عالمی اُفق

بھارت،افغانستان اور ایران گٹھ جوڑ … عبد الستار اعوان

(احوا ل عصر)
بھارت،افغانستان اور ایران گٹھ جوڑ
عبد الستار اعوان۔[email protected]
سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف قومی سطح پر منظم انداز میں کارروائی کا آغاز‘اس میں کامیابی اور پھر چائنہ پاک اکنامک کوریڈور (سی پیک)کے منصوبے نے اس طر ف واضح اشارہ دے دیا کہ اب جلد وطن عزیز میں امن کی ٹھنڈی ہوائیں چلنے کے ساتھ ساتھ یہاں تعمیر و ترقی کے بھی ایک نئے دور کا آغازہو گالیکن ایسامحسوس ہو رہا ہے کہ عالمی طاقتیں وطن عزیز کو ہمیشہ خطرات میں گھرا دیکھنا چاہتی ہیں ‘یہاں مستقل طورپر بد امنی اور پسماندگی دیکھنے کی خواہاں ہیں‘ اسی لئے اب ان طاقتوں کا نیا گٹھ جوڑ سامنے آرہا ہے اور اس خطے میں بڑی تبدیلی رونماہونے جا رہی ہے ۔امریکہ و اسرائیل کی مکمل آشیر باد سے بھارت، ایران اور افغانستان کا گٹھ جوڑ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ یہ سہ فریقی معاہدے درحقیقت وطن عزیزکو خطے میں تنہا کرنے کی سازش ہیں ۔ ایک وقت تھا جب اہل نظر ایران کو پاکستان دشمن ریاست قراردیتے تھے تو ان کامذاق اڑایاجاتاتھا اور ایران پاکستان کی دوستی کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن اب برف جس تیزی سے پگھل رہی ہے اور آہستہ آہستہ بلی تھیلے سے باہر آرہی ہے تو اب انہی دوستوں پر آشکار ہواکہ واقعی ایران کا معاملہ کچھ اورتھا اور ہم غلطی پر تھے ۔ سی پیک اور گودار منصوبوں کے حوالے سے چین کے ایک سرکاری اخبارنے حال ہی میں اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ’’چاہ بہار براجیکٹ میں توسیع درحقیقت گوادربند رگاہ سے بغض کی علامت ہے اور یہ عزائم تعمیری نہیں تخریبی نوعیت کے ہیں۔ ‘‘
یہ کھلی حقیقت ہے کہ اس سہ فریقی گٹھ جوڑ کو پاکستان کی ترقی، خوشی اور امن کبھی گوارا نہیں ۔ اسی بناپر ایران جیسی طاقتیں ایک طرف نوشکی ڈرون حملے میں امریکی سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہیں‘را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی سرپرستی کرتی ہیں تو دوسری جانب انہوں نے گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبے کو اپنی اناکا معاملہ بنا کر سبوتاژ کرنے کاعہد کررکھا ہے ۔ سی پیک کی افادیت کو کم کرنے کیلئے بھارت نے افغانستان اور ایران کیساتھ مل کر نئی راہداری تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘علاوہ ازیں بھارت افغانستان کے مابین بھی تیزی سے کئی معاہدے طے پارہے ہیں ۔ حال ہی میں 23مئی کو ایران کے صدر روحانی ، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے چابہار بندرگاہ منصوبے پر سہ فریقی معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اس خطے میں بھارت ، ایران جیسی طاقتوں کو مستحکم کر کے درحقیقت چین اور پاکستان کیلئے مسائل کھڑے کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ ایران کی اہم بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر پچاس کروڑ ڈالر تک کی سرمایا کاری کرے گا اس کے علاوہ اس کا ایران میں کئی مشترکہ منصوبوں پر سینکڑوں ملین ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس موقع پر مودی کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ کے لیے بھارت کی جانب سے پچاس کروڑ ڈالر دستیاب ہیں ۔ نریندر مودی نے کہا کہ بھارت اور ایران کی دوستی نئی نہیں بہت پرانی اور تاریخی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک دوست اور پڑوسی کے طور پر دونوں ملک ہمیشہ ایک دوسرے سے ترقی اور خوشحالی میں شریک ہوئے ہیں،اس موقع پر دونوں ملکوں نے باہمی تعاون کے 12 معاہدوں پر دستخط کئے ہیں جن میں ثقافتی تعاون ، سائنس اور ٹیکنالوجی، ثقافتی تبادلے، چاہ بہار بندرگاہ کی ترقی اور چاہ بہار زہدان کے درمیان ریلوے لائن بچھانے سے متعلق معاہدے اہم ہیں۔دوسری جانب بھارت نے افغانستان کو رام کرنے کی خاطر ہرات میں سلمیٰ ڈیم کا افتتاح کیا ہے۔سلمیٰ ڈیم ایران کی سرحد سے متصل صوبہ ہرات میں چشت شریف کے مقام پر واقع ہے۔ 30 کروڑ ڈالر کی مالیت کے اس ہائیڈرو پراجیکٹ سے 42 میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکے گی اور تقریباً 75 ہزار ایکڑ اراضی کو پانی کی سہولت دستیاب ہوگی‘ اس سے پیشتر نریندرمودی 2015 میں کابل میں افغان پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کر چکے ہیں جو بھارت کے تعاون سے تعمیر کی گئی۔