ضابطہ حیات

توصیف احمد کی تحریر ’’ ہماری ترجیحات دین یا دنیا ‘‘

ہماری ترجیح دین یا دنیا
(توصیف احمد)
ابراہیم صاحب متوسط گھرانے کے سمجھدار انسان ہیں ان کے تین بیٹے ہیں ، ان کا بڑا بیٹا معین نہایت سمجھدار بچہ ہے، اس نے بچپن سے ہی تعلیم کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا شروع کر دیئے تھے، ہر جماعت میں اول پوزیشن، با ادب، لڑائی جھگڑے سے دور رہنے کا عادی، ابراہیم صاحب کو ناز تھا اپنے اس بچے پہ، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کو ڈاکٹر بنائیں گے، بچہ جب سمجھدار ہوا تو اس کا رحجان انجینئرنگ کی طرف زیادہ تھا، بولا بابا میں انجینئر بننا چاہتا ہوں، باپ نے بات مان لی اور اس کو اسکی مرضی کی تعلیم حاصل کروا دی، دوسرا بیٹامبین بھی کم نہیں تھا، وہ بھی بڑے بھائی کی دیکھا دیکھی تعلیمی میدان میں کامیابی سمیٹنے لگا، اس نے محسوس کیا کہ اسکے بابا کی خواہش ہے کہ میرا ایک بیٹا ڈاکٹر بنے تو اس نے فیصلہ کیا کہ بابا کی یہ خواہش میں پوری کروں گا، باپ کو کیا چاہیئے تھا اس نے دوسرے بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کی ٹھان لی، مگر تیسرا بیٹانعیم دونوں بھائیوں سے مختلف تھا، جتنی اچھائیاں پہلے دونوں بھایؤں میں تھیں اتنی ہی برائیاں تیسرے میں تھی، بات بات پہ جھگڑنا، سکول نا جانا، بری صحبت میں رہنا اس کا معمول تھا، باپ نے ہر حربہ آزمایا مگر معاملہ جوں کا توں رہا۔ جب کوئی حربہ کارگر ثابت نا ہوا تو ماں نے مشورہ دیا کہ اس کو مدرسے میں ڈال دو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ باپ کو بھی یہ تجویز دل کو لگی اور ایک دم سے جذبہ ایمانی بھی جاگ اٹھا کہ باقی اولاد کو دنیا داری میں ڈال دیا چلو ایک بچہ تو خدا کی راہ پہ بھی چلا دوں اس سے میں بھی سرخرو ہو جاؤں گا، تو تیسرا بیٹا نعیم مدرسے میں پہنچ گیا۔
یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ اگر لوہار کو سنار کا کام دے دیا جائے تو وہ اپنے طریقے سے ہی کام کرے گا، جہاں سو ضربیں مارنی ہو گی وہاں وہ ایک ہی ضرب مار کر کام بگاڑ دے گا، بندر کے ہاتھ میں استرا دینے کا انجام بھی سبھی جانتے ہیں، ٹرک ڈرایؤر کو اگر سپورٹس کار دیں گے تو وہ اس کو ٹرک ک انداز میں ہی چلائے گا۔ سو یہ بات آزمائی ہوئی ہے کے ہر شخص اپنی سمجھ بوجھ اور اہلیت کے مطابق اپنا کام کرتا ہے۔ معین اور مبین سمجھدار تھے وہ جس شعبے میں گئے وہاں پہ انہوں نے اپنی سوچ اور اہلیت کے مطابق اپنے شعبے کو چلایا جبکہ نعیم نے اپنی سوچ اور سمجھ بوجھ کے مطابق اپنے شعبے میں کام کیا۔ اس نے مدرسے میں اپنے معمول کیمطابق کام کیا، بے دھیانی، بے پروائی اور لاابالی پن نے اس کو ایک اچھا دیندار بنانے کی بجائے ایک شدت پسند ملا بنا دیا۔
میں اپنے معاشرے کی اس سوچ پر حیراں ہوں کہ اس معاشرے کے افراد کی ترجیحات دین نہیں بلکہ دنیا ہے، ہم نے اپنا کوئی اہم کام کروانا ہو تو ہم دیکھ بھال کے اس کام کا ذ مہ کسی ایسے فرد کو دیتے ہیں جو کہ اس کی اہلیت رکھتا ہو اور جو ہماری توقعات پہ پورا اترتا ہو جبکہ دین کے معاملے میں ہم اس بات کا خیال نہیں کرتے آیا پہ فرد ہمارے دین کی بھاگ دوڑ سمبھالنے کی اہلیت رکھتا بھی ہے؟ ہمارے معاشرے کا یہ رواج بنا ہوا ہے کہ جو لائق فائق بچے ہیں انہیں تو ہم اعلی تعلیم دلوا دیتے ہیں، ڈاکٹر، انجینئر بنا دیتے ہیں مگر جونکھٹو اور آوارہ ٹائپ ہوں انہیں مدرسوں میں ڈال دیتے ہیں۔ نعیم کے ساتھ بھی وہی ہوا، وہ مدرسے میں پہنچا تو اپنے جیسے بچوں کو وہاں پایا، پہلے جیسی صحبت ملی اور کوئی روک ٹوک بھی نہیں تھی سو اسی ماحول میں ڈھل گیا، قرآن پڑھنے لگا مگر صرف پڑھتا تھا، قرآن پڑھنے کی کتاب نہیں سمجھنے کی کتاب ہے مگر وہ صرف پڑھ رہا تھا، دوسروں سے سنتا تھا کہ قرآن میں لکھا ہے جہاد کا مطلب ہے جو کافر ملے اس کو قتل کر دو، خود تصدیق نہیں کرتا تھا کہ اسکا واقعی یہی مطلب ہے، اس طرح کی باتیں سن کر اس کے دماغ میں شدت پسندی بیٹھتی گئی، وہ ایک نا سمجھ دین دار بنتا گیا اور آخر کار وہ ایک دن مسجد کی امامت تک پہنچ گیا، اور پھر اس نے دوسروں کو وہی سکھانا شروع کر دیا جو آج تک خود سیکھتا رہا، یہاں سے اس معاشرے کی بربادی کا سفر شروع ہوتا ہے۔
