تبصرہ

تلواروں سے شلواروں تک ………. تحریر خرم مشتاق

تلواروں سے شلواروں تک ………. تحریر خرم مشتاق

ویسے تو شلوار شرم و حیا کی علامت اور شرم گاہوں کو چھپانے کے کام آتی ہے مگر حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب کے مصداق شلوار کی اتنی شلوار اتری کہ اب اسے خود کسی شلوار کی تلاش ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اگر کسی کی شلوار پھٹی ہوتی اور اس معصوم نفس کو اس کا علم نہ ہوتا تو کسی میں اتنی ہمت نہ ہوتی کہ اسے یہ اطلاع دے سکے اور اب تو سپریم کورٹ کے جج ہوں یا میڈیا، ماروی اور مولوی (کیا خوب جوڑ ہے) شلوار کو زبانِ زد عام کر کے شہرتِ دوام بخش گئے۔ اب تو لگتا ہے کچھ عرصہ بعد درزی بھی پوچھا کریں گے بھائی کونسے والی وہ جو سپریم کورٹ کے باہر لٹک رہی تھی اچھا دائیں والی یا بائیں والی؟
بچپن گزر گیا اور اچھا گزر گیا کہ میاں بے لگام میڈیا نہ تھا اور جوانی دیوانی ہوگئی لیکن جو دین کی تشریحات اور دینی شخصیات کے حوالہ جات اب مولویوں نے پڑھانے شروع کئے یہ پہلے نہ کبھی سنے نہ پڑہے۔ ایسی اقدار کہاں سے آگئیں کہ انفرادی فعل قبیح پر معافی تلافی کی بجائے اجتماعی تحفظ اور وضاحتیں آنے لگیں؟ ایسی ایسی فضول اور لغو اور واہیات دلیلیں گھڑی جارہی ہیں اور شرمندہ ہم ایسے راندہِ درگاہ مردودِ حرم ہو رہے ہیں۔ بھئی ان پہ کوئی توہین مذہب بھی نہیں لگ سکتی کیوں کہ فتاویٰ کی فیکٹری تو انہیں کے پاس ہے۔
کچھ تو میرے گناہ کی عظمت پہ غور کر
اپنی خطا کو تیری رضا کہ گیا ہوں میں
میں ماروی سرمد کے رویے اور اس کے خیالات سے متفق نہیں ہوں لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ حمد اللّٰہ جو خود کو عالم و فاضل اور شریعت کا پابند سمجھتا ہے اسے یہ لائسنس مل گیا کہ وہ بھری محفل میں ایسی بکواس کرے۔ اور سوچنے کی بات ہے جس متشدد شخص کا رویہ لائیو نشریات پر ایسا ہے وہ تنہائی اور پردہ میں کیسا ہوگا؟ مجھے تو اس کے خاندان کی خواتین پر ترس آتا ہے۔
اس میں اینکر پرسن کے کردار پر لوگ خاموش ہیں حالانکہ یہ لوگ جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو مدعو کرتے ہیں جو ان کو ریٹنگ دلا سکیں۔ ماروی کے جو بزعمِ خود کو لبرل طبقہ کا نمائندہ سمجھتی ہیں اکسانے میں ان کا کردار بھی کم نہیں۔ لیکن اس سب کا حاصل کیا ہوا؟ میڈیا ریٹنگ؟ ماروی کے حامی گروہ کی ہاہاکار؟ ملاں کے مجاہدوں کی للکار؟ ایک انتہائی تکلیف دہ موضوع پر ایک مثبت مکالمے کی راہ بند، اصل موضوع سے توجہ ختم اور مولوی ماروی جنگ فیس بک اور ٹویٹر کے میدانوں میں جاری۔
میں چاہ تو رہا تھا کہ کسی مثبت موضوع پر ہی کچھ لکھوں لیکن بھلا ہو ان دونوں انتہا پرستوں کا مجبوراً مجھے بھی اسی پہ اپنے خیالاتِ فاسدہ بیان کرنے پڑے۔ چنگے بھلے لوگ ہوتے تھے، تلواریں اٹھا کر پھرتے تھے اب شلواریں سنبھالتے پھر رہے ہیں۔

Back to top button