ماہرین ان سہ فریقی معاہدوں کو اس خطے میں گیم چینجرقراردے رہے ہیں کیونکہ 1947 کے بعد بھارت کوپاکستان کی مسلسل مخالفت اور افغانستان میں پاکستان کے اثرو رسوخ کے باعث وسطی ایشیا ریاستوں اور ایران تک رسائی نہیں مل سکی تھی لیکن نائن الیون کے بعد حالات میں جس تیزی سے تبدیلی رونما ہوئی وہ مسلسل بھارت کے حق میں گئی اور آج یہ حالات بن چکے ہیں کہ اس خطے میں پاکستان کوتنہا کرنے کی کوششیں زورپکڑ چکی ہیں اور خطے میں بھارتی بالادستی قائم ہونے جا رہی ہے۔ سی پیک منصوبے کی وجہ سے بھارت کی پاکستان کیخلاف سازشوں میں اضافہ ہو گیا ہے ‘ ایران میں اربوں ڈالر کی بھارتی سرمایہ کاری کوئی معمولی بات نہیں ‘ ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ’’ آج ایران کے لئے بھارت کا وہی مقام ہے جو پاکستان کے لئے چین کا ہے ‘‘۔
اس سہ فریقی گٹھ جوڑکے حوالے سے خدشات محض دیوانے کی بڑ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہیں‘یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جی ایچ کیومیں سول ملٹری قیادت کی مشترکہ کانفرنس ہوئی اور تمام ٹی وی چینلز اسے کریدنے کی کوشش کرتے رہے کہ اس کاایجنڈا کیا تھامگر اس کا نتیجہ کچھ نہ نکلا اوروہی بات دہرائی گئی جسے یہ قوم اک مدت سے سنتی چلی آرہی ہے کہ قومی و عسکری قیادت نے کہا کہ ’’ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں‘‘اس سے آگے کچھ بھی نہیں بتایا گیا ۔ سوال پیداہوتا ہے کہ آخر وہ کون سے خطرات ہیں جن کے متعلق یہ کانفرنس جی ایچ کیو میں بلاناپڑی اور میڈیا کو اس سے دور رکھا گیا۔ اس بارے میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے ایک جریدے میں تفصیلی مضمون لکھا جس کی چند سطورقارئین کی نذرکی جاتی ہیں : ’’حالیہ ایام میں ملک کی قومی سلامتی کو واقعی کئی خطرات کا سامنا ہوا۔ مثلاً پاکستان کی سرزمین پر اسے اعتماد میں لئے بغیر ملا اختر منصور پر امریکی ڈرون حملہ کیا گیا ۔ اب اگر افغان طالبان کا کوئی گروہ اس کا انتقام پاکستانیوں سے لینے کی ٹھان لے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کس مشکل صورتِ حال میں گرفتار ہو سکتا ہے۔دوسراپاکستان کو انڈیا کے سپرسانک بلاسٹک ائر ڈیفنس سسٹم کی کامیابی سے بھی خطرہ لاحق ہے۔ تیسرا اہم مسئلہ وزیراعظم بھارت نریندر مودی کا ’’مسئلہ‘‘ ہے،وہ پہلے ایران گئے اور چاہ بہار کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کئے،50 کروڑ ڈالر جناب حسن روحانی کی خدمت میں پیش کئے اور انہوں نے بصد شکریہ قبول فرمائے۔ چاہ بہار اور گوادر کا فاصلہ صرف 60میل ہے، لیکن چاہ بہار کی تعمیر میں بھارت کی فعال سرگرمیاں اور ’’پْھرتیاں‘‘ پاکستان اور ایران کے درمیان 60 میل کے اس فاصلے کو کئی’’ میل ‘‘تک بڑھا سکتی ہیں۔ اس کا فوری حل یہ ہے کہ اقتصادی راہداری (CPEC) کے معاملے میں نہایت سرگرمی اور سرعت سے کام لیا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ چاہ بہار کی ڈویلپمنٹ بہ نسبت گوادر کی ڈویلپمنٹ کے، بہت زیادہ وقت طلب اور دِقت طلب نہیں لیکن ہمارا ابھی ایک مغربی روٹ بھی مکمل نہیں ہوا۔ اگر کل کلاں ظاہر یا پوشیدہ طور پر چاہ بہار کی ڈویلپمنٹ میں امریکہ اور اسرائیل بھی اس میں شامل ہو گئے تو گوادر کے فعال (چالو) ہونے سے بہت پہلے چاہ بہار فعال ہو کر بھارت اور امریکہ کی مدد کر سکتی ہے۔ پاکستان کو اس خطرے کا جو شدید احساس ہے ، بس یہ کانفرنس اسی غرض سے بلائی گئی تھی اور قومی سلامتی کو خطرے کا جو ’’چوناگیرو‘‘ لگایا گیا وہ محض میڈیا اور عوام کے دکھاوے کے لئے لگایا گیا۔ کیونکہ یہ جو میڈیا پر ایسے اجلاسوں کے مقاصد اور ان کی تفاصیل بتائی جاتی ہیں یہ محض میڈیا اور عوام کی شکم سیری کا سامان ہوتا ہے۔وگرنہ تصور کریں کہ یہ جو میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ ہم اپنے قومی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، اپنی سرزمین کے ایک ایک انچ کا دفاع کریں گے، دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں (بھارت کی RAW اور افغانستان کی NDS) کے عزائم خاک میں ملا دیں گے، ان کے سہولت کاروں کو کہ جو پاکستان میں موجود ہیں، ختم کرکے دم لیں گے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں کسی رخنہ اندازی کو برداشت نہیں کریں گے تو کیا یہ پندو وعظ اور شیریں بیانی کوئی نئی خبر ہے؟۔۔۔ کیاہم اس گردان کو سینکڑوں بار نہیں سن چکے ؟ ‘‘ ******

Back to top button