تاریخ

ایک تاریخی مغالطہ کی درستگی غازی علم الدین شہید کا مقدمہ اور قائد اعظم

ایک تاریخی مغالطہ کی درستگی
غازی علم الدین شہید کا مقدمہ اور قائد اعظم
تحریر و تحقیق : خالد سعید ایڈووکیٹ ایم ۔ اے ( سیاسیات ) ایل ایل بی 14680595_1625732544391938_3826963242152853090_n
باعث تحریر آنکہ! ایک دن سینئر فوجداری وکیل سے گفتگو کے دوران ان کی بات کو سن کر بہت دکھ ہوا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے غازی علم الدین شہید کو ٹرائل کے دوران کہا تھا کہ وہ راجپال کے قتل سے انکاری ہو جائے لیکن غازی علم الدین شہید نے قائد اعظم کی اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں شہید ہونا چاہتا ہوں اور شہادت میری آرزو ہے ۔ عام طور پر لوگ بشمول وکلاء یہ سمجھتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے غازی علم الدین کا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور کی عدالت میں ترائل وکیل کے طور پر مقدمہ لڑا تھا حالانکہ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے جس کو دور کرنے کی ابھی تک کوشش نہیں کی گئی ۔ قائد اعظم نے غازی علم الدین شہید کی طرف سے اس کی اپیل جو لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی صرف اس پر بحث کی تھی ۔ اس اپیل پر قائد اعظم نے لاہور ہائیکورٹ میں جن نقاط پر بحث کی اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے ۔
ہندوستان کی تاریخ پر تحریک خلافت نے گہرے اثرات مرتب کئے ۔ تحریک کے دوران ہندو مسلم اتحاد کے بے نظیر مظاہرے دیکھنے میں آئے لیکن ہندو مسلم اتحاد کا یہ مصنوعی باب جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔ ہندو مہا سبھا اور آریہ سماجیوں نے مسلمانوں کے مذہب ، تمدن اور سیاسی تاریخ کو مسخ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ آریہ سماجیوں کی سر گرمیوں کے مراکز تمام ہندوستان میں موجود تھے لیکن لاہور ان کا خاص مرکز تھا ۔ 1923ء میں لاہور کے ایک پبلشر راج پال نے لعین پروفیسر چیمابتی کی کتاب شائع کی ۔ جس میں حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر ناروا حملے کئے گئے تھے ۔ اس کتاب کے چھپتے ہی مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔ مسلمانوں کی طرف سے کتاب کے پبلشر راج پال پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ چلا دیا گیا ۔ ما تحت عدالت نے مقدمہ کی سماعت کے بعد ملازم کو دو سال قید سخت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا سنائی لیکن عدالت عالیہ کے ہندو چیف جسٹس سر شادی لعل نے راج پال کو بری کر دیا ۔ اس سے مسلمانوں میں مزید اشتعال پیدا ہوا ۔ 27ستمبر 1927ء کو ایک مسلمان خدا بخش نے راج پال پر حملہ کیا لیکن وہ بد بخت بچ گیا ۔ 9اکتوبر 1927کو ایک اور نوجوان عبدالعزیز نے دوبارہ راج پال پر حملہ کیا لیکن اس بار بھی وہ موت کے منہ میں جانے سے بچ گیا ۔ اس کے بعد لاہور کے سریاں والا بازار کے غازی علم الدین شہید نے راجپال پر حملہ کیا اور اسے موت کی گھاٹ اتار دیا ۔ غازی علم الدین شہید پر سیشن عدالت میں مقدمہ چلا تو اس کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا ۔ سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی گئی جس کی پیروی کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح کو بمبئی سے لاہور بلوایا گیا ۔ اس سلسلے میں قائد اعظم نے عدالت عالیہ کو تار دیا کہ15جولائی کو مقدمہ کو سماعت کے لئے تاریخ مقرر کی جائے۔یاد رکھا جائے کہ پنجاب کے مشہور سیاسی راہنما اور وکیل سر محمد شفیق نے اس مقدمہ کی پیروی کرنے سے اس وجہ سے انکار کر دیا تھا کہ ہندو اسے برا سمجھیں گے۔اس وقت ایک ہائی کورٹ کا وکیل دوسرے ہائی کورٹ میں پریکٹس نہیں کر سکتا تھا۔اس لئے بمبئی ہائی کورٹ کے مسٹر جناح کو پنجاب ہائیکورٹ کے جج مسٹر جسٹس براڈو ے نے اجازت دینے کی مخالفت کی لیکن چیف جسٹس سر شادی لعل نے قائد اعظم کو پیش ہونے کی خصوصی اجازت دی۔
