ادبی دنیا
ملا جلا انتخاب
-
علی شاہ کی وفات پر ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کا کلام
شاعر ، ادیب اور صحافی علی شاہ کی وفات پر ڈاکٹر شاہدہ…
-
میانوالی کی معروف شاعرہ بلقیس خان کا بارگاہِ رسالت مآب میں نذرانہ عقیدت
نعتِ رسول مقبول ﷺ اس طرف آپ کی بس ایک نظر ھو…
-
*عین علم-عین علی*
محمد غفران حسین اکثر یہ کلام سنتے ہیں *ہک نقطہ وچ گل…
-
خاور جمال کی اُچھوتی تحریر …. دنیا کے آسیب زدہ ہوٹل اور میں "
دنیا کے آسیب زدہ ہوٹل اور میں………………… تحریر خاور جمال کسی بھی…
-
(شــاعــری* ) نوآموز شعراء وشاعرات کے کیے ایک معلوماتی مضمون)
*شــاعــری* ( نوآموز شعراء وشاعرات کے کیے ایک معلوماتی مضمون) تحریر ………..…
-
ارم ہاشمی کا خوبصورت اور بے مثال کالم ’’ بات وات ‘‘
بات وات ارم ہاشمی یہ میاں لوگ ّّ________ طویل انتظار،ٹھنڈ اور بے…
-
عنایت عادل کا کالم ’’ باالحق ‘‘
کارکردگی اور بیانات۔۔۔ کیا عوام کا حافظہ واقعی کمزور ہے؟ عنایت عادل…
-
اکسویں صدی کا پاکستان . کالاباغ میں انسان دوسرے انسان کا بوجھ کھینچتا ہے
اکسویں صدی کاپاکستان کالاباغ شہر کا محنت کش اپنے گھر کا چولہا…
-
اقدس طلحہ سندھیلا کی اُچھوتی تحریر ” ش سے شیرانی اور ش سے شلوار
“ش”سے شیرانی،”ش” سے “شلوار”، …… تحریر :ِاقدس طلحہ سندھیلا جب سے اسلامی…
-
ٹک ٹک ٹک۔۔۔ میانوالی سے توصیف احمد کی دلچسپ تحریر
ٹک ٹک ٹک۔۔۔ (توصیف احمد، میانوالی) بچپن کا زمانہ تھا اور دیگر…
-
جناب خالد اشفاق کا خوبصورت اختصاریہ ’’ سو لفظوں کا نگر ‘‘
جناب خالد اشفاق کا خوبصورت اختصاریہ ’’ سو لفظوں کا نگر ‘‘…
-
دُخترِ رسول پاک صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت
تو بادشاہے دو عالم کی ایک شہزادی میں اک غریب تیری گرد…
-
راکا پوشی کا چیلنج اور چند نوجوان سر پھرے بادل!. وقار احمد ملک
اندھیرا چھانے لگا جب گلگت سے ہنزہ کے لیے کوسٹر روانہ ہوئی۔…
-
"عورت خوشبو اور نماز ” کے شاعر محمد محمود احمد کی ایک خوبصورت غزل
غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد محمود احمد وجو د زرد ہو ا نبض ڈگمگانے…
-
تلواروں سے شلواروں تک ………. تحریر خرم مشتاق
تلواروں سے شلواروں تک ………. تحریر خرم مشتاق ویسے تو شلوار شرم…
-
میانوالی کے اُبھرتے ہوئے شاعر ناصر کمال ناصر کا کلام
جب بھی وہ رشکِ قمر فخرِ جمال آتا ہے دل دھڑکتا نئیں…
-
عمران خان کا قوم سے براہ راست خطاب ۔ نیلاب ڈاٹ کام نے براہ راست نشر کیا
عمران خان کا قوم سے براہ راست خطاب ۔ نیلاب ڈاٹ کام…
-
حضرت سیدعلی بن عثمان ہجویری المعروف داتاگنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
حافظ کریم اللہ چشتی گنج بخشِ فیض عالم مظہرِنورِخدا ناقِصاں راپیرِکامِل کاملاں…
-
شب براء تبخشش ومغفرت کی رات
حافظ کریم اللہ چشتی شعبان المعظم کی پندرہویں رات کو”شب براء ت…
-
اپریل فول! غیر شرعی اور غیر اسلامی رسم!۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصرؔ
قرآنِ پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں؛ یَا اَیُّھَا…
-
منصورآفاق کی خوبصورت غزل
غزل ……………… منصور آفاق مٹی مرا وجود ، زمیں میری جانماز پڑھتی…
شخصیات
-
شخصیات
انوار حسین حقی کا کالم ’’مشا ل ملک اور ایقانِ حریت ‘‘
حدِ ادب انوار حسین حقی مشا ل ملک اور ایقانِ حریت ____________ گذشتہ ڈیڑھ دہائی کے حالات و حوادث آزادی…
Read More » -
ادبی دنیا
دیوتا ……………… مرسلہ ظفر گھنجیرہ
عمران خان کے نام دیوتا من مندر کی مورت مت بولو، کہ جتنا بولے جا رہے ہو خود کو کھولے…
Read More » -
شخصیات
ایدھی – ایک فرشتہ جنت کو واپس ہوا … تحریر عدنان خان کاکڑ
ہم پاکستانیوں سے موجودہ دور کے محسن انسانیت کا پوچھا جائے تو کیا کسی کے ذہن میں عبدالستار ایدھی کے…
Read More » -
شخصیات
دیکھیئےوزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر نے کالاباغ کے بارے میں کیا کہا ؟
میانوالی ( انوار حقی سے ) وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر کے خاندان کا بنیادی تعلق تحریک انصاف کے…
Read More » -
شخصیات
آہ معراج محمد خان …. ” کیا دولتَ نایاب لُٹی ہے موت کے ہاتھوں "؟
معراج محمد خان: غریب کا ساتھی رخصت ہوا .. تحریر :.عثمان غازی جمہوریت کو مذاق سمجھنے والے کیا جانیں کہ…
Read More » -
شخصیات
ِ.. مولانا شیرانی: مجموعہ کمالات وتنازعات
مولانا شیرانی: مجموعہ کمالات وتنازعات. تحریر … بخت محمد برشوری بچپن میں روز شام کو قریب کے سرکاری ڈیری فارم…
Read More »
تاریخ
-
کپٹن (ر) صفدر کے آباؤ اجداد کا تعلق میانوالی کے علاقے کالاباغ سے ہے ۔
کپٹن (ر) صفدر کے آباؤ اجداد کا تعلق میانوالی کے علاقے کالاباغ سے ہے ۔
مسلم لیگ ن کے رہنماء کپٹن ( ر) صفدر نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران کو الیکشن لڑنے کا چیلنج دے دیا ہے ۔ نجی ٹی وی کے مطابق کپٹن ( ر ) صفدر نے کہا ہے کہ عمران خان راولپنڈی سے سیٹ چھوڑ دیں اور میں مانسہرہ سے اپنی نشست چھوڑ دوں گا ۔ یہ چیلنج کپٹن صفدر نے اس وجہ سے عمران خان کو دیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کپٹن ( ر) صفدر نے اپنی اہلیہ کے اثاثے چھُپائے ہیں اس لیئے انہیں نااہل قرار دیا جائے ۔۔۔۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کپٹن ( ر ) صفدر نے ایک مرتبہ عمران خان کو ان کے آبائی حلقے میانوالی سے الیکشن میں مقابلے کا چیلنج بھی دیا تھا ۔۔ ذرائع نے اس دلچسپ امر کا انکشاف بھی کیا ہے کہ کپٹن ( ر ) صفدر کے آباؤ اجداد کا بنیادی تعلق پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے آبائی حلقہ انتخاب ( این اے 71 ) میانوالی کے علاقے کالاباغ سے ہے ۔ کپٹن(ر) صفدر کے بزرگ کافی پہلے کالاباغ سے مانسہرہ کی جانب نقل مکانی کر گئے تھے ۔ یاد رہے کہ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی مرحوم نے کئی مرتبہ اس بات کا ذکر کیا تھا کہ کپٹن ( ر) صفدر کا آبائی علاقہ کالاباغ ہے ۔۔۔۔ دریائے سندھ کے پہلو اور کوہستان نمک کے سلاگر پہاڑ کی ڈھلوان پر واقع کالاباغ اپنے قدرتی نظاروں کے حوالے سے ہی خوبصورت نہیں بلکہ سینکڑوں سالہ تاریخ کا امین بھی ہے ۔ اس شہر نے مغربی پاکستان کے سابق گورنر ملک امیر محمد خان نواب آف کالاباغ کی وجہ سے شہرت حاصل کی آجکل اس شہر کا نام کالاباغ ڈیم کے حوالے سے بھی معروف ہے ۔ یہ قدیم اور تاریخی شہر عمران خان کے حلقہ انتخاب این اے 71 کا اہم ترین علاقہ ہے۔ -
ہندوؤں کی مقدس کٹاس جھیل
ہندوؤں کی مقدس کٹاس جھیل
___________________ انوار حسین حقی
چکوال خطہ پوٹھوہار کا ایک معروف ضلع ہے ۔ تاریخی ورثے کے حوالے سے اس علاقے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ یہاں کے جو تاریخی مقامات اپنا منفرد اور قدیمی پس منظر رکھتے ہیں اُن میں کٹاس کا قلعہ ، ملوٹ کا قدیم قلعہ ، کُسک کا قعلہ ، کلر کہار کا تختِ بابری ، باغِ صفا ، موروں والا حق باہو کا مزار قابلِ ذکر ہے ۔ یہ اور ان جیسے اور بہت سے دوسرے آثار ، نشانات اور صنادید اپنے اندر سینکڑوں بلکہ ہزاروں سالہ تاریخ سموئے ہوئے ہیں ۔ سطح مرتفع کوہستان نمک ( پوٹھوہار ) کے اس علاقے کے تاریخی مطالعے کے دوران شری راج کٹاس جانے کا موقع ملا ۔ یہ ہندوؤں کے لیئے ایک مقد س مقام ہے ۔ یہ علاقہ چھ ہزار سال کی طویل تاریخ کا حامل اور ہندوؤں ، سکھوں بودھوں اور مسیحوں کی تہذیبوں کا گہوارہ اور سنگھم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ عظیم مسلمان محقق البیرونی نے اسی علاقے میں زمین کا محور ناپنے کے حوالے سے اپنا نظریہ پیش کیا تھا ۔ یہاں قدم قدم پر تاریخ بکھری پڑی ہے ۔
’’ شری کٹاس راج‘‘ میں ہندوؤں کے مقدس چشمہ کے ساتھ ساتھ بہت سے مندراور سٹوپے بھی موجود ہیں ۔ مختلف مورخین کے ساتھ ساتھ ساتویں صدی عیسویں کے چینی سیاح ہیون سانگ بھی اس علاقے کا ذکر کرتا ہے ۔آج کی قسط میں کٹاس جھیل کے حوالے سے کچھ معلومات قارئین کی نذر کی جائیں گی۔
کوہستان نمک کے درمیان چکوال سے جنوب کی جانب 35 کلومیٹر کے فاصلے پر کٹاس کا چشمہ موجود ہے ۔ اس چشمے کو ہندو مت میں بہت زیادہ تقدس حاصل ہے ۔ روایات کے مطابق کٹاس ابتداء ہی سے ایک مقدس جگہ ہے ’’مہا بھارت ‘‘ (جو مسیح علیہ السلام سے سے تین سوسال پہلے کی تصنیف ہے) میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ سبحان رائے بٹالوی اپنی تصنیف ’’ خلاصتہ التواریخ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ مکھیالہ کے علاقے میں ایک جگہ کوٹ چھینہ ہے یہاں کی جھیل اتنی گہری ہے کہ کوئی آدمی اس کی گہرائی نہیں جانتا یہ قدیم ایام سے ایک پرستش گاہ تصور کی جارہی ہے ۔مقدس دنوں میں جب سورج بُرج حمل سے بُرج صوت میں داخل ہوتا ہے تو ہندو لوگ گروہ در گروہ اس جگہ نہانے کے لیئے اکٹھے ہوتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ زمین کی دو آنکھیں ہیں دائیں آنکھ تو اجمیر کے قریب پشکر کی جھیل ہے اور بائیں آنکھ یہ جھیل ہے ‘‘
