ضابطہ حیات

*عین علم-عین علی*

محمد غفران حسین

اکثر یہ کلام سنتے ہیں *ہک نقطہ وچ گل مکدی ہے* ایک دن ایسے مجھ سے کسی دوست نے پوچھا کے اس کا مطلب کیا ہے؟
اسی وقت میں سوچنے لگا کہ کیا اس کا مطلب ہو سکتا ہے ایسے ہی خیال آیا ایک واقعہ یاد آگیا
کہ ایک شب ابن عباس نے مولا علیؑ سے خواہش کی کہ بسم اللہ کی تفسیر بیان فرمائیں۔ آپ نے ساری رات بیان فرمایا اور جب صبح ہو گئی تو فرمایا اے ابن عباس میں اس کی تفسیر اتنی بیان کر سکتا ہوں کہ ۷۰ اونٹوں کا بار ہو جائے بس مختصر یہ سمجھ لو کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہ سورة حمد میں ہے اور جو سورة حمد میں ہے وہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں ہے اور جو بسم اللہ میں ہے وہ بائے بسم اللہ میں ہے اور جو بائے بسم اللہ میں ہے وہ نقطہ بائے بسم اللہ میں ہے
* واَناَ النقطةُ اللتیِ تَحتَ الباء*
*اے ابن عباس میں وہی نقطہ ہوں ب کا *
ایسے ایسے میرے اندر چلا یہ کلام جو ہے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے
پھڑ نقطہ، چھوڑ حِساباں نوں
چھڈ دوزخ، گور عذاباں نوں
کر بند، کُفر دیاں باباں نوں
کر صاف دِلے دیاں خواباں نوں
گل ایسے گھر وِچ ڈُھکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے
سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے یہی جو نقطہ نہیں پکڑا
نقطہ نا تقسیم ہو سکتا ہے نا ٹوٹ سکتا ہے
جیسے ایک ایٹم جس سے قوت تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اسے ختم نہیں کیا جا سکتا ایسے ہی یہ احساس ہوا کے سارا قرآن رب کا کلام ہے یعنی منبع ہدایت ہے علم اور معرفت کا وہ سمندر ہے۔ جس میں ڈوب کر انسان کو حقیقت بھی ملتی یے اور منزل بھی ایسے ہی جناب ابن ابی طالب کی ذات اقدس ہدایت اور روشنی کی وہ شمع ہے جس کے ذریعہحضرت انسان کو راہ حق مل سکتی ہے
جیسے خود پیارے آقا فرما گئے
*علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ*
حق کیا ہے ؟
حق روشنی کا راستہ ہے۔
حق انسان کی مقصد حیات ہے۔
حق شعور اور معرفت کا ادراک ہے ۔
حق انسان کی پیدائش کا مقصد ہے۔