کسی عمارت کی بنیاد ہی کمزور ہو تو وہ عمارت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی، اگر زیادہ دیر تک کھڑی رہے بھی تو اپنی اصل حالت میں نہیں رہتی، اسی طرح اگر ہمارے مذہب کی عمارت کی بنیاد کمزور ہو گی تو ہم اس طرح سے اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کر پائیں گے جس طرح سے اس کا حق ہے۔جب ہمارے مذہب کا پرچار کرنے والوں کو مذہب کی بنیادی باتوں کا ہی علم نہ ہوگا تو وہ کس طرح الجھے ہوئے مسائل حل کر سکے گے۔
جب ہماری سوچ ہی یہی ہو گی کہ ہم نے دین کے ٹھیکیدار ایسے ا فراد منتخب کرنے ہیں جو معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ہوں گے اور جن کی سوچ اور صلاحیتیں دیگر مثبت سوچ والوں کی نسبت منفی سمت میں زیادہ ہوں تو ہمارے دین کا یہی حال ہوگا جو آج ہو رہا ہے، پھر ہم کس منہ سے خدا سے یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے مذہب کا یہ حال کیوں ہو رہا ہے۔ ہمارے آج کے نام نہاد علماء اور عالم دین اپنی منفی سوچ سے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں جہاں پہ انتہا پسندی اپنے عروج پہ پہنچ رہی ہے اور ہم ایک دوسرے سے گلے ملنے کی بجائے ان کے گلے کاٹنے کی سوچ رہے ہیں، آج ہم ایک دوسرے کو سنی، شیعہ، بریلوی، وہابی کہتے ہیں مگر ایک دوسرے کو مسلمان نہیں کہتے اور ہمارا دشمن ہم سب کو مسلمان سمجھتا ہے، فرقہ بندی اور ذاتوں نے ہمیں اتنا دور کر دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی مسجدوں میں نماز تک نہیں پڑھ سکتے جب نماز جیسی عبادت ہم ساتھ ادا نہیں کر سکتے تو جنت میں کیسے ایک ساتھ رہیں گے؟
افسوس ہمارے آج کے علما ء نے ہمیں دین کو اس انداز سے نہیں سمجھایا جس طرح سے سمجھانا چاہیے تھا، میں یہ نہیں کہتا کہ آج کے سارے علماء کو دین کی اساس کا علم نہیں مگر ہمارے ہاں اکثر مساجد ایسے علماء کے ہاتھ میں ہے جو کہ معاشرے کو سنوارنے کی بجائے بگاڑنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہر شعبے میں کالی بھیڑیں ہوتی ہیں اور یہ ہمارا کام ہے کہ ایسے عناصر کی نشان دہی کر کے ان کو بے نقاب کیا جائے۔
میں نے اکثر ایسے مولانا حضرات دیکھے ہیں جو دین کی الف ب سے بھی واقف نہیں اور لوگوں کے ہجوم میں ایسے رہتے ہیں جیسے ان سے بڑا عالم دین کوئی نہیں، ہمارے علماء کو تو ایسے کردار کا حامل ہونا چاہیے کہ دوسرے مذہب کے لوگ انہیں دیکھ کر کہہ سکیں کہ ان کے عالم ایسے ہیں تو ان کا نبی کیسا ہو گا مگر افسوس ہم اس نبیﷺ کی تعلیمات پہ عمل کرنا تو ایک طرف اس کو ٹھیک طرح سے سمجھ بھی نا پائے۔ آج کے نام نہاد علماء کے اوپر آپ کچرا پھینک کر دیکھیں ان میں اس برداشت کا ایک زرہ بھی نہ ہوگا جس کی مشال میرے نبیﷺ نے قائم کی تھی۔
تو ضرورت ہمیں اس امر کی ہے کہ ہم نے اگر اپنے دین کی سہی طرح سے ترجمانی کرنی ہے تو ہمیں دین کی امامت کو ان لوگوں کے ہاتھ میں دینا ہو جو اسکی اہلیت رکھتے ہیں، اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس شعبے میں ایسے ہونہار اور لائق طالب علم بھیجیں جو اپنی سوچ اور طرز عمل سے ہمارے دین اسلام کو اس کی اصل رو سے روشناس کروا سکیں، جب ہماری بنیاد مضبوط ہو گی توہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن کے ابھرے گا۔ میری درخواست ہے ان والدین سے جن کی یہ سوچ ہے کہ کمزور ذہن کے بچوں کو مدرسوں میں ڈال دینے سے وہ ٹھیک ہو جائیں گے خدارا اس سوچ سے باہر نکلیں، آپ کو یہ فکر تو ہوتی ہے کہ اس بچے کو اعلی تعلیم دلوانے سے ہمارا ٹائم اور پیسہ ضائع ہوتا ہے مگر یہ فکر نہیں ہوتی کہ مدرسے میں ڈالنے سے آپ کے مذہب دین پر کتنے برے اثرات پڑے گے؟ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے باہر نکلنا ہے اگر ایک بار ہماری یہ سوچ بدل گئی تو پھر دنیا کا کوئی بندہ ہمارے مذہب پر انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکے گا۔

Back to top button