اس کے پس منظر کے حوالے سے تاریخِ جہلم میں مرقوم ہے کہ براہمنون کی روایت کے مطابق جب شو دیوتا کی بیوی ستی مر گئی تو وہ اتنا دُکھی ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندی جاری ہو گئی اور ان سے دو مقدس تالاب معرضِ وجود میں آ گئے ایک اجمیر کا پشکر اور دوسرا کٹک شیل۔ سنسکرت میں اس کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے ۔ یہ لفظ بعد میں کثرتِ استعمال سے کٹاس بن گیا ۔
ڈاکٹر سٹین کا کہنا ہے کہ ’’ سالٹ رینج کے درمیان ایک مقدس چشمہ یا تالاب جو پنڈدانخان سے 15 میل کے فاسلے پر ہے شمال مغرب 43 فٹ ۔32 ڈگری اور مشرق کی جانب49 فٹ 72 ڈگری پر واقع ہے یہ تالاب گنیاں نالے کے سرے پر واقع ہے یہ تالاب سطح سمندر سے دوہزار فٹ سے زیادی بلندی پر ہے یہ پہاڑی چشموں کے پانی سے بھرا رہتا ہے اس کے ارد گرد کے علاقے سے ایک چھوٹی ندی چوآ سیدن شاہ کے پاس سے گزرتی ہوئی گندہالہ وادی میں داخل ہوتی ہے ۔ ‘‘
جنرل کننگھم نے بھی ان آثارِ قدیمہ کا حوالہ دیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کٹاس کا مقدس چشمہ جولا مکھی کے بعد پنجاب میں یاتریوں کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے ۔ براہمنوں کی ایک روایت کے مطابق شوجی مہاراج کو دکشیا کی بیٹی اور اپنی بیوی ستی کی موت پر اتنا دُکھ ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندی جاری ہو گئی جس سے دو تالاب بن گئے ان میں سے ایک اجمیر کے قریب پشکر یا پوکھر ہے اور دوسرا کٹک شاہ یا کٹاس جو کہ دوآبہ سندھ ساگر میں ہے کاٹکشا کا معنی ’’ برستی آنکھیں ‘‘ ہے لیکن اس جگہ کے جاہل براہمن اس کا تلفظ کٹاشا یا کٹاکشا کرتے ہیں ۔ اگرچہ کہ وہ اس کا مطلب وہی بتاتے ہیں تالاب جزوی طور پر مصنوعی ہے چٹان کو کاٹ کر گنیاں نالہ کی گذر گاہ میں واقع قدرتی طاس کو چوڑا کر دیا گیا ہے ۔ تالاب کے اُوپر ہاتھوں سے بنی ہوئی ایک مضبوط دیوار ہے ۔ جس کی چوڑائی سوا دو فٹ اور اونچائی 19 فٹ ہے ۔ یہ دیوار ایک ساتھ ہی تعمیر کی گئی تھی تاکہ نالے کے پانی کو اکٹھا کرکے ایک بڑی جھیل بنا لی جائے ۔براہمنوں کا خیا ل ہے کہ یہ بندر اجہ پاتک یا پتک جو دہلی کے کسی حکمران کا وزیر تھا، نے تعمیر کروایا تھا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مقدس تالاب کو محفوظ رکھا جائے اور فالتو پانی کا اخراج عمل میں لایا جائے ۔ پانی کی سُرنگ جو122 فٹ لمبی تھی چٹان کاٹ کر بنائی گئی تھی ۔ جو پانی کو اُٹھا کر تالاب کے نیچے ایک مقام پر لے جاتی تھی چونکہ تالاب اپنے اندر بھی چشمے رکھتا ہے یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہ پانی کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیئے اکٹھا کیا گیا ہو ۔ ‘‘