اس حق کی پہچان اور اس پر قائم رہنا ہی مشکل کام ہے
جیسے فرمایا مسلم شریف میں
* علی تم نے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور علی تم سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق*
ایک بہت بڑا دعویٰ اور چیلنج جو حضرت بوتراب نے منبر پر براجمان ہو کر فرمایا جو کے ان بعد نا کوئی کرے گا نا ان سے پہلے آقائے دو عالم کے سوا کسی بشر نے کیا۔ ۔ ۔
حاکم نے مستدرک میں کہا ہے : علی (علیہ السلام) منبر کے اوپر بلند آواز سے کہتے تھے
147 سلونی قبل ان لا تسالونی ، ولن تسالوا بعدی مثلی 148
پوچھو پوچھو جو پوچھنا ہے پوچھ لو
اس سے کہ میں دنیا سے چلاجاوں ، مجھ سے سوال کرو کیونکہ میرے بعد مجھ جیسا کویی نہیں ملے گا جس سے تم سوال کرسکو گے ۔
!!!…اللّلہ اکبر
جب آپ نے پردہ فرمایا تو کہ امام حسن بن علی ر ضی اللہ عنھما نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ گزشتہ کل تم سے وہ ہستی جدا ہو گئی ہے جن سے نہ تو گذشتہ لوگ علم میں سبقت لے سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے ان کے مرتبہ علمی کو پا سکیں گے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجتے تھے اور جبرائیل آپ کی دائیں طرف اور میکائیل آپ کی بائیں طرف ہوتے تھے اورآپ رضی اللہ عنہ کو فتح عطا ہونے تک وہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے المعجم الاوسط145 میں روایت کیا ہے۔
147 غیر مسلموں کی نظر میں آپ کا علمی مقام 148
مصنف انسائیکلو پیڈیا بڑ ٹانیکا لکھتے ہیں علیؑ علم اور عقل میں مشہور تھے اور اب تک کچھ مجموعے ضرب الامثال اور اشعار کے ان سے منسوب ہیں۔خصوصاََ مقالات علیؑ جس کا انگریزی ترجمہ ولیم پول نے ۱۸۳۲ء ء میں بمقام ٹونبرا شائع کرا یا ہے۔ ۳۹ مسٹر ایرونگ لکھتے ہیں ۔ آپ ہی وہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے علوم و فنون کی بڑی حمایت فرمائی۔ آپ کو خود بھی شعر گوئی کا پورا ذو ق تھا اور آپ کے بہت سے حکیمانہ مقولے اور ضرب الامثال اس وقت تک لوگوں کے زبان زد ہیں اور مختلف زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔کتاب خلفاء رسول صفحہ۱۷۸ مسٹر اوکلی لکھتے ہیں۔ تمام مسلمانوں میں باتفاق علیؑ کی عقل و دانائی کی شہرت ہے جس کو سب تسلیم کرتے ہیں۔ آپ کے صد کلمات ابھی تک محفوظ ہیں جن کا عربی سے ترکی میں ترجمہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے اشعار کا دیوان بھی ہے۔ جس کا نام انوار الاقوال ہے۔ نیزورڈ لین لائبریری میں آپ کے اقوال کی ایک بڑی کتاب (نہج البلاغہ )موجود ہے۔ آپ کی مشہور۴ ترین تصنیف 148جعفر و جامعہ 147ہے۔ جو ایک بیدالفہم خط میں اعداد و ہندسہ پر مشتمل بتلاتے ہیں۔یہ ہندسے ان تمام عظیم الشان واقعات کو جو ابتداء اسلام رہتی دنیا تک قائم ہونے والے واقعات کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ آپ کے خاندان میں ہے اور پڑھی نہیں جا سکتی البتہ امام جعفر صادقؑ اس کے کچھ حصے کی تشریح و تفسیر میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اس کو مکمل بارہویں امام کریں گے ، ۴۰ مورخ گلمن لکھتے ہیں ، آپ وہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے علم و فن اور کتابت کی پرورش کی اور حکمت سے مملو اقوال کا ایک بڑا مجموعہ آپ کے نام سے منسوسب ہے۔۔۔۔آپ کا قلب و دماغ ہر شخص سے خراج تحسین حاصل کر تا رہے گا۔۔۔آپ کا قلب و دماغ مجسم نور تھا۔۔۔آپ کی دانائی اور پر مغز نکتہ سنجی اور ضر ب الامثال کے ایجا د میں آپ کی فراست بہت ہی اعلیٰ پایہ کی تھی۔ ۴۱ بمبئی ہائی کورٹ کے جج مسٹر ار نولڈ ایڈ ووکیٹ جنرل ایک فیصلہ میں لکھتے ہیں۔شجاعت حکمت، ہمت ، عدالت، سخاوت، زہد اور تقویٰ میں علیؑ کا عدیل و نظیر تاریخ عالم میں کمتر نظر آتا ہے۔

نوٹ: نیلاب ڈاٹ کام میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔

Back to top button