15جولائی 1929ء کو جسٹس براڈ وے اور جسٹس جانسن کے رو برو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔قائد اعظم محمد علی جناح نے مقدمہ کے واقعات کو سامنے رکھ کر انتہائی قابلیت کے ساتھ غازی علم الدین کے بے گناہی ثابت کی۔سب سے پہلے قائد اعظم نے عینی گواہوں کے بیانات پر جرح کی۔قائد اعظم نے عدالت کو بتلایا کہ عینی گواہ کدار ناتھ مقتول کا ملازم ہے اس لئے اس کی گواہی تامل اور غور کے بعد قبول کرنی چاہئے۔دوسرے کدار تاتھ نے اپنے ابتدائی بیات میں بھگت رام نے بیان کردہ قاتل غازی علم الدین پر کتابیں پھینکیں اور اس کا تعاقب کیا۔کدار ناتھ نے ابتدائی بیان میں ملزم کے متعلق یہ نہیں کہا کہ اس نے گرفتاری کے بعد اقبال جرم کیا۔عدالت سیشن جج میں وہ بیان دیتا ہے کہ ملزم نے کہا ہے کہ میں رسول کی عزت کا بدلہلیا ہے۔ان حقائق سے قائد اعظم نے یہ ثابت کیاکہ عینی گواہ نمبر2کدار ناتھ جھوٹا ہے۔اسی طرح قائد اعظم نے دوسرے عینی گواہ یعنی بھگت رام کی شہادت کی کمزوریاں واضح کیں۔اس کے بعد انہوں نے وزیر چند نائک چند اور پر مانند وغیرہ کے بیانات پر نقادانہ بحث کرکے ثابت کیا کہ کوئی بیان اصلاً قابل اعتمادنہیں بلکہ ایسا معلوم ہو تا ہے کہ ایک خاص بیان و ضع کر کے مختلف آدمیوں کو طوطے کی رٹا دیا گیا ہے۔
قائدا عظم نے اپنی بحث میں سب سے اہم نکتہ یہ نکالا کہ عام بیانات کے مطابق واقعہ کے وقت مقتول کی دوکان پر ایک مقتول اور اس کے دو ملازم تھے۔ڈاکٹر کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ مقتول کے آٹھ زخم لگے یعنی اٹھارہ انیس سال کے ایک معمولی نوجوان نے دن دہاڑے تین مردوں میں گھس کر ایک کے جسم میں آٹھ دفعہ چھری گھونپی اور نکالی ااور تین آدمی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے،اس کو عقل انسانی صحیح تسلیم نہیں کرسکتی۔اس کے بعد مسٹر محمد علی جناح نے آ تمارام کباڑی کی شہادت پر جرح کی اور اس کی شہادت کا تارو پودیکھرا اور اس کے خلاف کئی دلائل قائم کئے۔مثلاً
(۱)پہلی بات قائد اعظم نے ثابت کی کوئی دوکاندار اتنا باریک بین نہیں ہو سکتا کہ اپنے ہر گاہک کو یاد رکھے جو کہ اس کی دوکان پر صرف ایک مرتبہ آیا ہو۔اس کباڑی نے ملزم کو شناخت پریڈ کے دوران کے ملزم کے چہرے کو ایک نشان کو دیکھ کر پہچانا ہے۔ظاہر ہے کہ پولیس نے اسے یہ نشان بتلادیا ہو گا کہ جس کی بناء پر اس نے ملزم کو شناخت کر لیا۔
(۲)گواہ آ تما رام کا دعویٰ تھا کہ وہ چاقوؤں کو پہچان سکتا ہے لیکن جب چاقو اس کے رو برو پیش کئے گئے تو وہ پہچان نہ سکا۔گواہ آتما رام کباڑی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہے لہذا ان حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آتمارام سکھایا پڑھا یا ہوا گواہ ہے۔
اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اس سوال پر سیر حاصل بحث کی کہ اگر علم الدین قاتل نہیں تھا تو اس کے کپڑوں پر انسانی خون کے دھبے کس طرح لگے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر کا یہ بیان پیش کیا کہ مقتول کا خون فوارے کی طرح نہیں اچھلا اور جب حالت یہ ہے تو بیان کردہ قاتل کے جسم پر دھبے نہیں پڑ سکتے لیکن ڈاکٹر نے کہا کہ ڈاکٹر کی شہادت کا یہ حصہ بالکل لغو ہے۔ اسے رائے دینے کا کوئی حق نہیں تھا۔سیشن جج اس بات کو تسلیم کرتا ہے مقتول کا خون فوارے کی طرح نہیں اچھلا اور اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ ملزم کے کپڑے مقتول کی لاش سے چھوئے نہیں لیکن لکھتا ہے کہ ڈاکٹر کی رائے کے مطابق یہ خون انسانی ہے۔اس لئے مقتول کا خون اور چھری سے ٹپک کر ملزم کے کپڑوں پر گرا ہے۔مسٹر جناح نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جس خون کے دھبے ملزم کے کپڑوں پر ہیں وہ واقعی مقتول کا ہے۔مسٹر جناح نے کہا کہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ یہ خود ملزم کا خون ہے۔ملزم کا بیان ہے کہ اسے گرفتار کرنے کے بعد ہندوؤں نے اسے مارا پیٹا اور اس مار پیٹ سے اس کی انگلی اور ران پر زخم آئے۔مسٹر جناح نے ایک اہم بات یہ کہی کہ سیشن جج نے مسلم اسیسروں کی رائے کے سلسلے میں خواہ مخواہ ہندو مسلم سوال پیدا کیا۔