قرض ……………… تحریر ، عنایت عادل
قرض
دنیاکے جھمیلوں میں الجھے لوگوں کو جھنجھوڑتی اور اپنے خالق حقیقی کی طرف متوجہ کرتی دلکش اور پراثر تحریر
انتخاب: عنایت عادل
میرا چہرہ جل گیا تھا، پلاسٹک سرجن نے سپر فیشل سکن کو مکمل طور پر Peel off کر دیا تھا اور ضروری Procedure کے بعد اسے پٹیوں میں جکڑ دیا تھا، تھوڑی سی آنکھوں کی جگہ کھلی تھی تاکہ دیکھ سکوں اور منہ کا دہانہ تاکہ کچھ لیکویڈ پائپ کے ذریعے اندر جا کر توانائی فراہم کرسکے۔ دوست، عزیز، اہل خانہ سب اس حادثے پر پریشان تھے، پریشان تو ایک لمحے کو میں بھی اس وقت ہوئی تھی جب جلنے کے فورا بعد آئینے میں اپنے چہرے کی اتری ہوئی جلد دیکھی تھی لیکن یہ وہ لمحہ تھا جب اللہ کے کرم سے ایک خیال نے میرے دل کو چھو لیا تھا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے تب میں نے اسے چپکے سے دل ہی دل میں کہا تھا مجھے تیرا ساتھ چاہئے، میں بہت کمزور ہوں، مجھ سے صبر کرالینا اور شکر بھی۔ اور اس کے بعد ایک عجیب بات ہوئی تھی۔ اللہ نے تکلیف کا ہر احساس مجھے بھلا دیا تھا۔ بظاہر میں تکلیف میں تھی لیکن اللہ نے مجھے تکلیف محسوس نہیں ہونے دی تھی۔ سرکاری ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں سفید پٹیوں میں جکڑا اپنا چہرہ دیکھ کر بہت سے ایسے چہرے میرے ذہن میں گھوم گئے تھے جو کسی نہ کسی جلدی بیماری کی وجہ سے سامان عبرت دکھائی دیتے تھے، جنہیں میں نے راہ چلتے یا کمپیوٹر سکرین پر کبھی ایک نظر دیکھا تھا اور اللہ سے بڑی معافی مانگی تھی، ان کے لئے آسان زندگی کی دعا کی تھی۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ میری سرجری ٹھیک بھی ہوئی یا نہیں؟کہیں ایسا نہ ہو جلنے کے نشان چہرے پر رہ جائیں، میرا چہرہ بگڑ جائے، مجھے لوگوں کیلئے عبرت بنا دیا جائے، یہ وہم مجھے ستارہے تھے، مجھے اپنے اعمال، اپنی کوتاہیاں یاد آنے لگیں، اپنے گناہوں سے خوف آیا۔ میں دنیا کیلئے عبرت کا نشان نہیں بننا چاہتی تھی۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی لیکن زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ کبھی کبھی بے اختیار بہتے آنسوؤں کو روکنا کتنا ضروری ہوتا ہے۔ رونا کتنا دشوار۔ مجھے خوف تھا کہیں یہ ناشکرگزاری نہ ہو، کہیں میرے آس پاس میرے اپنے پریشان نہ ہو جائیں اور پھر یہ وہم بھی تھا کہ آنسوؤں کا پانی کہیں پٹیوں میں جذب ہو کرجلے چہرے کے زخموں میں اضافہ نہ کردے۔ میں شکرگزار رہنا چاہتی تھی، مجھے اللہ کا ساتھ چاہئے تھا، میں آنسوؤں کوشکوہ نہیں بنانا چاہتی تھی۔ میں اپنے زخموں کو جلد مندمل ہونا دیکھنا چاہتی تھی اور پھر اچانک مجھے وہ ریسرچ یاد آئی کہ ہنسنے سے زخم جلد ٹھیک ہو جاتے ہیں، بیماری جلدی دور ہو جاتی ہے۔ ہم نے یہ سوچ کر ہنسنے کا ہنر سیکھ لیا درد رکھنا ہے تو پھر دیدۂ تر کیا رکھنا اللہ نے میرے دل میں ڈالا، میں نے اپنے اس فیز کو انجوائے کرنے اور اس میں پوشیدہ حکمت اورمثبت عنصر کو سمجھنے کیلئے خوشدلی و شگفتہ مزاجی کا مظاہرہ شروع کردیا، اپنے آنسوؤں کو ہنسی میں بدلنے کی ایک شعوری کوشش کی۔ ہنسی کی یہ گونج جب میرے اپنے کانوں تک پہنچتی تو اللہ پر میرے یقین اور توکل کو اور مضبوط کردیتی۔ وہ اللہ جس نے زندگی بھر مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا تھا، جونہی کوئی پریشان کن وہم مجھے ستانے لگتا، مجھے میرا رب دھیرے سے کہتا، دیکھو، گھبراؤ مت، سب کچھ بہت بہترین ہو جائے گا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اور میں اس کا ساتھ محسوس کرکے جی اٹھتی۔ مسکرا دیتی۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں جگمگا اٹھیں روشن چہرہ مسکرا اٹھا۔ وہ کوئی بہت نامور خاتون نہ تھی لیکن اس کا اللہ پر یقین اور توکل بے پناہ تھا، اللہ پر یقین کے موضوع پر منعقد ہونے والی ایک نشست میں ہست و نیست کے فورم پر اسے اظہارخیال کیلئے مدعو کیا گیا تھا اور وہ پہلی بار اپنی زندگی کی کتاب کا ایک باب صفحہ صفحہ کرکے کھول رہی تھی۔ اور آڈیئنس بہت توجہ، خاموشی اور تجسس سے اسے سن رہی تھی۔ پھر کیا ہوا؟ کیا آپ کے زخم ٹھیک ہوگئے؟ ایک بے تاب لہجہ پوچھ رہا تھا۔ ایک ہفتے بعد جب تیسری بار Procedure کے لئے مجھے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا، میں قدرے نیم بے ہوشی میں تھی، میں نے سرجن کو سنا جو کسی کو بتا رہا تھا کہ یہ خوش نصیب مریضہ ہیں۔ ان کا زخم بہت جلد ٹھیک ہوگیا ہے۔ عموما ایسا ہوتا نہیں۔ اس بار میرے چہرے کو پٹیوں سے آزاد کر دیا گیا تھا اور ضروری ماسک چہرے پر لگا دیا گیا تھا۔ الٹراوائلٹ شعاعوں، آلودگی اور حرارت سے بچنے اور کچھ مزید احتیاطوں کی ہدایت کے ساتھ مجھے رخصت کردیا گیا تھا۔ کوئی خاص بات جو اس سارے عرصے کے دوران آپ نے محسوس کی ہو؟ ایک اور سوال کیا گیا۔ میں نے دیکھا جب اللہ تعالی ہم پر مہربان ہوتا ہے تو وہ اپنی مخلوق کو ہم پر مہربان کردیتا ہے۔ آپ کسی کو مدد کیلئے نہیں پکارتے لیکن اللہ کے پیارے بندے حالات کی دھوپ میں آپ کیلئے چھاؤں بن جاتے ہیں۔ آپ کا اتنا خیال رکھتے ہیں، یوں محبتیں لٹاتے ہیں۔ مان بڑھاتے ہیں، ساتھ دیتے ہیں، درد کو کم کرنے کیلئے مسکراہٹیں تقسیم کرتے ہیں کہ آپ کو اللہ پر پیار آنے لگتا ہے کہ وہ کس کس طرح آپ کی دلجوئی کر رہا ہے۔ وہ کیسے کیسے آپ کو اپنے ساتھ کا احساس دلا رہا ہے۔ اس کی رحمت کے انداز کس قدرانوکھے اور دل ربا ہیں۔ یہ بھی لیکن حقیقت ہے کہ وہ آپ کیلئے بہتری، خوشی اورآسانی کا وسیلہ سب کو نہیں بناتا۔ جو توفیق مانگتے ، دل میں خواہش رکھتے ہیں نیکی کی یا جنہیں وہ عزیز رکھتا ہے انہی کو وسیلہ بناتا ہے وہ اپنے ہوں یا پرائے۔ ایسے حالات میں چھانٹی ہوجاتی ہے کہ کون درحقیقت اپنا ہے اور کون پرایا۔ آپ کو وہ شخص کبھی نہیں بھولتا جو آپ کی تکلیف پر ہنسا ہو۔ اور وہ شخص بھی جو آپ کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپے درد کوجان لے اور چپکے سے مرہم رکھ دے اور آپ کی تکلیف کو محسوس کرکے جس کی آنکھ نم ہو جائے، جسے آپکا درد اپنا درد لگے، جس کا دکھ سانجھا ہو جائے۔ ہم پرندے ہیں نہ مقتول ہوائیں پھر بھی آکسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں کیا دکھ، تکلیفیں، مشکلات، بیماری بھی باعث رحمت ہوسکتی ہیں؟ ایک نوجوان نے بے یقینی لہجے میں سوال کیا؟ ہر وہ شے رحمت ہے جو بندے کو رب سے جوڑ دے۔ اگر دکھ، تکلیف اور بیماری میں انسان بے چینی بے قراری اور مایوسی کے تاریک جنگلوں میں نہیں بھٹکتا بلکہ سکون، امید اور یقین کے جگنو اس کے من آنگن کو روشن کیئے رکھتے ہیں تو یہ رحمت ہی رحمت ہے۔رات کی سیاہی میں جب آپ کے سارے ہمدرد اور چار ہ گر نیند کی وادیوں میں ڈوبے ہوں، ایسے میں آپ کی ہلکی سی کراہ، آپ کا ایک خاموش آنسو۔ کچھ بھی تو نہیں چھپا ہوتا اس سے جو سب سے بڑھ کرآپ کا اپنا ہے۔ جسے نیند آتی ہے نہ اونگھ۔آپ بیقرار ہو کر کہتے ہیں۔ میرے اللہ! وہ جملہ پورا ہونے سے پہلے رسپانس دیتاہے۔ میں تمہیں دیکھ اور سن رہاہوں، تمہاری تکلیف سے باخبر ہوں لیکن تھوڑی حوصلے سے اس وقت کو کاٹ لو، کیونکہ میں تمہیں بلند درجات دینا چاہتا ہوں، گناہوں سے پاک کرنا چاہتا ہوں، اپنے سے قریب کرنا چاہتا ہوں۔ بس اس تکلیف کو میری رضا کی خاطر خوش دلی سے سہہ جاؤ۔ جب بندہ اس آواز پر دھیان دیتا اور عمل کرتا ہے تو وہ زمانے کے سامنے حالات کے جبر کے باوجود مسکرانا سیکھ جاتا ہے۔ ، نامساعد حالات کا شکوہ زبان پر نہیں لاتا۔ لیکن پے درپے آنے والی مشکلات سے مقابلہ کرتے کرتے کبھی جب وہ تھکنے لگتا ہے تو رات کی تنہائیوں میں کبھی سرتکیے پر رکھ کر توکبھی سجدے میں گر کر یوں آنسو بہاتا ہے جیسے کوئی بچہ ماں کی گود میں چھپ کر زاروقطار روتا ہے تاکہ ماں اسے تسلی دے، مجھے اورلاڈ سے اسے چپ کرائے۔ حضرت موسی نے ایک بار دریافت کیا۔ اے اللہ تعالی! تجھے میری کونسی ادا بہت پیاری لگتی ہے۔ اللہ نے فرمایا اے موسی! جب تیری ماں بچپن میں تجھے مارتی تھی تو تو اس کی گود میں چھپتا اور پناہ لیتا تھا۔ معروف صوفی سکالر سرفراز اے شاہ صاحب فرماتے ہیں رنج و الم، دکھ اور بیماری سب کی زندگی میں آتے ہیں لیکن یہ ان کی زندگی میں سب سے زیادہ آتے ہیں جنہیں رب تعالی نواز رہا ہوتا ہے۔ نوازے جانا رحمت ہی تو ہے، اگر آپ کی زندگی میں مشکلات زیادہ ہیں تو پریشان ہونے اور واویلا کرنے سے پہلے ذرا سوچئے کہیں آپ کو کسی اعلی کام کیلئے منتخب تو نہیں کیا جا رہا؟ اگر انعام یافتہ اور منتخب شدہ بندوں میں شامل ہونا ہے تو پھر خاص رویے کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اور جواس بات کو سمجھ جاتے ہیں وہ دکھ ہو یا سکھ اسی کی پناہ میں خود کو چھپاتے اور اسی سے رجوع کرتے ہیں جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔ حالات کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اور کن عوامل سے مدد لی جا سکتی ہے؟ ایک پرتفکر سوال گونجا۔ صبر اور صلو۔ مرضی کے برعکس حالات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے اور زبان و باڈی لینگویج کو ہر طرح سے شکوے سے روکے رکھنے کا نام صبر ہے۔ اور نماز جسے مومن کی معراج کہا گیا ہے اور جو اللہ کی بارگاہ میں خود کو محسوس کرنے اور اس سے تعلق جوڑے کا بہت خوبصورت انداز ہے۔ سجدے میں جب انسان سر رکھتا ہے تو اس کی پیشانی براہ راست اللہ سے ہمکلام ہوتی ہے۔ عاجزی کا بہترین اظہار ہے۔ اور عاجزی اللہ کو بے حد پسند ہے۔ یہ تکلیفیں انسان میں عاجزی ہی تو پیدا کرتی ہیں۔ ایک اللہ والے نے ایک بار بتایا تھا مجھ کہاللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے تکلیف میں مبتلا کرتا ہے تاکہ اس کی عاجزی کو سنے اور تب میں شکرگزاری سے بہت روئی تھی اللہ کی محبت کو محسوس کرکے کہ میں اتنی میلی، بدبودار، گناہوں سے لتھڑی ہوئی لیکن پھر بھی وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ آپ نے کہا کہ تکلیفیں عاجزی پیدا کرتی ہیں ،وضاحت فرمائیے کیونکہ ہم نے تو کچھ لوگوں کواس کے باوجود زیادہ بداخلاق اور متکبر پایا؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس لئے کہ عالم رنج میں انسان کو اپنی حیثیت، اپنے اختیار، اپنی طاقت اور وقعت کا بہت شدت سے پتہ چلتا ہے ، ایک بیمار شخص بہترین علاج کراتا ہے، مہنگی دوائیاں کھاتا اور مکمل پرہیز کرتا ہے لیکن صحت یاب نہیں ہوپاتا۔ تب اس پر یہ راز کھلتا ہے۔ کوئی بھی شے تب تک فائدہ نہ دے گی جب تک رب شفانہ دینا چاہے گا۔ آپ ناکامیوں سے نکلنے، تکلیفوں کو دور کرنے کیلئے ہر بہترین حربہ آزمالیں۔ لیکن تب تک آپ کی کوشش اور تدبیر رنگ نہیں لائے گی جب تک رب کی رحمت کی مہر نہیں لگے گی۔یہ باریک سا نکتہ سمجھ میں آنے کے بعد انسان کو اپنی بے بسی ڈراتی اور رلاتی ہے۔ اس کے اندر سے تکبر اور میں کے بت ٹوٹنے لگتے ہیں اور اس کے اندر اپنے کچھ نہ ہونے کا احساس جنم لینے لگتا ہے۔ جن سے رب محبت کرتا ہے جب تک وہ اس راز کو سمجھ نہ لیں۔ اپنی میں کو چھوڑ نہ دیں۔ عاجزی اختیار نہ کرلیں اس سبق کو پختہ یاد نہ کرلیں۔ قدرت انہیں امتحان میں ڈالتی رہتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے رب کو بھلا دیا۔ ان کے دلوں پر مہر لگ گئی، انہیں اپنا غلط بھی درست دکھائی دینے لگا۔ مصیبتیں اور تکلیفیں بھی ان کی سرکشی و تکبر کو کم نہ کرسکیں، وہ جب بھی شکست ، نقصان اور تکلیف سے دوچار ہوئے، جھکنے کی بجائے اکڑتے چلے گئے، اللہ نے ان کی رسی دراز کردی ان کے مرض کو اورزیادہ بڑھا دیا، اور تکبر کرنے والوں کے اعمال کو ضائع کردیا۔ عاجزی مومن کا وصف ہے اور تکبر شیطان کا جو جتنا شیطان کی راہ پر چلا، رحمت سے اتنا ہی دور ہوگیا۔ آخر یہ آزمائشیں کیوں آتی ہیں زندگی میں؟ ایک خوبصورت لڑکی نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں پوچھا؟ اللہ سورۂ اعراف کی آیت نمبر168 میں فرماتا ہے۔ اور ہم ان کو اچھے او برے حالات سے آزمائش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں۔ آزمائشیں ہمیں بہتر سے بہترین کی طرف لے جانے کیلئے آتی ہیں اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی معصومیت میں اللہ سے محبت کا دعوی کر بیٹھتے ہیں ۔ ہر ایک سے کہتے پھرتے ہیں، مجھے تو اللہ سے بہت پیار ہے۔ اللہ کہتا ہے۔ چل پھر آ جا اس محبت کو ثابت کرنے کیلئے ٹیسٹ دے۔ سہل زندگی گزارنی ہے تو اللہ سے محبت کرتے رہنا، اس کے کرم کے تذکرے بھی، لیکن کبھی برسرعام اس سے محبت کا دعوی مت کرنا۔ ورنہ ٹیسٹ دینا پڑے گا۔ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ جو مشکل وقت ہم پر آیا ہے یہ آزمائش ہے یا سزا؟ ایک ادھیڑ عمر شخص نے سوال کیا جو شاید کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتا تھا۔ ایک بہت بلند پایہ بزرگ ہیں حضرت باغ حسین کمال۔ انہوں نے اس کا بہت خوبصورت جواب دیا ہے۔ہر وہ تکلیف جو رب سے نزدیک کردے۔ وہ امتحان اور آزمائش ہے اور جو تکلیف اللہ سے دور کردے وہ سزا ہے۔ اور بزرگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ آزمائش ختم ہونے کے بعد انعام ضرور ملتا ہے۔ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے اور اللہ سے جڑے رہنے کیلئے بندہ کیا تدبیر اختیار کرے؟ایک اور سوال گونجا۔ خاتون نے مسکرا کر جواب دیا:اللہ سے باتیں کی جائیں، تکلیف کو پوشیدہ رکھنے کی بھرپور سعی کی جائے کیونکہ جو اپنی تکلیف کا لوگوں کے سامنے اظہارنہیں کرتا اس کیلئے مغفرت کی بشارت ہے اور جو تکلیف پر بھی شکرادا کرتا ہے اس کو تکلیف کو خوشی میں بدل دیا جاتا ہے۔ رحمت والوں پر جب کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو انہیں اس کا واویلا کرنے سے لاج آتی ہے کہ آج تک نعمتیں میسر رہیں جو کبھی اللہ سے نہ کہا۔ مجھ پر ہی اتنی کرم نوازیاں کیوں؟ تو پھراب کٹھن حالات میں کیسے کہہ دوں O Allah why me? یہ جو تکلیف کو چپ چاپ سہنے کا عمل ہے ناں یہ دل کو گداز کر دیتا ہے، رب سے جوڑ دیتا ہے، ٹوٹے ہوئے دل رب کو بڑے پسند ہیں۔ خستہ دل رب سے محو گفتگو رہتا ہے۔ کبھی کہتا ہے۔ ربا! تیرے سوا کون ہے جو مضطرب دل کی پکار کو سنے، اس کا جواب دے اور تکلیف کو دور کردے۔ کبھی لرزتی آواز میں کہتا ہے۔ اللہ جی! میں نے اپنی ذات پر ظلم کیا،اگر تو نے معاف نہ کیا، رحم نہ فرمایا تو میری زندگی خسارہ ہی خسارہ ہو جائے گی۔ کبھی اسے حضرت ایوبؑ کی بیماری اور رویہ یاد آتا ہے کہ وہ سخت بیماری کے باوجود رب سے اسقدر راضی تھے کہ دعا کی بھی تو براہ راست صحت یابی کی درخواست کرنے کی بجائے بڑے لطیف اور پیارے انداز میں فرمایا اے رب بے شک مجھے آزار پہنچا ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ پھر کبھی محبوب خدا ﷺ کے وہ الفاظ یادآتے اور زبان پر جاری ہو جاتے ہیں جو وہ مصیبت کے عالم میں فرمایا کرتے تھے۔ کہ بے شک ہم سب اللہ ہی کیلئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اے اللہ مجھے اس مصیبت کا بہترین اجر عطا فرما اور اسے میرے لئے خیر سے بدل دے۔ یوں دل ہی دل میں رب سے باتیں کرنے میں لطف آنے لگتا ہے، مضطرب دل کو قرار ملنے لگتا ہے، مشکل وقت پر لگا کر اڑنے لگتا ہے اور یہ یقین فزوں تر ہوتا جاتا ہے کہ یہ امتحان بھی اللہ کا کرم ہے اور اپنے جلو میں انعامات اور نوازشات الہی کو سمیٹے ہوئے ہے۔ کیا یقین کی یہ کیفیت ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے؟ ضروری نہیں، لیکن کوشش کے ذریعے اسے Develop کیا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی دعا بھی ضروری ہے کہ اللہ ہمارے اندر کے ٹیڑھ اور کجی کو دور کردے اور ہمیں خالص کندن بنادے۔ آپ نے کبھی لوہار کو کام کرتے دیکھا ہے؟ وہ خام لوہے کو خوب گرم کرتا ہے حتی کہ وہ سرخ ہو جاتا ہے پھر اس گرم لوہے کو وہ ٹھنڈے پانی میں ڈالتا اوراس کے بعد اس پر ضربیں لگاتا ہے تاکہ اسے مطلوبہ شکل میں ڈھال سکے۔ اعلی معیار کا لوہا بآسانی ڈھل جاتا ہے جبکہ ناقص اور ناخالص لوہا آگ کی حدت اور زور دار ضربوں کے باوجود کوئی بہتر شکل اختیار نہیں کرپاتا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بدہیئت ہو جاتا ہے۔دعا کرنی چاہیے کہ اللہ ہمیں اس ناقص لوہے جیسا ہونے سے بچائے جو حالات کا جبر سہنے کے باوجود خام ہی رہتا ہے۔ کیا زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے مشکل حالات سے گزرنا ضروری ہے؟ ایک نو عمر لڑکے نے جھنجھلاتے ہوئے سوال کیا۔ ایک سائنسدان اپنی تجربہ گاہ میں تتلی کے لاروے پر تجربات کر رہا تھا ۔لاروا تتلی بننے کے آخری مراحل میں تھا۔ سائنسدان نے دیکھا کہ لاروے میں ایک سوراخ بن گیا ہے۔ یہ خول اتنا چھوٹا تھا کہ تتلی کیلئے اس سے باہر نکلنا ناممکن تھا لیکن اس کے باوجود وہ بھرپور زور لگا کر اس سوراخ سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سائنسدان نے سوچا کیوں نہ میں اس سوراخ کو بڑا کردوں تاکہ تتلی بآسانی باہر آ سکے۔ اس نے ایک آلہ کی مدد سے لاروے کے خول میں اتنا بڑا سوراخ کر دیا کہ تتلی آسانی سے باہر آ سکتی تھی اور وہی ہوا۔ تتلی ذرا سی دیر میں بغیر کوشش کے لاروے سے باہر آ گئی۔ مگر سائنسدان اس وقت شدید حیران رہ گیا جب اس نے دیکھا کہ تتلی باوجود کوشش کے پرواز نہیں کرپا رہی ۔ حتی کہ اس کے پر بھی پوری طرح نہیں کھل پا رہے۔ سائنسدان اس تتلی کو اپنے سینئر سائنسدان کے پاس لے گیااور سارا ماجرا بیان کیا، اس نے سرد آہ بھری اور تاسف سے بولا۔ تم نے اپنی بے وقوفی کی وجہ سے تتلی کو ساری زندگی کیلئے معذور بنا دیا۔ جب تتلی لاروے سے باہر آنے کیلئے زور لگا رہی ہوتی ہے تو اس وقت مفید مادے اس کے پروں میں سرائیت کر جاتے ہیں انہی مادوں کی وجہ سے تتلی کے پروں میں جان آتی ہے اور وہ اڑنے کے قابل ہو جاتی ہے، تم نے اس کی مدد تو کر دی ،مگر ان مفید مادوں سے اسے محروم کر دیا۔ مشکل حالات ہماری صلاحیتوں اور قابلیت کو مہمیز کرتے ہیں۔ ہماری شخصیت کے نوکدار کونوں کو گول کرتے ہیں، ہمیں نامساعد حالات میں خوبی کے ساتھ پرواز کرنا سکھاتے ہیں۔ اور ایک بہت ہی اہم بات یہ بھی ہے کہ قدرت جب کسی انسان سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہے تو اس کی تربیت اس انداز میں کرتی ہے کہ مشن کی راہ میںآنے والی صعوبتیں اور تکلیفیں اسے بھاگنے پر مجبور نہ کردیں، بلکہ وہ ان کی حکمت کو سمجھتے ہوئے استقامت سے آگے بڑھتا چلا جائے۔بعض اوقات ہم بہت کوشش کرتے ہیں لیکن اندر سے میں نکلتی ہی نہیں۔ یہی زعم ہوتا ہے میں چاہوں تو ساری کائنات تسخیر کرلوں؟ اپنی ٹریننگ کیسے کریں؟ میں کچھ نہیں ہوں یہ وہ سچ ہے جسے ہرحال میں نہ صرف یاد رکھنا بلکہ گاہے بگاہے اس پر غوروفکر کرنا بھی ازحد ضروری ہے بجا کہ انسان کے پاس ایک ٹانگ اور اٹھانے کا اختیار تو ضرور ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حتمی مرضی و فیصلہ رب ہی کا ہے وہ نہ چاہے تو ہم بھلے چنگے ہونے کے باوجود ہزار کوشش کرلیں ٹانگ اوپر اٹھانا تو درکنار اسے حرکت تک نہیں دے سکتے۔ہر اختیار کا مالک صرف رب ہے۔ وہ جب چاہے ہمیں عطا کردہ اختیار واپس لے لے۔آپ نے کبھی تجربہ کیا؟ رات کو اچانک آنکھ کھلتی ہے ، گہرا اندھیرا چارسو،کچھ دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا، آپ پلکیں جھپکتے اور آنکھیں ملتے ہیں۔ چند لمحوں بعد آنکھیں تاریکی سے مانوس ہو جاتی ہیں منظر واضح ہو جاتا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم کئی بارآنکھیں ملیں، پلکیں جھپکائیں لیکن تاریکی روشنی میں نہ بدلے،منظر واضح نہ ہو، کچھ دکھائی نہ دے، کیا آپ کے اختیار میں ہے کہ تاریکی کو روشنی میں بدل سکیں؟ سر میں ہلکا سا دردہو تو ہم اسے ٹھیک کرنے پر قادر نہیں، چھینک آئے بغیر واپس چلی جائے تو ہماری حالت دیکھنے والی ہوتی ہے، چہرے پر ایک چھوٹا سا دانہ نکل آئے تو ہم اپنی مرضی سے اسے فورا ٹھیک نہیں کرسکتے۔ذرخیز ذہن ہونے کے باوجود ہزار کوشش سے بھی کبھی ایک مناسب جملہ نہیں لکھ پاتے، لکھتے اورکاٹتے رہتے ہیں۔ شفاف، غیر آلودہ فضا میں لمبی گہری سانس لینا چاہیں تو آدھی سانس سینے میں ہی کہیں اٹک جاتی ہے۔ کیا یہ ہے انسان کا اختیار جس پر وہ اتراتا پھرتا ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ آلودہ ماحول
میں بغیر کسی شعوری کوشش کے ہم سانس لیتے ہیں کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم سانس لیں، ہم قدم اٹھاتے ہیں اور چلنے لگتے ہیں کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم چلیں، ہم قلم اٹھاتے ہیں اورلکھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ چاہتاہے کہ ہم لکھیں، ہم حواس خمسہ کی مدد سے دنیا کی رنگینیاں اورقدرت کے نظارے دیکھتے ہیں، مسحورکن آوازوں کو سنتے ہیں، ہر ذائقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، ماں کا لمس محسوس کرتے ہیں، خوشبوؤں کوسونگھتے ہیں کیونکہ وہ چاہتا ہے جس روز وہ نہیں چاہے گا۔ ہم بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکیں گے۔ وہ چاہے تو ایک لمحے میں کہانی کا عنوان، ہر سطر، ہر لفظ، ہر حرف بدل ڈالے۔ کیا ہم اسے مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ ہماری زندگی کی کتاب کو ہماری مرضی کے مطابق رہنے دے؟پھر کیسی میں؟ کیسا فخر؟ کیسا زعم؟ نشست کے اختتام کا مقررہ وقت کب کا ختم ہو چکا تھا لیکن حاضرین کا شوق اور تجسس نئے نئے سوالات کی صورت ابھر کرسامنے آ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہرکسی کو ایسے پتوارمل گئے ہوں جن کی مدد سے وہ زندگی کشتی کو بھنور سے نکال سکتے ہوں۔ لیکن ابھی کہیں بے چینی بھی تھی، تبھی ایک خاتون نے ہچکچاتے ہوئے سوال کیا کہ جب حتمی فیصلہ اور مرضی اللہ کی ہے تو پھرمحنت، جستجو اور کوشش کرنیکی کیا ضرورت ہے؟ ضرورت ہے بہرحال عطا کردہ اختیار کواستعمال کرتے ہوئے بھرپور محنت اور جستجو کرنا ہم پر فرض ہے نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا اور اس کو بخوشی قبول کرلینا خوش قسمتی بھی ہے اور عقلمندی بھی۔ لیکن اپنے اختیار پر ہم کبھی مان نہ کریں۔ فخر نہ کریں، ڈرتے رہیں کیونکہ جس نے اختیار دیا وہ واپس بھی لے سکتا ہے۔ (کوئی پیغام جو آپ دینا چاہیں؟ منتظمین محفل میں سے ایک فرد نے کہا انداز سوالیہ تھا۔ میری استدعا ہے کہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اللہ سے باتیں کرنے کی کوشش کیا کریں، جیسے آپ اپنے دوستوں سے باتیں شیئر کرتے ہیں، اس سے کیا کریں، اسے اپنی انگلی پکڑا دیجئے کہ مجھے جس طرف چاہے لے جا، بے شک تو میری بہتری کو مجھ سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ بس جس سمت بھی لیکر جانا ،میں کمزور ہوں مجھے اس پر دل سے راضی رکھنا، اپنی چاہت کو میری چاہت بنادینا۔) ایک آخری سوال، آپ کے مطابق ہر تکلیف میں بہتری ، انعام اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، آپ کے چہرہ جلنے کے واقعہ میں کیا حکمت نہاں تھی؟ سوال سن کر خاتون کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد وہ یوں گویا ہوئی: سب کچھ تو شاید میں بیان نہ کر پاؤں لیکن میں نے اللہ کے پیار اور رحمت کواس دوران پل پل محسوس کیا اور اس دوران جوکچھ سیکھا اور محسوس کیا وہ آج آپکے سامنے عرض کر دیا کیونکہ اسے آپ تک پہنچانا مجھ پر ان دنوں کا قرض تھا جو آج میں نے چکا دیا۔ ان لفظوں کو آپ تک پہنچانے کیلئے بھی شاید مجھے اس حادثے سے گزرنا تھا۔ وقت کی یہی حکمت و مصلحت تھی کہ مشکلات اور تکلیف کو ایک نئے زاویے سے دیکھا جاسکے۔ اللہ کی رحمتوں اور کرم نوازیوں کومحسوس کیا جاسکے۔ میں توشاید حق ادا نہ کرپائی لیکن آپ بھلے اور نیک دل لوگ ہیں، فہم و فراست اور عمل میں مجھ سے کہیں آگے۔ مجھے یقین ہے آپ ان تمام حقیقتوں، حکمتوں اور مصلحتوں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ کراللہ کے پیار، مہربانی اور رحمت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی زندگی کو مزید بہتر بناسکیں گے، اللہ پر یقین ہوتو سارے بیڑے پار ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنا قرض چکا دیا اب آپ کی باری ہے۔