کھجور(پنڈ)بڑی تعداد میں پیدا ہوتی اور کئی قسم اور رنگوں میں ملتی تھی۔پیلی،بھوری اور سرخ،بیج والی اور بغیر بیجوں کے۔کچی کھجور جنہیں ڈوکے کہتے تھے پکنے سے پہلے ہی میٹھے ہوتے ۔کچھ اور پھل بھی تھے جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ شاید ان کے انگریزی نام ہیں ہی نہیں۔مثلاً پیلوں،گُرگرے،شہتوت، املوک،سادہ بیر،پیمٹی بیر وغیرہ۔خربوزہ اور تربوز(ہدوانا)بھی عام پھل تھے۔جامن وہیں پیدا ہوتے اور ریڑھی والے ان کو بیچتے ہوئے یوں آواز لگاتے۔
’’جامنو کالے کالے را۔ تے ٹھنڈ دیں گے پا‘‘
’’جامن کالے کالے ہیں میرے بھائی انہیں کھاؤ تو تمہیں ٹھنڈ پہنچے گی۔‘‘ میانوالی میں کم درجے کے ریشے دار آم بھی پیدا ہوتے تھے۔ ہم انہیں’’مچھاں آلے امب‘‘(مونچھوں والے آم) بھی کہتے تھے مالٹے،سیب ،آڑو،کیلے، انگور،خوبانی (خومانی) لوکاٹ،لیچی،آلوبخارے گنا(کماند) اور ڈرائی فروٹ مثلاً بادام،پستہ، کشمش اور نیجے، پشاور، لاہور یا راولپنڈی سے آتے تھے۔
صنعت برف کاکارخانہ اور تلے والی جتی
کالاباغ کے آس پاس نمک کی کانیں تھیں کھانا پکانے کیلئے ہم سمندری نمک کی بجائے معدنی نمک استعمال کرتے تھے۔انڈیا میں بکنے والی معدنی نمک،خواہ پاکستان سے نہ بھی آیا ہو عام طور پرپاکستانی نمک کہلاتا ہے۔ اگر ہم اس کو صنعت کہہ سکتے ہیں تو میانوالی کی صنعت ایک برف کے کارخانے اور دال پیسنے والی مل تک ہی محدود تھی۔دونوں میں ڈیزل موٹریں لگی تھیں ۔ لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات مقامی دستکار پوری کرتے تھے ۔ جیسے جولاہے،کمہار،لوہار اور ترکھان جولاہے (پاولی) کھڈیوں پر کام کرتے اور کپڑا ،چادریں ،کھیس اور نواربنتے تھے۔
تجارت ایک اور اہم معاشی سرگرمی تھی جو کہ زیادہ ترہندوؤں کے ہاتھ میں تھی۔دراصل چند ایک بنیادی طورپر کاروباری خاندان بھی تھے جو کہ اپنے تجارتی شعبے کے معاملے میں بہت پر جوش تھے اور اس بات کو یقینی بناتے کہ ان کے بیٹے بھی وہی یا اس سے ملتا جلتا کوئی کاروبار کریں۔خواہ کسی کا ایجنٹ بن کر یا پھراپنی دکان بنا کر۔ان کا عمومی یقین یہ تھا کہ’’ترے وپار تے بوڑے وپار ڈبے او جنہاں چھوڑے وپار‘‘ یعنی صرف کاروبار ہی ہمیشہ کامیابی کی ضمانت دیتا ہے اور جو کاروبار چھوڑے دے اس کا ڈوبنا یقینی ہے۔
میرے آباؤ اجداد بھی بنیادی طور پر تجارت پیش ہی تھے۔لیکن بہت سی وجوہات ،مثلاً بعض کاروباروں کی تباہ کن ناکامی اور ملازمت کے شعبے میں بڑھتے ہوئے مواقع نے ترقی پسند سوچ کو جنم دیا۔میرے دادا اسی سوچ کے حامل لوگوں میں سے تھے۔جو یہ کہتے تھے کہ ہر خاندان کے ایک یا دو بیٹوں کو ملازمت والے شعبوں مثلاً درس و تدریس، طب یا سرکاری نوکری میں جاناچاہئے جبکہ باقی بیٹے کا روبار سنبھالیں۔یوں خاندان میں خطریکو کم کیا جاسکے۔وہاں یہ سمجھا جاتا تھاکہ مشکل گھڑی میں بھائی ایک دوسرے کی مدد کریں گے
میانوالی کی جوتا سازی کی صنعت بہت مشہورتھی۔بہت سے موچی جوتی اور چپل بنایا کرتے تھے۔میانوالی کی بنی ہوئی جوتی خاص طورپر ’’تلے والی جتی‘‘یا کھیڑی یا کھسہ بہت مشہور تھے اور پنجاب اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں ان کی مانگ اپنے ڈیزائن ،بناوٹ اور اعلیٰ معیارکی بندولت بہت زیادہ تھی۔