اس مقدمے میں چار اسیسرتھے۔دو مسلمان اور دو غیر مسلم،مسلمان اسیسروں نے ملزم کو بے گناہ بتلایا۔غیر مسلم اسیسروں نے جرم کا اثبات کیا۔سیشن جج نے لکھا ہے کہ مسلم اسیسروں کے فیصلے پر یقین نہیں کیا جاسکتا اس لئے جو ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں فرقہ وارانہ تعصب موجود ہو۔مسٹر جناح نے اس پر بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان اسیسروں کے فیصلے پر یقین نہیں کیا جاسکتا اس لئے ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں فرقہ وارانہ تعصب موجود ہو۔مسٹر جناح نے اس پر بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان آسیسروں کے متعلق یہ کیوں کہا گیا دوسرے آسیسروں کے متعلق کیوں نہیں کہا گیا۔ہو سکتا ہے دونوں مسلمان آسیسروں کے فیصلے بالکل ایماندار نہ ہوں۔ان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ وجہ بتلائیں کہ وہ فلاح فیصلے پر کیوں پہنچے۔یہ امر افسوسناک ہے کہ جج نے مسلمان اسیروں کے متعلق تعصب کا اظہار کیا۔ملزم کے حق میں جو شہادت تھی سیشن نے اسے نا قابل قرار دیا ۔ اور کے خلاف جو شہادت تھی اسے درست سمجھا۔اس پر جسٹس براڈ وے نے کہا کہ جج کو اختیار ہے کہ وہ جس شہادت کو چاہے قبول کرے جس کو چاہے مسترد کرے۔مسٹر جناح نے جواب دیا کہ یہ صحیح ہے مگر قبول و عدم قبول کے لئے دلیل بھی ہونی چاہئے۔علم دین کو بے گناہ ثابت کرنے کے بعد مسٹر جناح نے مقدمہ کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالی اور بحث جاری رکھتے ہوئے فرمایا اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ملزم واقعی قاتل ہے تو بھی اس کی سزا پھانسی نہیں بلکہ عمر قید ہونی چاہئے۔اس کے لئے مندرجہ ذیل دلائل پیش کئے۔
(۱)ملزم کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے۔
(۲)راج پال نے ایسی کتاب چھاپی جسے عدالت عالیہ نے بھی نفاق انگیز اور شرا انگیز قرار دیا۔
(۳) ملزم نے کسی لغو اور ذلیل خواہش سے یہ ارتکاب نہیں کیا بلکہ ایک کتاب سے غیرت کھا کر ایسا کیا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے عدالت عالیہ کے سامنے تقریر میں عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ وہ ملزم کو اس الزام سے بری کر دے ۔ قائد اعظم نے فرمایا سب سے پہلے میں اس پولیس افسر کو شہادت کی طرف عدالت عالیہ کی توجہ مبذول کراتا ہوں جس نے بیان کیا کہ ہم ملزم سے یہ اطلاع پاتے ہی کہ میں نے آتما رام کباڑی سے یہ چھری خریدی ہے ۔ فوراً اس کی دوکان پر پہنچے ، پولیس نے بذات خود کوئی تفتیش نہیں کی اور صرف ملزم کے بیان پر اکتفا کیا لیکن دفعہ 27قانون شہادت کی رو سے ملزم کا بیان بطور شہادت پیش نہیں ہو سکتا ۔ میں چاہتا ہوں کہ جج صاحبان اس کا فیصلہ صادر کریں ۔ مسٹر جسٹس براڈ وے نے کہا کہ شہادت کے قابل قبول یا نا قابل قبول ہونے کے سوال کا فیصلہ کرنا عدالت ماتحت کا کام ہے ۔ مسٹر جناح نے کہا کہ آپ اس نقطہ پر اب نہیں تو آخر میں فیصلہ کر سکتے ہیں ۔
سلسلہ بحث جاری رکھتے ہوئے مسٹر جناح نے کہا کہ اب غور طلب امر یہ ہے کہ ملزم کو اس مقدمہ میں ماخوذ کرنے کی کافی وجوہ موجود ہیں یا نہیں ۔ 6۔ اپریل کو راج پال قتل کیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ جس نے راج پال کو قتل کیا وہ کون تھا ۔ استغاثہ کی شہادتوں میں دو عینی گواہوں کے بیانات ہیں ۔ یہ دونوں گواہ کدار ناتھ اور بھگت رام ہیں ۔ ان عینی گواہوں کے قابل اعتماد ہونے کو پرکھنے کیلئے میں فاضل ججوں کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں گواہ راج پال کے ملازم تھے ۔ ان شہادتوں کے پرکھنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ ان کے بیانات کے اختلاف کو دیکھا جائے ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی اس بحث کے بعد عدالت نے سرکاری وکیل کا جواب سنے بغیر حاضرین کو باہر نکال دیا اور فیصلہ محفوظ رکھا ۔ چار بجے شام کے قریب عدالت نے فیصلہ سنایا اور اپیل نا منظور کر دی ۔

Back to top button