اس جھیل یا چشموں کے حوالے سے ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی ( سابق ڈپٹی کمشنر چکوال ) کی مرتب کردہ تاریخ چکوال میں تحریر ہے کہ ’’ پنڈت موہن لال جو نومبر1983 ء میں ہندو یاترویوں کے لیڈر کی حیثیت سے یہاں آئے تھے ان کے بقول ’’ کٹاس راج کا اصلی نام ’’ کے ٹیکش راج ‘‘ تھا اس کے لفظی معنیٰ ناگوں کا بادشاہ ہے اس جگہ کا تعلق بھگوان شنکر یا شو جی مہاراج سے ہے یہ علاقہ پہلے بھی اور آج بھی سانپوں کا مسکن ہے ۔ سناتن دھرمی ہندوؤں کا اعتقاد ہے کہ بھگوان شنکر کا ظہور اسی جگہ پر ہوا تھا یوں ان کی جائے ظہور سے ایک چشمہ پھوٹ نکلا ۔ جس سے امرت ( ہجیات ) بہنے لگا چونکہ بھگوان شنکر سانپوں کا بادشاہ ہے اس لیئے کٹاس راج جھیل سانپوں سے بھری پڑی ہے لیکن وہ شاذو نادر ہی کسی کو ضرر پہنچاتے ہیں ۔۔
کٹاس راج کے حوالے سے بہت سے تاریخی حوالے موجود ہیں ۔ ہرسال ہندو یاتریوں کی بڑی تعداد یہاں عبادت کے لیئے آتی ہے ۔ بتایا گیا گہ ایک سال میں تقریباً دو مرتبہ ہندو یاتریوں کے جتھے اپنی عبادات کے لیئے اس علاقے کا رُخ کرتے ہیں ۔ ہندو یاتری مردو خواتین کٹاس کی مقد جھیل میں اشنان کرتے ہیں ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس جھیل میں اشنان کرنے سے پاپ جھڑتے ہیں اور دکھ بیماریاں دور ہوتی ہیں ۔ اس جھیل پر محکمہ اوقاف نے خواتین کے اشنان کے لیئے علیحدہ باتھ روم بنایا ہے جو ایک کمرے میں ہے ۔ بھارت سے آنے والے ہندوؤ یاتری یہاں سے پانی ڈبوں میں بھر کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔ اس جھیل کے حوالے سے مشہور روایتوں میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایسی متبرک جھیلوں میں سونے اور چاندی کے زیورات اور سکے بھی ہوتے ہیں ۔ ’’ ڈپٹی کمشنر کی ڈائری ‘‘ میں ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی لکھتے ہیں کہ ’’ اس جھیل کے کنارے بریگیڈیر گلزار احمد کا گھر تھا انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ زمانہ قدیم میں ہندو خواتین اور مرد منت مانگنے کے لیئے اپنے زیورات اور سکے جھیل میں پھینکتے تھے ‘‘۔۔
شری کٹاس راج میں ہندوؤں ، بدھوں اور سکھوں کی عبادت گاہیں بھی ہیں جن کے بارے میں تفصیل علیحدہ سے بیان کی جائے گی ۔ کٹاس راج اس وقت متروکہ وقف املاک میں شامل ہے پنجاب کا محکمہ اوقاف اس کی نگرانی کر رہا ہے ۔ یہاں قائم چونے ریت اور مختلف دالوں سے تیاری کی گئی عمارتیں کئی سو سال قدیم ہونے کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار ہیں ۔ ستمبر 1948 ء کی قیامت خیز بارش نے ان قدیم عبادت گاہوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا ۔ ایودھیا میں بابری مسجد شہید کیئے جانے کا ردِ عمل بھی یہاں دیکھنے میں آیا تھا۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 11 جنوری کو راج کٹاس مندر کی تعمیرِ نو ، تزئین اور ضروری سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے ایک تقریب میں بھی شرکت کی ۔ پاکستان نے ہمیشہ اقلیتوں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی ہے ۔ایسے مقامات کی مناسب دیکھ بھال ہمارا فرض بھی ہے اور اپنے علاقے کے تاریخی ورثے کی دیکھ بھال اور اُسے محفوظ بنانا ہماری قومی ذمہ داری بھی ہے ۔