لوہاروں کا کاروبار بھی بہت چلتا تھا۔وہ ہل، زرعی آلات،ریڑھیاں،ٹرنک،تانگہ اور بیل گاڑی کے پہیوں کے فریم کے علاوہ گھریلو استعمال کی چیزیں مثلاً چاقو،درانتی(ڈاتری)، پرونڑ،توے اور چمٹے بنایا کرتے تھے۔بڑھئی (درکھان) چارپائیاں،کھڑکیاں،دروازے اور ٹانگے کے لکڑی والے حصے،فریم اور پہیئے بناتے تھے مالی(ارائیں)سبزیاں اگاتے جنہیں کنوؤں سے پانی دیا جاتا۔
بعض اوقات عورتیں گھروں میں ہی پتھرکی چکی پر گندم کو پیس کر آٹا بنا لیتیں۔اس کے علاوہ کچھ چکیاں ایسی بھی تھیں جو ڈیزل یا مٹی کے تیل والے انجن چلا کرتی تھیں۔وہاں سے پیسے دے کر گندم پسوائی جاسکتی تھی۔پیسے لینے کے علاوہ چکی والے آٹے میں سے کچھ حصہ وصول کرتے تھے جب بھی چکی چلتی ایک جانی پہچانی تیزسیٹی کی طرح کی آواز سنائی دیتی جو اس بات کا اعلان ہوتا کہ چکی کی خدمات حاضر ہیں۔
میانوالی کے چلتے پھرتے کاریگر
میانوالی میں چلتے پھرتے کاریگروں کا ایک دلچسپ گروہ تھا جو سب محلوں کا چکر لگاتے اور اپنی خدمات پیش کرتے۔جب سردیاں شروع ہوتیں،پینجا یعین رضائی میں روئی بھرنے والاآپ کے دروازے پر آجاتا۔اس کے پاس ایک بڑی سے لکڑی کی کمان ہوتی جس کے ساتھ رسی بندھی ہوتی تھی۔یہ بالکل ایک موسیقی کے آلے کی طرح لگتی۔لوگ اسے اپنے پرانی رضائیاں دیتے جن کی روئی یا اونی بھرائی استعمال کی وجہ سے اکٹھی ہوچکی ہوتی یا دب جاتی جس سے ان کی سردی روکنے کی اہلیت کم ہوجاتی۔پینجارضائی کا کور اتار کر روئی باہر نکال لیتا وہ اپنے آلے کی رسی کو یوں ہلاتا کہ روئی دوبارہ نرم ہوکر الگ الگ ہوجاتی۔تب وہ رضائی دوبارہ سی دیتا۔
اس کیعلاوہ وہاں چلتاپھرتا’’بالٹی آلا‘‘ بھی تھا۔بنیادی طور پر یہ لوگ لوہار تھے جو کہ صرف دھاتی چادروں کا کام جانتے تھے ۔یہ ٹرنک مرمت کرتے اور گھریلوبالٹیوں کے پیندے تبدیل کرتے تھے(اسی وجہ سے ان کا نام پڑا تھا)جو کہلوہے سے بنتے تھے۔چنانچہ انہیں زنگ لگ جاتا اس کے علاوہ ’’قینچی چاقو تیز کرن آلا‘‘بھی تھا۔یہ لوگ اپنی سائیکل کے ساتھ پتھر کی سلیٹ لے کر پھرتے تھے۔جب سائیکل کا پیڈل گھومتا یہ سلیٹ چاقو اور قینچی تیز کرنے کے کام آتی۔اس کے علاوہ قلعی والے کا ذکر بھی ضروری ہے جو جست اور تانبے کے اپنے گھریلو برتنوں پر کرومیم کی تہہ چڑھاتا تھا۔
چابی دا لٹھا چار آنے گز
اگرچہ عموماً معیار زندگی نچلے درجے کا تھا۔ کھانے اور پہننے کی بنیادی ضروریات کی چیزیں سب کی قوت خرید میں تھیں۔ ایک من گندم،جو سو پونڈ سے کچھ کم تھی۔صرف ایک روپے میں مل جاتی ۔ ایک روپے میں چھ درجن انڈے،دیسی گھی کا ایک سیر یا دودھ یا کھجوروں کے سوا سیر مل جاتے تھے کھجور بیچنے والوں کی یہ صدا اکثر سنائی دیتی۔
’’اے پنڈ سولاں‘‘ ’توں آکھیں تا میں تولاں‘
’’یہ کھجور ایک روپے کی سولہ کلو ہے اگر تم کہو تو تول دوں گا۔‘‘آٹھ پیسے میں تانگے پر ایک میل کی سواری کی جاسکتی تھی۔

Back to top button